پاک بھارت تعلقات میں بڑھتی کشیدگی

آصف محمود  جمعـء 20 دسمبر 2019
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے اعلان کے بعد تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے اعلان کے بعد تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان اوربھارت کی واہگہ اٹاری سرحد کے دونوں جانب سیکڑوں مزدور کام کرتے ہیں، مگر گزشتہ کئی ماہ سے وہ بیروزگار ہیں، جس کی وجہ واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی تجارت کی بندش ہے۔

پاکستان نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد رواں برس اگست میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کردیے تھے۔ اس اقدام سے سرحد کی دونوں طرف یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تقریباً ڈھائی ہزار مزدور بیروزگار ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت، ٹرین اور بس رابطوں کی بندش پہلی بار نہیں ہوئی ہے۔ جب بھی دونوں ملکوں کے حالات بہت زیادہ کشیدہ ہوتے ہیں تو باہمی روابط محدود کردیے جاتے ہیں یا پھر مکمل بند ہوجاتے ہیں۔ اگر سال 2019 کی بات کی جائے تو اس سال دونوں ملکوں کے حالات میں بدستور تلخی اور کشیدگی نظر آتی ہے۔ اس تلخی کا آغاز اس وقت ہوا جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی گاڑی خودکش حملے میں اڑا دی گئی۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے 40 سے زیادہ جوان ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا فوری الزام کالعدم تنظیم پر لگاتے ہوئے سنگین کارروائی کی دھمکیاں دی اور پھر 26 فروری کی رات آزاد کشمیر کے علاقہ بالاکوٹ میں ایئراسٹرائیک اور دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ تاہم بھارت کی اس کارروائی کا پاکستانی فضائیہ نے منہ توڑ جواب دیا تھا اور بھارت کے دو جنگی طیاروں کو مار گرایا۔ ایک طیارہ پاکستانی حدود میں گرا، جس کے پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کرلیا گیا، جبکہ دوسرے طیارے کا ملبہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گرا۔

پاکستان نے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے کےلیے ناصرف یکم مارچ کو بھارتی پائلٹ کو واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کردیا، بلکہ پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی یقن دہانی بھی کروائی۔ لیکن بھارت کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہورہا تھا اور وہ مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ بھارتی حکومت ایسا اس لیے کررہی ہے کہ وہاں نئے انتخابات ہونے جارہے تھے اور بھارتی سیاسی جماعتیں بالخصوص نریندر مودی کی پارٹی دوبارہ ووٹ حاصل کرنے کےلیے پاکستان مخالف مہم چلارہی ہے۔ کیونکہ بھارت میں آج بھی پاکستان کی مخالفت کے نام پر ووٹ لینا سب سے آسان کام سمجھا جاتا ہے۔

مئی میں انتخابی مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نریندر مودی دوبارہ بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ اب شاید ان کے دماغ سے پاکستان مخالفت کا بخار اتر گیا ہوگا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مودی اب پہلے سے زیادہ خطرناک روپ میں سامنے آیا تھا۔ اسی عرصہ میں کنٹرول لائن پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ بھارتی فورسز روزانہ فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتی نظر آئیں۔ جس کے جواب میں پاکستانی فورسز بھی منہ توڑ جواب دیتی رہیں اور بھارت کو مالی اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کارروائیوں کے دوران پاک فوج اور پاکستان رینجرز پنجاب کے کئی جوانوں سمیت متعدد شہری شہید اور زخمی بھی ہوئے۔

اس تناؤ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بھارت نے اگست میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا اور اسے بھارت کا حصہ بنا لیا گیا۔ بھارت کے اس اقدام پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا اور عالمی سطح پر بھارت کے اس اقدام کی مخالفت کی۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی رابطے منقطع کردیے، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس اور دوستی بس کا پہیہ بھی رک گیا، جو ابھی تک چل نہیں سکا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی محدود کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کےلیے نامزد اپنے سفیر کو نئی دہلی نہیں بھیجا، جبکہ پاکستان میں تعینات بھارتی سفیر کو ناپسندیدہ قرار دے کر پاکستان بدر کردیا گیا۔

دونوں ملکوں کے دن بدن بگڑتے حالات کی وجہ سے کرتارپور راہداری منصوبے کی تکمیل ادھوری رہتی نظر آنے لگی تھی۔ لیکن پاکستان نے واضح کیا کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کا اثر کرتارپور راہداری پر نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں سکھ برداری گورونانک کے 550 ویں جنم دن کی تیاریوں میں مصروف تھی اور اس کی نظریں کرتارپور راہداری منصوبے پر لگی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2019 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کرتارپور راہداری کھولنے کا جو اعلان کیا، وہ پورا ہونے کا وقت قریب آرہا تھا۔ اس دوران کرتارپور راہداری کے حوالے سے باہمی قوانین طے کرنے کےلیے دونوں ملکوں کے حکام کے مابین چار بار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ بھارت کی طرف سے کئی نکات کو جواز بناکر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ کرتارپور راہداری کھولے جانے کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہو، لیکن پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارت کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا اور بھارت کے ساتھ تمام شرائط تسلیم کرلی گئیں۔ جس کے بعد 24 اکتوبر کو دونوں ملکوں کے حکام نے کرتارپور بارڈر زیرولائن پر باہمی معاہدے پر دستخط کردیے۔ اور یوں پاکستان اور بھارت کے مابین 1947 کے بعد آنے جانے کےلیے ایک نیا راستہ کھل گیا۔ گوکہ یہ راہداری محدود ہے۔ اس کے ذریعے صرف بھارتی سکھوں اور نانک نام لیواؤں کو صرف گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور تک بغیر ویزا آنے جانے کی رسائی دی گئی ہے۔ لیکن موجودہ کشیدہ حالات میں یہ ایک بڑی ڈیولپمنٹ تھی۔

بالآخر 9 نومبر کا دن آگیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کردیا اور بھارت سے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ، بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ، وزیراعظم عمران خان کے دوست نوجوت سنگھ سدھو سمیت کئی اہم شخصیات اس راہداری کے راستے کرتارپور پہنچیں۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ زبانیں جو پاکستان کے خلاف زہر اگلتی تھیں پاکستان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئیں۔

جس دن کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوا، اسی روز بھارتی عدالت نے تاریخی بابری مسجد سے متعلق محفوظ فیصلہ سنادیا۔ جس کے بعد بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا۔ اور اب جب 2019 رخصت ہورہا ہے بھارت نے شہریت سے متعلق ایک متنازعہ بل منظور کیا ہے، جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمان شہریوں کو بھارتی شہریت نہیں مل سکتی۔ اس کالے قانون کے بعد بھارت کی راجدھانی سمیت کئی ریاستیں ہنگاموں کی لپیٹ میں ہیں اور بھارت میں احتجاج کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جس کا شاید بھارتی حکومت نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔