بھارت سیکولر یا آر ایس ایس کا بن کے رہے گا

انیس باقر  جمعـء 20 دسمبر 2019
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

تقسیم ہند کے بعد بھارت دو بڑے رہنماؤں کا ملک تھا  جوکہ سیکولر تھے ایک ہندو نظریاتی اور دوسری قوموں کے رہنما مہاتما گاندھی تھے جب کہ نئی نسل کے نوجوان قوم پرستوں اور نیم سوشلسٹ نظریات کے حامل لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو سمجھے جاتے تھے۔

گاندھی کو بھارت میں بسنے والے کسی بھی مذہب اور نظریے کے حامی سے کوئی کدورت نہ تھی۔ جب کہ پنڈت جواہر لال نہرو تو جدید اور قدیم نظریات کو ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ اسی لیے انھوں نے جس بھارتی قانون کی بنیاد رکھی اس میں سیکولر نظریے کو اولیت دی۔ اب تک جو مختلف لغات میں سیکولر کا اردو ترجمہ کیا گیا اس میں لامذہب و لادین بتایا گیا۔

جب کہ سیکولر کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص کا دین اس کے ساتھ ہے بلکہ مہاتما گاندھی تو بعض اوقات مسلمان دھرم کے بھی ساتھی بنے اور انھوں نے مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت کی حمایت کی تھی ۔ اس نظریے پر گاندھی جی نے اپنی جان بھی دے دی جنھیں گوٹسے نے اپنی بندوق سے ختم کیا۔

بھارت میں آر ایس ایس والے جمہوریت کی آڑ میں آئین میں مذہبی دراندازی داخل کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جو انھوں نے حالیہ شہرت کا بل منظور کروایا ہے وہ بھارتی آئین کی سیکولر روح سے متصادم ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے حقوق کو رد کرتے ہوئے بقیہ مذاہب کی شہریت کو منظور کیا گیا ہے۔ گویا سیکولرازم کو بھارتی آئین کا حصہ نہ بننے پر اصرار کیا گیا ہے۔

اس وجہ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بھارت میں بسنے والے قوم پرست ہندو بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اس پر کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ دہلی کے چھاتروں نے جس بہادری کا ثبوت دیا وہ قابل تعریف ہے۔ انھوں نے دہلی پولیس کے اس ظالمانہ اقدام کی بھی مذمت کی کہ جنھوں نے طلبا کو لائبریری میں گھس کر لاٹھیوں کی بوچھاڑ سے زخمی کیا۔ انھوں نے کہا کہ اسٹوڈنٹس بھارتی آئین کا دفاع کر رہے ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ بھارتی یونیورسٹی دہلی کے طالب علم رہنما نے نریندر مودی پر جو الزامات لگائے تھے وہ صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ واقعی بھارت کو سیکولر نہیں رہنے دینا چاہتے۔ اور کٹرپنتھی آر ایس ایس کی تنظیم بنانا چاہتے ہیں۔

نریندر مودی کی سیاسی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ اکبر اعظم شہنشاہ ہند کی حکومت کا بدلہ آج کے مسلمانوں سے لینے کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے اپنی وزارت کے دوران وزیر اعظم کی حیثیت سے جو مظالم مسلمانوں پہ کیے اور خود کو ایک انتہا پسند آر ایس ایس کا بنا کے پیش کیا جس سے تنگ نظر مذہبی لوگوں کی رونمائی ہوئی۔

یہ بھی طالبان کی ایک قسم تھی جس میں مسلمان کے بجائے ہندو فلسفے کو پیش کیا گیا۔ اس طریقے سے انھوں نے ہند کے سرمایہ داروں اور مسلم دشمن عناصر کی خوشنودی کے لیے بھارتی آئین کو سیکولر کے بجائے مسلم دشمن قانون کو اپنے دستور کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے انھوں نے دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دینے کا قانون پاس کروایا مگر آئین میں انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کو حذف کرلیا۔ اس لیے بھارتی مسلمان مودی کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ بھارت ایک بڑی اور کئی مذاہب کی وحدت کو لے کر جمہوری ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا تھا۔

جس میں سیکولرزم کے اصول کے تحت تمام مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ اور یہی بھارت کا طرہ امتیاز تھا۔ اسی بنیاد پر دنیا بھر میں بھارتی جمہوریت کو ایک توانا جمہوری ریاست مانا جاتا رہا۔ لیکن نریندر مودی نے اپنے آبائی صوبے گجرات میں تقریباً ایک دہائی قبل مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے تھے اسی کو اپنی ترقی کا راز جان کر اپنا لیا تھا کیونکہ مسلمانوں کے لیے منفی شق آئین میں ڈال کر جو قرارداد اسمبلی سے منظور کروائی اس کا دفاع بھارتی آئین کی مجموعی روح سے ممکن نہیں۔

اسی لیے عام آدمی پارٹی کے رہنما جو دلی سے لوک سبھا کے رکن بھی ہیں انھوں نے اس قرارداد کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے کیونکہ ستر برس سے مسلمان بھارتی آئین کا حصہ ہیں اور ہزار سال سے بھارت کے حکمران رہے ہیں۔ اس لیے بھارتی سرزمین سے مسلمانوں کا ناتہ توڑنا آسان عمل نہیں رہے گا۔ کیونکہ عام ہندو بھی ان کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی لیے جب یہ بل پاس کیا گیا تو امریکی یونیورسٹیوں میں بھارتی شہریت کے ہندو طلبا نے مسلمان طلبا کے ساتھ بیٹھ کر اول روز ہی اس قرارداد کی مذمت کی تھی۔

اس کے بعد دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے صدر کنہیا کمار نے مخالفت کی۔ ابھی بل کو چند روز ہی گزرے تھے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی مسلم یونیورسٹی نے ایک بڑا جلوس اس بل کی مخالفت میں نکالا جس میں تقریباً ڈھائی ہزار طلبا شریک ہوئے۔ جب انھوں نے شہر کی بڑی شاہراہوں کا رخ کیا تو دہلی پولیس نے جلوس پر زبردست شیلنگ کی اور بعد میں یونیورسٹی کیمپس کی لائبریری میں گھس کر طلبا کو شدید زخمی کیا۔

اس نفرت انگیز بل کی مخالفت میں پورا بھارت احتجاج کی تصویر بن گیا۔ آسام سے لے کر کلکتہ اور پھر کیرالا سے لکھنو اور مشرقی پنجاب تک طلبا و طالبات نے اس بل کی مخالفت میں زبردست احتجاج کیے۔ آسام کی خواتین نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی تہذیب اور ثقافت کو بچایا جائے۔

کیونکہ نریندر مودی محض ہندو مت کی باتیں کرتے ہیں اور ان کا بھارت کی حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں۔ مودی مسلم کش راستے پر سفر کر رہے ہیں۔ کشمیر پر جبری کرفیو کے بعد ان کے حوصلے اور بلند ہوئے جب کہ ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر اور ایران نے اس معاملے میں بھارت کی مذمت کی۔ انھی عرب ریاستوں کی چشم پوشی نے نریندر مودی کو کافی حوصلہ بخشا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیر اعظم کے ہمنواؤں نے جس راہ پر بھارت کو ڈال دیا ہے وہ ایک ایسی راہ ہے جس پر بھارت کی تمام ریاستوں کا اتفاق زیادہ عرصے قائم نہیں رہے گا۔

بھارتی وزیر اعظم شاید یہ بھول گئے کہ قیام پاکستان کی راہ میں پہلے اجتماعات اسی سرزمین پر ہوئے جو آج پھر سراپا احتجاج ہیں اور اگر آج بھی مسلم دنیا کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بھارت میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔

ابھی تک تو کشمیر کے چھوٹے سے علاقے پر بھارتی قوانین اور طاقت کا استعمال کارگر نہ ہوسکا تو پھر ڈیڑھ ارب کی پاپولیشن پر کس طرح مدار ہوگا۔ بھارتی وزیر اعظم نے ستر برس سے خاموش مسلمانوں کو اتنا پیچھے ہٹا دیا کہ اب ان میں حکومت کے اقدامات کو نظرانداز کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور وہ ایک بار پھر مزاحمت کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ بھارت کے کئی بڑے شہروں میں جس طرح کے ہنگامے ہو رہے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی شہریوں کے دلوں میں ایک بڑی بغاوت کی بو آرہی ہے۔ اور یہ مہک بھارتی حکمرانوں تک پہنچ چکی ہے۔

بڑی آبادی والی ریاستوں کو ایسا ہی بننا ہوتا ہے جس کے قوانین ہر فرد کی فکری اور آئینی ضرورت کو بلا تفریق پورا کریں۔ اب تک کشمیر اور اس کے علاوہ سات ریاستوں کے باسی شکوک و شبہات رکھتے تھے مگر موجودہ بل نے ملک کے مختلف سیاستدانوں کو شک و شبے میں ڈال دیا ہے کہ نریندر مودی کس راستے پر چل رہے ہیں۔ اب دلی جو ہند کا مرکز ہے وہاں بھی اختلافات کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔

اس سے اس بات کا شبہ بڑھ جاتا ہے کہ اگر یہ بل بھارتی سپریم کورٹ نے مسترد نہ کیا تو بھارتی مسلمان خود اس بل کو ایک طویل تحریک کے ذریعے مسترد کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس بات کا عندیہ بھارتی صوبہ یوپی کے شہر لکھنو کی درگاہ نجمۃ العلوم کی طالبات نے دیا ہے اس سے سرفروشی کی جھلک نظر آتی ہے اور تاریخ کا پھریرا بتا رہا ہے کہ کبھی جناح صاحب اپنے ہم نواؤں کے ساتھ یہاں سے گزرے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔