تعلیم، تیرا بھی اللہ حافظ

شیریں حیدر  ہفتہ 2 نومبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ہاں تو زارا… اب تو تم یقینا اپنی زندگی اور بچے سے لطف اندوز ہو رہی ہو گی، ملازمت چھوڑ کر؟ ‘‘  میں نے یہ جان کر کہ زارا تقریبا چھ ماہ سے اپنے سسرال میں اسلام آباد میں رہ رہی تھی، پوچھا۔ زارا میری ایک بہت قریبی سہیلی کی بہو ہے اور تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی تھی اور اس کا تبادلہ باغ ( کشمیر) میں تھا، میں نے اس کا منطقی نتیجہ یہی نکالا کہ اس نے ملازمت کو خیر باد کہہ دیا ہے یا اس کا تبادلہ اسلام آباد میں ہو گیا ہے۔’’میں نے ملازمت تو نہیں چھوڑی آنٹی، اتنی اچھی ملازمت ہے اور قابل پنشن بھی، کافی مراعات ہیں اور پھر سال بھر میں مہینوں چھٹیاں … ایسی ملازمت کوئی کیوں چھوڑے گا؟ ‘‘ اس نے فوراً میری بات کی تردید کی۔’’اچھا تو کیا تم maternity leave  پر ہو… ‘‘ میں نے سوال کیا، ’’کتنے عرصے کی میٹرنٹی کی چھٹی ہے تمہاری اور یہ تنخواہ سمیت ہے کیا؟  ‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں اس سے کئی سوالات پوچھ ڈالے، کچھ نہ کچھ بات تو کرنا تھی کہ میں اس کے پاس تنہا بیٹھی تھی۔

’’نہیں آنٹی! میں نے دو ماہ کی چھٹی لی تھی، وہ پوری تنخواہ سمیت ملتی ہے اور اس کے بعد سے میں باقاعدگی سے ملازمت پر ہوں !‘‘ اس نے پلیٹ میری طرف بڑھا کر کباب کی ڈش میری طرف بڑھائی۔

’’اچھا تو پھر اسلام آباد تبادلہ ہو گیا ہو گا تمہارا؟ ‘‘ میں نے کباب لے کر اس کا شکریہ ادا کر کے ڈش اس کی طرف بڑھائی۔’’میرا تبادلہ اسلام آباد کیسے ہو سکتا ہے آنٹی،  میرا ڈومیسائل کشمیر کا ہے نا!‘‘ اس نے جواب دے کر چٹنی پیش کی۔

’’تو پھر… ‘‘ میں نے چٹنی پلیٹ میں ڈال کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’آنٹی میں باقاعدگی سے ملازمت کر ہی ہوں، وہ بھی باغ میں! ‘‘ اس نے اپنی پلیٹ میں بھی کباب ڈالا۔

’’کیا تم مجھ سے مذاق کر رہی ہو اور مجھے یہ بتانا چاہتی ہو کہ تم ہر روز اسلام آباد سے باغ جاتی ہو اور واپس آتی ہو… یا پھر یہ کہ تم پیر کو چلی جاتی ہو اور جمعے کو واپس آ جاتی ہو؟ ‘‘ میں نے سوال داغا۔’’میں گھر پر ہی ہوتی ہوں آنٹی، اشعر کی دیکھ بھال کر رہی ہوں اور اپنے سسرال میں رہ رہی ہوں … میرا شوہر بھی یہاں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے… میں دو تین ماہ کے بعد ایک دفعہ چکر لگا لیتی ہوں ! ‘‘ اس نے کباب کھاتے ہوئے لا پروائی سے بتایا۔

’’تو کیا تمہارا بھوت وہاں پڑھاتا ہے؟‘‘ میں نے اپنا غصہ دبانے کی کوشش کی، وہ مسلسل پہیلیاں بھجوا کر میر ی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہو رہی تھی، میں نے اس کا بچہ بھی صوفے پر لٹا دیا تھا۔’’آنٹی… میری جگہ پر وہاں ایک اور ٹیچر ہے جو پڑھاتی ہے، میں یہاں ہوں مگر وہاں ہر روز میری حاضری لگ جاتی ہے!‘‘ اس نے مسکرا کر بتایا۔

’’وہ ٹیچر تمہاری جگہ کیوں پڑھاتی ہے، اس کی اپنی جگہ کون پڑھاتا ہے اور کیوں؟‘‘ مجھے اس کے اس معمہ نما سوال کی سمجھ کہاں آئی تھی۔’’اس کی اپنی کوئی جگہ نہیں آنٹی، وہ ایک مڈل پاس غریب لڑکی ہے اور اس کے پا س کوئی ملازمت نہیں ہے، وہ مالی ضرورت مند تھی اور مجھے اپنی کوئی subsitute  چاہیے تھی، سو ہم نے یہ ڈیل کر لی، وہ میری جگہ پڑھاتی ہے! ‘‘

’’مگر بیٹا آپ تو ایک سرکاری ملازم ہو جب کہ وہ لڑکی… ‘‘ میں رکی، ’’کیا  اس ادارے کی انچارج کو نہیں علم ہو جائے گا کہ وہ لڑکی اصل میں زارا نہیں کوئی اور ہے؟‘‘

’’ہا ہا ہاہا… ‘‘ اس کی ہنسی رکنے میں ہی نہ آ رہی تھی، ’’ آپ بھی کتنی بھولی ہیں آنٹی! ‘‘ آج سے چند برس پہلے کوئی ہمیں یوں بھولا سمجھتا تو دل بلیوں ناچ اٹھتا مگر اس عمر میں کہ جب رخش وقت رفتار پکڑ لیتا ہے… اور ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب جانا ہو جائے، خود کو عقل کل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، لوگ ہمیں دانشور کہیں تو خوشی ہوتی ہے، اس عمر میں کسی کا یوں ہمیں بھولا سمجھنا اور نہ صرف سمجھنا بلکہ کہہ بھی دینا، کسی گالی کی مانند لگا تھا۔’’چلو اچھا ہے بیٹا، ہم بھولے ہی بھلے!‘‘ میں نے طنز سے کہا۔’’سوری آنٹی آپ برا مان گئیں!‘‘ اس نے فورا اپنی ہنسی روکی، ا س کی ساس محترمہ اور میری سہیلی بھی تشریف لا چکی تھیں اور شامل محفل تھیں، ’’اصل میں ایسا ہے آنٹی کہ میرا تبادلہ تو یہاں نہیں ہو سکتا تھا اور میرے شوہر یہاں ملازمت کرتے تھے، میں شادی سے پہلے سے ملازمت کرتی ہوں اور لگ بھگ پندرہ برس ہو چکے ہیں، ملازمت چھوڑ دوں تو تمام فوائد سے محروم ہو جاتی تھی، نصیب میں اسلام آباد آنا لکھا تھا، سو میں نے اپنے ادارے کی ہیڈ سے بات کرکے، یہ سب انتظام کیا اور اپنی جگہ انھیں ایک استاد فراہم کر دی۔ ہر ماہ میری تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں جاتی ہے اور اس میں سے پانچ ہزار کا چیک وہ اس لڑکی کے حوالے کر دیتی ہیں۔

بقایا اٹھارہ ہزار میرے اکاؤنٹ میں رہ جاتا ہے جو میں یہاں پر ATM کے ذریعے نکال لیتی ہوں… ان کا کام بھی چل رہا ہے اور میرا بھی! ‘‘’’تو اس انچارج کو اس سارے قصے میں کیا ملا؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا، ’’ اور آپ ایک ایم اے ، ایم ایڈ پاس استاد ہیں اور وہ ایک مڈل پاس لڑکی… کیا موازنہ ہے ان دونوں کا؟ ‘‘ ’’کر لیتے ہیں سب بندوبست… پڑھانا ہی ہے نا، جتنا میں پڑھاتی تھی اتنا وہ بھی پڑھا لیتی ہے… اور انچارج چونکہ میری رشتہ دار ہے تو میں کبھی کبھار انھیں تحفے تحائف دے دیتی ہوں البتہ اگر کسی اور کو ایسا ہی انتظام کرنا ہو تو وہ کچھ نہ کچھ طے کر لیتے ہیں… ‘‘ اس نے بم پھوڑا تھا میرے کان کے عین پاس۔ ’’کیا ایسا وہاں بہت عام ہو رہا ہے؟ ‘‘ میں نے یونہی سوال کیا حالانکہ اس کے جواب کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا۔’’ہاں آنٹی… اصل میں میرے جیسے لوگوں کے مسائل کو حکومت تو نہیں سمجھتی … تو ہم نے خود ہی اپنے مسائل کا کوئی حل ڈھونڈنا ہے نا… ‘‘  میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس کا منہ چوم لوں، اس کے لیے تالیاں بجاؤں، میں حکومت میں ہوتی تو ضرور ایسا کرتی کہ میرے عوام میں سے کسی کو تو حکومت کا درد اور احساس ہے، ’’دو تین ایسے کیس تو ایک تنہا ہمارے والے ادارے میں ہی ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں!‘‘’’تو آپ لوگ اپنا ڈومیسائل  تبدیل کروا لیں! ‘‘ میں نے اسے مشورہ دیا۔’’جعلی ڈومیسائل آنٹی؟‘‘ اس  کے لہجے میں اتنی حیرت تھی کہ جیسے میں نے اسے شراب کا گلاس پیش کر دیا ہو… ’’ اچھا؟ وہ کیسے اور کہاں سے؟‘‘

’’ہونہہ…‘‘ میں نے طنز سے کہا، میں تو سمجھی تھی کہ وہ میرے مشورے کو برا سمجھ رہی تھی مگر اسے تو یہ مشورہ پسند آیا تھا، ظاہر ہے کہ گڑ کھانے والے گلگلوں سے پرہیز کیوں کریں گے…’’کہاں سے ملے گا آنٹی اور کیا واقعی مل جائے گا؟  کیا آپ نے سنا ہے کہ کہیں ایسا ہوتا ہے؟ ‘‘ اس کی بے قراری دیدنی تھی۔’’میرے سننے کا کیا ہے بیٹا،  میں تو بھولی ہی بہت ہوں، میں نے تو یہ بھی آج پہلی بار سنا ہے جو تم کر رہی ہو اور تمہارے جیسے کئی اور اور مجھے پورا یقین ہے کہ صرف یہی علاقہ نہیں… ملک کے کئی دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے ایسی اختراعات کر رکھی ہو ں گی… جس طرح تمہیں اپنی جگہ ایک مڈل پاس لڑکی مل گئی ہے تو جعلی ڈومیسائل بنانے والوں کا ملنا کیا ناممکن ہے؟ جس ملک میں اقتدار کے اعلی ایوانوں تک پہنچنے والوں کی ڈگریاں جعلی نکلتی ہیں… جہاں ہر قسم کی نقلی دستاویزات مل جاتی ہیں،  جہاں مرے ہوؤں کے انگوٹھے لگوا کر جائیدادیں منتقل ہو جاتی ہیں… صرف اسی پر کیا موقوف، یہ لاشیں انگوٹھوں کے بغیر دفن ہو جاتی ہیں اور وارث ان کے انگوٹھے کاٹ کر رکھ لیتے ہیں کہ مستقبل میں کام آئیں گے… یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے! ‘‘ میں بہت تلخ ہو گئی تھی، ہم ایک چھوٹے سے اسکول میں ایک ایک بولے ہوئے لفظ کے لیے خود کو، اپنے ادارے کے heads کو اور سب سے بڑھ کر اللہ کو جواب دہ ہوتے ہیں اور یہ لوگ… انھیں کسی کو جواب نہیں دینا ہوتا کیا؟ میں چائے پئے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی مبادا کہ اسے کچھ اور ’’ غلط ‘‘ نہ کہہ دوں، ’’اللہ حافظ آنٹی! ‘‘ اس نے مجھے گلے مل کر کہا۔’’اللہ حافظ بیٹا… ‘‘ میں نے بھی اسے گلے لگا کر بلند آواز سے کہا اور پھرا س کے کان کے پاس سرگوشی کی، ’’تم جیسے لوگوں کی وجہ سے اس ملک میں تعلیم کا بھی اللہ حافظ ہے… ‘‘ میں نے اپنے اندر کا سارا غبار اس مختصر فقرے کے ذریعے اس کے وجود میں اتار دیا!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔