جس کی بیوی لکشمی

سعد اللہ جان برق  جمعـء 20 دسمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

وہ جو ایک گانا ہے فنکار کا نام فی الحال نہیں لکھ سکتے کیونکہ آج کل ان کے ساتھ ہماری کٹی ہے جب شہزادوں اور شہزادیوں کی کٹی ختم ہوجائے گی اور ہمارا’’ٹیلنٹ‘‘وہاں جاکر جھنڈے گاڑھنے اور ملک کو آٹھ آٹھ چاند لگانا شروع کردے گا تو ہم بھی ان کی ’’کٹی‘‘کی صورتحال دیکھتے ہوئے اپنی کٹی ختم کردیں گے۔

لیکن فی الحال تو ہم نام نہیں لے سکتے لیکن گانے یا کام کا ذکرتو کرسکتے ہیں چنانچہ وہ گانا جو گانے سے زیادہ’’بیوی نامہ‘‘ہے کا ذکرکرنا چاہتے ہیں وہ بھی صرف غلطی نکالنے کے لیے۔اس گانے یا بیوی نامے میں باقی تو ہرقسم کی بیویوں کا ذکر کیاگیا ہے لیکن لکشمی کا ذکر نہیں ہے… یعنی جس کی بیوی لکشمی اس کا بھی بڑا نام ہے۔

چونکہ لکشمی وہاں کی آئی ایم ایف ہے جو ’’اُلو‘‘پر سوار ہوتی ہے گویا یہ ایک مماثلت ہمارے اور ان کے ہاں ’’سیم‘‘ہے کہ وہاں بھی لکشمی کی سواری اُلو ہے اور یہاں بھی آئی ایم ایف یعنی ہماری لکشمی’’اُلووں‘‘پر ہی سواری گانٹتی ہے، چنانچہ جس کی بیوی لکشمی یا آئی ایم ایف ہے۔

اس کا نام تو ہوگا ہی ہوگا۔چنانچہ لکشمی کے شوہر ہونے کے ناطے وہاں اس کے شوہر ’’اوشنو‘‘کی بھی بڑی مقبولیت اور پوجا پاٹ عام ہے جیسے ہمارے ہاں بہت ساری ’’لکشمیوں‘‘ کے شوہر بڑے نام والے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ ان مشہور شوہروں کانام تو ہم نہیں لے سکتے ہیں جن کے شوہر بڑے نام اور مقام تک پہنچے ہیں لیکن یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ خود نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں صرف شوہر تھے جو’’شوفر‘‘کا ہم وزن ہے۔ سناہے موجودہ سیٹ میں بھی اکثر نامور اپنی لکشمیوں کی وجہ سے ہیں یعنی

بناہے لکشمی کا شوہر پھرے ہے اتراتا

وگر نہ شہر میں شوہر کی آبرو کیا ہے

سناہے ہماری’’لکشمی‘‘آئی ایم ایف نے ہم کو ’’شاباش‘‘ بولا ہے جس پر ہمیں اپنے گاؤں کا رام داد یاد آتاہے جسے ایک دن اپنے خان نے گدھا کہاتھا اور وہ سارے گاؤں میں یہ ڈھنڈورہ پیٹ رہاتھا کہ آج خان نے مجھے گدھا کہا ہے اور اس کے ساتھ’’ہی ہی ہی‘‘کرنے لگتا۔اب ہماری لکشمی نے ہمیں شاباش بولا ہے تو ہم اس فارسی شاعر کی طرح حیرت میں مبتلا ہو کر رونا چاہتے ہیں جس کے اشعار پرجب ایک احمق نے داد کے ڈونگرے برسائے تو وہ رونے لگا۔لوگوں نے وجہ پوچھی تو بولا۔اس لیے رو رہا ہوں کہ میں نے اپنے شعروں میں ایسی کونسی احمقانہ بات کی ہے جو اس احمق کو اچھی لگی ہے۔

اور ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ہم نے ایسا کونسا کارنامہ کیا ہے جو اس کنجوس مکھی چوس اور شوم لکشمی کو اچھا لگا ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کیا جو اردگرد ٹٹوئنوں سے ہراسگی ہراسمنٹ میں مصروف تھا، ہم نے سارے حالات و واقعات شواہد اور ثبوتوں کو چھانا پھٹکا تو باقی تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا، سفید ہاتھیوں اور ہتھنیوں عرف وزیروں مشیروں میں بھی کافی اضافہ ہوا تھا گھوڑوں یعنی معاونین وغیرہ کی تعداد بھی حسب معمول تھی پارلیمانی پارٹیوں اور کمیٹیوں یعنی نوالوں کے لیے ’’منہ‘‘ بھی کافی تھے۔

صدر ہاؤس،پرائم منسٹر ہاؤس اور دیگر ہاؤسز میں بھی بدستور گنگا بہہ رہی تھی بلکہ پانی کی سطح میں کچھ اضافہ بھی ہوا تھا۔آخر ایسا ہوا کیا تھا جس پر لکشمی نے خوش ہوکر ہماری پیٹھ تھپتھپائی۔تب ہمارے ٹٹوئے تحقیق کو جو ہماری محققانہ صحبت میں اچھا خاصا محقق ہوچکا ہے کم ازکم کسی سرکاری ادارے یا کمیٹی اکیڈیمی کے لیے تو کوالیفائی کرچکاہے۔

اس نے ہُرے کرکے اچانک نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہا آئی گاٹ اٹ آئی گاٹ اٹ۔میں نے پالیا میں نے پالیا۔تفصیل پوچھی تو بولا۔اس مرتبہ آئی ایم ایف عرف لکشمی نے جو ظاہری اور باطنی شرائط عائد کی تھیں وہ بطریقہ احسن پوری ہورہی ہیں۔ شرائط کی تفصیل پوچھی تو بولا وہ شرائط جو ظاہر ہیں وہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ ٹارگٹ سے کچھ زیادہ پوری ہورہی ہیں، ٹیکس لکشمی کے حساب دلخواہ بڑھائے جارہے ہیں تاکہ عوام بہت جلد خودکشی کی حد  پرپہنچ کرطالبان بن کر اسلحہ کی منڈی بن جائیں ،کچھ اپنی تعلیمی ڈگریوں کو دھونی دے کر شرافت ودیانت کو قربان کریں اور جرائم وشباب انجوائیں کریں۔

مذہبی توھمات اور بے فیض کاموں کا رجحان بڑھ جائے تاکہ کوئی کسی بھی ’’کاردنیا‘‘کا گناہ نہ کرے اور صرف آخرت اور آئی ایم ایف کے سہارے بیٹھ جائے، کوئی ڈیم کوئی روزگار کوئی کاروبار شروع نہ کیاجائے اور رواں کاروباروں کو ممکن حدتک ٹھکانے لگادیا جائے ’’کل‘‘۔اور آخرت کی توقع پرخود کو مکمل طور پر سودی مالی مافیا کے سپرد کر دیں۔مہنگائی اتنی کردی جائے کہ کسی کو اس کے علاوہ سانس لینے کا بھی خیال نہ آجائے، تحریک انصاف کے رنگروٹوں کو معاشرے پرچھوڑدیاجائے کہ دامن اور پائنچے تار تار کردیں۔

کل ملا کر سودی قرضوں کو کسی بھی نفع آور کام یا کام کے کام میں نہ لگنے دیں۔ مارکیٹ میں ناممکن امیدوں کا جمعہ بازار لگائے جائیں، فضولیات کی دھول اڑاکر ہر آنکھ کو اندھاکردیاجائے۔ گزشتہ حکومتیں آئی ایم ایف کی ان خواہشوں اور شرائط کو بطریقہ احسن پورا نہیں کرتی تھیں اور ڈنڈی مارکر قرضوں کو کسی کام کے کام میں بھی لگا دیتی تھیں لیکن اب کے سب خیریت ہے سب اچھا ہے اور آئی ایم ایف مطمئن ہے تو شاباشی کیوں نہ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔