عقل کے جزیرے

طارق محمود میاں  ہفتہ 2 نومبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

بہت سوں کو مجھ سے اختلاف ہو گا مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ جوں جوں تعلیم بڑھ رہی ہے جاہلوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تعلیم، علم کے جزیرے پیدا کر رہی ہے، شاید یہ سب روبوٹ ہیں جن میں سے ہر ایک کی ایک خاص سمت میں پروگرامنگ کی گئی ہے۔ وہ ایک چیز جسے ’’وزڈم‘‘ کہتے تھے معدوم ہوتی جا رہی ہے، اب یہ سب اس آنکھ سے محروم ہیں جو نہ صرف دیکھتی تھی بلکہ سمجھتی بھی تھی۔ یوں جیسے ہاتھی کے بدن پر ہاتھ پھیر کے اس کی ساخت کے بارے میں رائے دینے والے اندھے۔ کسی کو ہاتھی سانپ جیسا لگتا ہے تو کسی کو دیوار جیسا۔  مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں چلے جائیں، وہاں کی یونیورسٹیوں کا چکر لگائیں۔ انتہائی ذہین طالب علم بھی آپ کو صرف اپنے میدان میں ذہین نظر آئے گا۔ عمومی گفتگو میں وہ سب بھوندو ہی ثابت ہوں گے، آپ ان سے پانچ منٹ سے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے، انھیں باقی دنیا بلکہ اپنے شہر سے باہر کی بھی خبر نہیں ہوتی۔

شاید اس لیے کہ انھیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو دنیا جہان کی اور دنیا جہان کے ہر ایشو کی خبر رکھتے ہیں۔ دنیا کی ریٹنگ میں ہمارا نمبر ایک سو بیس ہے تو ظاہر ہے ہمیں اپنے سے اوپر والے ایک سو انیس ملکوں کے حال چال سے دلچسپی تو ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کے ہر مسئلے میں پی ایچ ڈی کر لی ہے۔ بس پھر اس سے اگلا کام یہی ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں حسب توفیق دخل دیا جائے۔ ڈاکٹریٹ کی اتنی ساری ڈگریاں رکھنے والا شخص ہر جگہ پنگا نہیں لے گا تو پھر اور کون لے گا۔ لیکن افسوس کہ حقیقی صورت حال وہی ہوتی ہے جس کا میں نے اوپر پہلے پیراگراف میں ذکر کیا ہے۔ ہاتھی کے بدن پر ہاتھ پھیر کے رائے دینے والے نابینا پی ایچ ڈی۔ ایسے افراد میں صرف وہ نوجوان ہی شامل نہیں ہیں جنھیں میں نے ’’علم کے جزیرے‘‘ کہا ہے بلکہ وہ بزرگ سیاست دان، ریٹائرڈ فوجی اور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں جو بالکل فارغ ہوتے ہیں۔

ان کا دماغ بھی فارغ ہوتا ہے۔ خالی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہاں کون رہتا ہے؟ یہ بیٹھے بیٹھے عوام کو طرح طرح کی بحثوں کی بھٹی میں جھونکتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس دلیل کا سب سے بڑا ہتھیار ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘ کا جملہ ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کے پاس دولت ہو اور وہ بد دیانت نہ ہو۔ یا پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اقتدار میں رہا ہو اور اس نے لوٹ مار نہ کی ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بحثوں میں اور بھی بہت سی نعرے بازیاں خوب فروخت کی جاتی ہیں۔ مثلاً تواتر کے ساتھ یہ مطالبہ کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر آئیں۔ بینکوں کا قرض پی گئے ہیں اسے باہر نکالیں۔ فلاں پارٹیاں بدلتا ہے۔ فلاں ڈکٹیٹر کا پالا ہوا ہے۔ فلاں نے رشتے داروں کو عہدے دیدیے ہیں۔ اقتدار کا بھوکا ہے۔ حقیقت سے ان الزامات کا کتنا واسطہ ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔ ہاں البتہ سڑک پر تماشا لگانے کے لیے یہ مداری کی اچھی خوراک ہے اور وہ تماشا لگاتے ہیں تو لگاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جگالی پہ جگالی کرتے جاتے ہیں۔ جوش حماقت میں دو ایک کو تو میں نے اپنا سر پیٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ حالانکہ ان کی منطق کی سطح کو دیکھ کے جی تو یہ کرتا تھا کہ ان کا یہ کام دوسروں کو کرنا چاہیے تھا۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ عرصہ ہوا ایک صاحب کو میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف چیلنج دینے کے بعد دستاویزی ثبوتوں کا پلندہ لے کر آئے تھے اور پھر اپنے ہی اخبار میں اپنی ہی دی ہوئی خبروں کی فوٹو کاپیاں دکھا دکھا کے اکڑ رہے تھے۔ اینکر ان کے ساتھ ڈوئٹ گا رہا تھا کہ اب ان ’’ثبوتوں‘‘ کے بعد باقی کیا رہ گیا ہے۔ ایک تماشا یہ بھی ہے کہ خیالات میں دائیں اور بائیں بازو کی کسی واضح تفریق کے بغیر ہی یہ تمام بحث باز دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو مذہب، ملک اور عقل دشمن قرار دیتے ہیں۔ جس نے ایک موقف اپنایا دوسرے گروہ نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کے اس کی مخالفت کرنی ہی کرنی ہے۔ حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت ہو گئی تو ایک گروہ اس صف میں کھڑا ہو گیا ہے جو اسے خوش آئند تصور کرتا ہے اور طالبان سے مذاکرات کے خلاف ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو مذاکرات کا حامی ہے۔ اس کی نظر میں حکیم اﷲ محسود کی موت مذاکراتی عمل کی موت ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کر رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو گروہ خود کو بائیں بازو کا نمائندہ کہتا ہے وہ جی جان سے امریکی موقف کا حامی ہے۔

آپ کبھی ان کی بحث پر غور کر کے دیکھیں کہ اس میں بحث برائے بحث کا کتنا دخل ہے اور عقل کا کتنا حصہ ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ عقل چیخ نہیں مارا کرتی اور اس کے منہ سے جھاگ بھی نہیں اڑا کرتی۔ یہی رویہ ہمیں دیگر معاملات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ملالہ کا ذکر ہو، الیکشن کمیشن کی کارکردگی ہو یا وزیر اعظم کا دورہ۔ علم کے یہ جزیرے عقل کے بھی جزیرے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ریٹائرڈ بزرگ جنھوں نے اپنے تجربے اور عمر کے ذریعے کئی زمانے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں فرمانے لگے ’’وزیر اعظم نے ملاقات کے بعد جو بات کی کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا چاہیے، میرا اندازہ ہے کہ یہ الفاظ صدر اوباما کے تھے‘‘ لاحول ولا قوۃ۔ گویا ’’اندازہ‘‘ لگا کے بھی برا بھلا کہنے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ یار تم یونہی ان باتوں پر کڑھتے رہتے ہو۔ گندگی پھیلانا اور گندگی کو قائم رکھنا تو ہماری مجبوری بھی اور شاید فطرت بھی۔ گندگی دور کرنی ہو تو ہم بیوی کو آواز دے کے کہتے ہیں ’’ڈارلنگ کوئی گندا کپڑا تو پکڑانا میں نے صفائی کرنی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔