’متنازع شہریت بل‘ پر مسلمان طلبہ نے ماحول گرما دیا!

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 دسمبر 2019
72 برس میں پہلی بار شمال سے جنوب تک بھارتی مسلمانوں میں شدید بے چینی کی لہر

72 برس میں پہلی بار شمال سے جنوب تک بھارتی مسلمانوں میں شدید بے چینی کی لہر

15 دسمبر کو ہندوستان کی راج دہانی نئی دہلی میں واقع تاریخی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بے چین سی فضا میں رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔۔۔

برقی رو سے روشن ملگجی روشنی اندرونی راستوں کو اجالا کرنے کی اپنی سی کوشش میں تھی۔۔۔ شام ڈھلنے کے بعد احتجاج کرنے والے طلبہ اپنے گھروں اور ہاسٹلوں میں جا چکے تھے۔۔۔ کبھی رات کے کسی پرندے کی آواز اور کبھی کسی موٹر کی سمع خراشی سکوت میں رخنہ ڈالتی اور پھر دوبارہ ایک خاموشی چھا جاتی۔۔۔

سرد ہوا بھی اس ماحول میں ایک عجب طرح کی اداسی بکھیر رہی تھی۔۔۔ عمارتوں میں طلبہ کی موجودگی وہاں زندگی کی کچھ خبر دیتی تھی، لیکن جامعہ کے اندرونی راستوں پر مجموعی طور پر سناٹا تھا۔۔۔ شام ڈھلے ہر جامعہ کی طرح جامعہ ملیہ بھی ایسے ہی شانت تھی۔۔۔ یکایک جامعہ کی بتیاں گُل کر دی جاتی ہیں اور باوردی اہل کار جامعہ کے محافظوں کو دھکیلتے ہوئے یوں اندر چلے آتے ہیں جیسے انہوں نے اس مادر علمی کو فتح کر لیا ہو۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی دلی پولیس کے ان اہل کاروں نے مبینہ طور پر فائرنگ کی، آنسو گیس کی شیلنگ کی آوازوں میں طلبہ کی چیخ پکار بھی شامل ہوگئی، بلاگر محمد علم اللہ کہتے ہیں کہ اندھیرا کرکے اہل کاروں نے کیمرے سے بچنے کی کوشش کی، اندر آتے کے ساتھ ہی وہ طلبہ پر بھوکے شکاری کی طرح ٹوٹ پڑے، منٹوں میں جامعہ ملیہ کی فضا جنگ کے کسی محاذ کا منظر پیش کرنے لگی۔

سہمے ہوئے طلبہ وطالبات کو لائبریری سے لے کر مسجد حتیٰ کہ ’بیت الخلا کے احاطے تک میں کہیں پناہ نہ ملی۔۔۔ آنسو گیس کے وحشیانہ استعمال کے سبب طلبہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، بہت سوں کی حالت غیر تھی۔۔۔ حیوانی طریقے سے لاٹھیوں کی برسات سے زخمی طلبہ کے خون کے قطرے جامعہ کے فرش پر جا بہ جا پھیل گئے۔۔۔ جان بچاتے دوڑتے ان طلبہ نے شاید فلموں یا ٹی وی میں ایسے مناظر دیکھے ہوں گے، لیکن آج وہ اپنے سامنے موت کا رقص دیکھ رہے تھے۔

انہیں لگ رہا تھا کہ شاید اب وہ بچ نہ پائیں، یہ دہشت گردوں کے حملے سے کسی طرح مختلف نہ تھا۔ قصور ان طلبہ کا یہ تھا کہ وہ مودی سرکار کے متنازع ’شہریت ترمیمی بل‘ کے خلاف تھے، جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے ہندو، سیکھ، عیسائی اور پارسیوں کو شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی، اور مسلمانوں کو دانستہ اس سے محروم رکھا گیا تھا، اس قانون کے اگلے مرحلے میں تمام شہریوں کو ہندوستان میں اپنے آباواجداد کے پرانے دستاویزی ثبوت دکھانے ہوں گے۔۔۔ یعنی ہندوستان بھر کے 20 کروڑ مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑے ہوکر ’ہندوستانیت‘ ثابت کرنا پڑے گی!

دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ پر دھاوا بول کے شمال سے جنوب تک ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور طلبہ میں بیداری کے عمل کو اور تیز کردیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے لے کر پنجاب یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما وغیرہ تک سیکڑوں جامعات کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ بے شمار سکھ، عیسائی اور نچلی ذاتوں کے ہندوئوں سمیت بائیں بازو کے حلقے ان کے ساتھ ہیں۔۔۔ اور دہائی دے رہے ہیں کہ آج تو یہ مظاہرین اپنے آئین کو مانتے ہیں اور اس دیس کی ایکتا پر یقین رکھتے ہوئے بھارتی ترنگے ہاتھ میں لیے أرہے ہیں، کل کو ایسا نہ ہو کہ یہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

پارلیمان سے اس متنازع قانون کی منظوری کے بعد 13 دسمبر 2019ء کو جمعے کی نماز کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں تیزی آئی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی امن کی اپیل کرنا پڑی۔ بھارت کے بے باک صحافی روی شنکر کہتے ہیں کہ مودی یہی اپیل اپنے راہ نمائوں سے کیوں نہیں کر رہے، جو یہ کہتے ہیں کہ یہ 1947ء نہیں، بلکہ 2019ء کا بھارت ہے!

جامعہ ملیہ سے لے کر کیرالہ اور پنجاب سے لے کر مغربی بنگال اور آسام تک کے احتجاج اور مظاہروں کو ذرایع اِبلاغ پر اس طرح جگہ نہیں دی جا رہی، جس طرح دی جانا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ کی گمبھیر صورت حال کا اصل اندازہ موبائل کیمرے سے بنائی گئی مختلف ویڈیوز سے ہوتا ہے۔

بہت سی ویڈیو دل دہلا دینے والی ہیں۔۔۔ ’ہند نیوز‘ سے وابستہ صحافی رُبا انصاری پولیس ایکشن کے بعد کسی طرح جامعہ ملیہ پہنچیں، تو اپنی موبائل ویڈیو میں بتایا کہ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کیا ہے، لیکن انہوں نے وہاں جو احوال سنا ہے، اسے بتاتے ہوئے ان کی روح کانپ رہی ہے، جب دہلی جیسے شہر میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو پھر دیگر علاقوں کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیا حالت ہوگی۔

پولیس بدترین لاٹھی چارج کی ایک ویڈیو میں ڈھال بن کر اپنے طالب علم ساتھی شاہین کو بچانے والی کیرالہ کی 22 سالہ جی دار طالبات لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رینا سے ممتاز صحافی برکھا دت نے جب یہ پوچھا کہ آپ کو لاٹھیاں برساتی پولیس کے سامنے خوف محسوس نہیں ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ کس بات کا خوف ہم تو ’ہندوتوا‘ کے عظیم خوف سے لڑ رہے ہیں۔

اور ہمیں صرف اللہ کا خوف ہے۔ ہندوستانی دانش ور ہرش مندر نے جامعہ کے طلبہ سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوؤں کے پاس تو سوائے ہندوستان کے کوئی راستہ نہ تھا، جب کہ ہندوستانی مسلمان تو ’اختیاراً‘ یہاں کے شہری ہیں، وہ چاہتے تو پاکستان بھی جا سکتے تھے، انہوں نے حکمراں جماعت ’بی جے پی‘ پر ’بھارتیہ جناح پارٹی‘ کا بھپتی کسی اور کہا کہ یہ تو جناح کہتے تھے کہ مسلم کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان۔ ایودھیا اور کشمیر کے معاملے میں ہم عدالتوں کو دیکھ چکے اب یہ لڑائی عدالت میں نہیں لڑی جائے گی۔ اب یہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔

تحریک اب تک قیادت سے محروم ہے!

بھارت کے متنازع شہریت بل کے خلاف ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ اور ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ سے برپا ہونے والی تحریک جنگل میں آگ کی طرح ہندوستان بھر میں پھیل گئی، اگرچہ اس میں واضح طور پر مسلمان طلبہ اور طالبات دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن بے شمار سکھ اور ہندو کارکنان بھی اس تحریک میں ہم آواز ہو رہے ہیں۔۔۔ بہت سے حلقوں کی یہ خواہش ہے کہ اس تحریک کو مکمل مذہبی رنگ دے دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر ’ہندوؤں کی قبر کھدے گی!‘ کے نعروں کی خبریں آئیں، جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ دراصل ’ہندو توا کی قبر کھدے گی۔

کے نعرے لگائے گئے تھے۔ تحریک چلانے والے طلبہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہندوستان بھر کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ اعتدال پسند ہندو بھی ان کا ساتھ دیں، ان کا ماننا ہے کہ ہوش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ آئین کا ’غیر مذہبی‘ روپ برقرار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی جامعات سے غیر مسلم طلبہ بھی بڑی تعداد میں اس نئے قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے، اس تمام تر صورت حال کے باوجود سب سے اہم امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تحریک ابھی تک کسی بھی سطح کے راہ بر یا قائد سے محروم ہے۔۔۔ بہ الفاظ دیگر مسلمانوں میں بالائی سطح پر اب بھی اس احتجاج کے حوالے سے جھجھک اور مصلحت برقرار ہے، جس کی وجہ سے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر وہاں کے علما کا حلقہ مسلمانوں کی شدید تنقید کی زد میں ہیں، کیوں کہ وہ خود آگے آنا تو درکنار بلکہ اپنے طلبہ کو احتجاج اور مظاہروں سے باز رہنے کی صلاح دے رہے ہیں۔

ہم عہد 1947ء میں زندہ ہیں!

برصغیر کی تقسیم کو 72 برس بیت گئے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تقسیم سے پھوٹنے والے مسائل کی پرچھائیاں گہری تر ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ خطے کے ’ہندو مسلم مسئلے کے حل‘ کے درمیان ایک طرف ریاست جموں کشمیر میں ظلم کی سیاہ رات تاریک تر ہے، تو دوسری طرف 1971ء سے سابقہ مشرقی پاکستان کے کیمپوں میں پڑے ہوئے شہری پاکستانی پرچم لہرائے ہوئے ہیں، لیکن اُن کی ریاست انہیں واپس لینے کے لیے آمادہ نہیں۔۔۔ اِدھر کراچی کی ایک بوڑھی ماں کا گریہ بھی دیکھا، جس کا شناختی کارڈ دستاویز پوری نہ ہونے کے سبب بلاک کر دیا گیا، وہ چلاتی رہی کہ اس کے اسکول جانے والے پوتے، پوتیوں کے مستقبل کا سوال ہے۔۔۔ میں اب وہ دستاویز کہاں سے لاؤں؟

ایسے ہی بے شمار بنگالی بھی کراچی میں شناختی کارڈ بنوانے سے محروم ہیں، کیوں کہ وہ یہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ 1971ء سے پہلے سے یہاں ہیں۔۔۔ پھر روہنگیا کے مسلمان تو ہر طرف سے ٹھکرائے جا رہے ہیں۔ دراصل مودی سرکار کا حالیہ شہریت ترمیمی بل آسام میں بسنے والے پانچ لاکھ چالیس ہزار بنگالی ہندوؤں کے لیے ہی ہے، کیوں کہ آسام میں غیرمقامی افراد کو نکالے جانے کی مضبوط تحریک موجود ہے، ابتداً یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ سارے غیر مقامی بنگلادیشی مسلمان ہیں، اس لیے سب ہی ہاں میں ہاں ملاتے رہے، لیکن جب ان میں ایک بڑی تعداد ہندوؤں کی نکل آئی، تو پھر شاطر ذہنیت نے گھما پھرا کے اس کا راستہ یہ نکالا کہ تارکین وطن کو ایک دروازے سے باہر کیا اور دوسرے دروازے سے ’بنگلادیشی اقلیت‘ کے قانون کے تحت دوبارہ بلا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آسام میں اس قانون کے خلاف احتجاج روکنے کے لیے کرفیو بھی نافذ کیا گیا۔

 امیت شاہ کیا کہتے ہیں؟

بھارتی وزیرداخلہ اور وزارت عظمیٰ کے لیے ’بی جے پی‘ کے آیندہ امیدوار کہے جانے والے امیت شاہ اس بل کی منظوری کے لیے پارلیمان میں بے شمار عذر تراشتے نظر آئے اور بولے کہ اس بل میں ہم پر مذہبی تفریق کا الزام لگانے والی کانگریس نے بھی تو جناح کی مذہبی تقسیم تسلیم کی، موہن داس گاندھی نے بھی پارلیمان میں پاکستان میں مشکل کا شکار ہندو اور سکھ کو یہاں آنے کی پیش کش کی، تب کچھ کیوں نہیں کہا گیا، اس بل میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہاں مسلمان مشکل میں نہیں، جو اقلیتیں وہاں مشکل میں ہیں۔

ہم انہیں شہریت دے رہے ہیں، پھر پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش کا ذکر ہونے کا استدلال کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی وقت کی ضرورت دیکھتے ہوئے صراحت کے ساتھ اس قانون میں ترمیم کی گئی، جیسے تامل مسئلے پر جب ضرورت تھی تو ہم نے صرف سری لنکا کا ہی ذکر کیا تھا اور پھر  20لاکھ لوگوں کو شہریت دی گئی، روہنگیا کے لوگوں کو اس لیے نہیں لیا، کیوں کہ وہ ہمارے دیس میں نہیں آتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دلی میں 21 ہزار افغان سکھ رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے آنے والے نچلی ذات کے ہندو کہتے ہیں کہ یہاں انہیں اپنی ’پاکستانی‘ شناخت چھپانا پڑتی تھی، وہ کہتے ہیں کہ اب ہم سر اٹھا کر خود کو پاکستانی کہیں گے، ہم نے ان دلت بھائیوں کو عزت دینے کے لیے یہ قانون بنایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔