علاماتِ منافقت

مولانا حافظ زبیر حسن اشرفی  جمعـء 20 دسمبر 2019
اﷲ تعالیٰ نے زندگی کے جو آداب سکھائے ان میں سے ایک قول و فعل میں مطابقت ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اﷲ تعالیٰ نے زندگی کے جو آداب سکھائے ان میں سے ایک قول و فعل میں مطابقت ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص میں چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں باتوں میں سے کوئی ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے۔ اور وہ چار باتیں یہ ہیں جب امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، بات کرے تو جھوٹ بولے، عہد کرے تو اسے توڑ دے، جھگڑے تو بدزبانی کرے۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے زندگی کے جو آداب سکھائے ان میں سے ایک قول و فعل میں مطابقت ہے۔ احکام اسلام میں اس ادب کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کی خلاف ورزی کو منافقت قرار دیا گیا اور نفاق کی نشانیوں میں شمار کیا گیا۔ ظاہر و باطن ایک جیسے نہ ہوں تو اسے منافقت کہتے ہیں اور جس انسان کے اندر یہ انداز پایا جائے اسے دو چہروں والا کہا جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق منافقت دو طرح کی ہوتی ہے، اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی منافقت تو یہ ہے کہ کوئی انسان دل سے اسلام کی سچائی اور اس کے حق ہونے کو نہ مانتا ہو، صرف زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ سورۃ البقرہ میں کیا گیا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد تھا، جب ایمان والوں سے ملتے تو کہتے ہم ایمان لائے اور جب کفار کے پاس جاتے تو کہتے ہم تو ان کا مذاق اڑا رہے تھے ورنہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔

ایسے منافق حقیقت میں کافر ہی ہوتے ہیں بل کہ ان کا جرم کافر سے بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے قسم کے عملی منافق ہیں جو دل سے اسلام کی سچائی اور اس کے حق ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اپنی انسانی کم زوریوں کی وجہ سے احکام اسلام پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ ایسے منافق کی اصلاح تربیت کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔

اب یہ کام بہت قابل توجہ ہے کہ نفاق اور منافقت کو کیسے پہچانا جائے۔ جیسے کسی بیماری کی کچھ علامات ہوتی ہیں انہیں دیکھ کر معالج تشخیص کرتا ہے اور پھر اس کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح رسول کریمؐ نے منافق کی چار نشانیاں بتائی ہیں کہ اگر کسی شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک نشانی بھی پائی جائے تو اس کے اندر نفاق کی ایک علامت پائی گئی۔ پہلی علامت یہ بیان فرمائی کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ دوسری یہ کہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جب معاہدہ کرے تو غداری کرے۔

نفاق کی تیسری نشانی یہ بتائی کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے اور چوتھی یہ بتائی کہ جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔ ان نشانیوں میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کی بنیاد قول و فعل میں تضاد ہے۔ دیکھیے! ایک شخص ایک بات کرتا ہے خبر کے طور پر، حالاں کہ ایسا نہیں ہوا تو اس شخص کا قول جھوٹ ہوگا اور یہ نفاق کی نشانی ہے۔

پھر کوئی شخص وعدہ کرے یا باہمی معاہدہ کرے اور کہے میں یہ کروں گا یا میں اس بات کی پابندی کروں گا پھر وہ بات پوری نہ کرے یا معاہدے سے پھر جائے‘ یہ بھی قول و فعل کا تضاد ہوا، یا کسی شخص کے پاس امانت رکھی جائے گویا کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں گا پھر وہ امانت میں خیانت کرنے لگے تو اب اس کی بات اور اس کے عمل میں تضاد آگیا اور یہ بھی نفاق کی نشانی ہوگئی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا، مفہوم : ’’اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اﷲ کے نزدیک یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ ایسی بات کہو جو نہ کرو۔‘‘

اﷲ رب العزت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر دل میں کسی کام کرنے کا ارادہ اور پختہ عزم ہو پھر بھی اپنے نفس اور اپنی ذات اور اپنی قوت پر اعتماد کرتے ہوئے انسان براہ راست یہ نہ کہے کہ میں یہ کام کروں گا بل کہ یوں کہے انشاء اﷲ میں یہ کام کروں گا۔ قول و فعل میں تضاد کا ایک پہلو تو دعویٰ کا تھا لیکن دوسرا پہلو دعوت کا ہے، یعنی کوئی شخص دعوت و تبلیغ کا کام کرتا ہے اور لوگوں کو بھلائی کا کام کرنے کی دعوت دیتا ہے لیکن خود نہیں کرتا۔ یہ بھی قول و فعل کے تضاد کی ایک شکل ہے لیکن یہ نفاق کی نشانیوں میں شمار نہیں بل کہ عملی کم زوریوں میں شمار کی جاتی ہے۔

قول و فعل کا وہ تضاد جو نفاق کی نشانیوں میں شمار کیا گیا اس کے نقصانات دینی اور دنیوی اعتبار سے بہت شدید ہیں۔ پہلا نقصان تو یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے بُری حالت منافقین کی ہوگی۔ معاشرتی نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان قول و فعل میں تضاد رکھنے والے کو یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے۔

اس کی وقعت ختم ہو جاتی ہے اور اسے ذلّت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگ ایسے شخص پر اعتماد نہیں کرتے۔ اعتماد کی دیوار بڑی محنت اور وقت میں تعمیر ہوتی ہے لیکن اس دیوار کو گرانے کے لیے قول و فعل کے تضاد کے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے معاشرتی زندگی میں انسان کو اپنے قول و فعل میں مطابقت کی بہت فکر کرنی چاہیے۔ تاکہ دنیا و آخرت میں سُرخ رُو ہو سکے اور اسے معاشرے کے افراد کا باہمی اعتماد حاصل رہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں اپنے قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔