بڑھاپے کو شکست دینے کی کوششیں

محمد اختر  اتوار 3 نومبر 2013
ساٹھ سال اور اس سے زیادہ عمر کے صرف دس فیصد افراد کو طویل المعیاد نگہداشت کی ضرورت ہے فوٹو : فائل

ساٹھ سال اور اس سے زیادہ عمر کے صرف دس فیصد افراد کو طویل المعیاد نگہداشت کی ضرورت ہے فوٹو : فائل

کیا انسانوں کے اندر بڑھاپے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے؟ حال ہی میں چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی ایک پائلٹ اسٹڈی سے اشارہ ملتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

یہ عمل کسی جادوئی کریم یا ہمیشہ جوان رہنے والے فارمولے سے نہیں ہوگا۔اس کے بجائے یہ انتھک سائنسی تحقیق سے ممکن ہوگا۔فی الحال جو چیز سامنے آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ لائف اسٹائل یعنی طرززندگی میں ایک جامع تبدیلی ، دبائو کو کم کرنے ، غذا کو بہتر بنانے اور درمیانے درجے کی ورزش کرنے سے ان کروموسومز کو ختم ہونے سے روکا جاسکتا ہے جو خلیات کو بوڑھا ہونے سے روکتے ہیں۔یہ کروموسوم ’’ٹیلو میریز‘‘ کہلاتے ہیں اور جب ان کروموسومز کی لمبائی کم ہوتی ہے تو خلیات مرجاتے ہیں۔ان کروموسومز کی زندگی کو بڑھا کر بڑھاپے کے عمل کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

پہلے تو ’’ٹیلو میریز‘‘کی بات کرتے ہیں۔یہ ڈی این اے کے لمبے لمبے کھانچے ہوتے ہیں جو جینیاتی کوڈ کی حفاظت کرتے ہیں۔یہ بالکل اس طرح ہوتے ہیں جس طرح ہمارے جوتوں کے تسموں کے اوپر پلاسٹک کی ٹپ لگی ہوتی ہے۔ یہ کروموسومز کے سروں پر اسی طرح بنے ہوتے ہیں اورکروموسومز کو سروں سے بکھرنے اور الجھنے سے روکتے ہیں اور یوں کوڈ کو مستحکم رکھتے ہیں۔

لیکن جتنی مرتبہ بھی کوئی خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ٹیلو میریزکی لمبائی چھوٹی ہوجاتی ہے اور پھر ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے جب ان خلیات میں مزید تقسیم کی گنجائش نہیں رہتی اور یوں یہ غیرمتحرک ہوکر مرجاتے ہیں۔ٹیلو میریز کی لمبائی حیاتیاتی عمر کا ایک اشارہ ہوتی ہے۔ٹیلو میریز کی لمبائی جتنی کم ہوگی ، اتنا ہی عمر کے ساتھ ہونے والی بیماریوں جیسے کینسر ، دل کے امراض اور ڈیمنشیا یعنی خلل دماغ لاحق ہونے کا امکان بڑھتا جائے گا۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے محققین نے غدودوں کے کینسر میں مبتلا دس افراد کو کہا کہ وہ نباتاتی غذائیں کھائیں ، ورزش کریں اور مختلف کوششوں جیسے مراقبے اور یوگاکے ذریعے اپنے اوپر موجود دبائو یعنی سٹریس کو کم کریں۔انھیں میڈیکل اسٹاف کے ذریعے غذا اور صحت کے حوالے سے مسلسل گروپ سپورٹ سیشن اور لیکچر بھی دیے گئے۔ان افراد کے ٹیلو میریز کی طوالت کی ابتداء میں اور پھر پانچ سال بعد پیمائش کی گئی۔پھر ان کا موازنہ پچیس افراد کے ایک ایسے گروپ سے کیا گیا جنہیں لائف اسٹائل یا غذا میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔

جن افراد کو لائف اسٹائل یا غذا میں تبدیلی کا نہیں کہا گیا تھا ، ان کے ٹیلو میریز کی طوالت تین فیصد کم ہوچکی تھی جبکہ صحت مند لائف اسٹائل اپنانے والوں کا ٹیلو میریز دس فیصد تک بڑھ چکا تھا۔اس اسٹڈی کے بارے میں مکمل تفصیل کے ساتھ طبی جریدے ’’لانسے‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔یہاں پر ہم اس کو مختصر اور آسان لفظوںمیں بیان کررہے ہیں تاکہ عام قارئین اس سے کچھ سمجھ سکیں۔

اس کے نتائج بہت حیران کن ہیں لیکن قارئین کو سفارش کی جاتی ہے کہ وہ اس کے مطالعے میں بہت زیادہ غرق نہ ہوں۔یہ ایک بہت چھوٹی سی اسٹڈی ہے اوراس کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اس کی صداقت کو مزید پرکھنے اوراس کی حتمی تصدیق کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر اسٹڈی کی جائے اور جانا جائے کہ آیا اس کے نتائج واقعی اہمیت کے حامل ہیں۔

مزید یہ کہ اسٹڈی میں لائف اسٹائل اور غذا میں تبدیلیوں کے براہ راست صحت پر مثبت اثرات کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔کچھ لوگوں میں ٹیلومیریز کی طوالت زیادہ تھی لیکن کیا وہ زیادہ لمبی عمر پائیں ، یہ ایک الگ سوال ہے۔یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے لیکچرر برائے بائیو کیمسٹری ڈاکٹر لائن کوکس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دو چیزوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔پہلی تو یہ کہ شدید دبائو کی وجہ سے چھوٹے ہوجانے والے ٹیلو میریز کا خراب صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور چوہوں میں کی جانے والی اسٹڈیز سے پتہ چلا ہے کہ جب تجرباتی طورپر ٹیلو میرز کی طوالت کو بحال کیاگیا تو اس سے ٹشوز کی صحت بہتر ہوئی۔

دوسری اس حوالے سے متضاد نتائج ہیں۔ عالمی پیمانے پر جب کینسرزدہ چوہوں کے ٹیلو میریز کی لمبائی میں اضافہ کیا گیا تو ان میں مزید جارحانہ کینسر کے شواہد دکھائی دینے لگے۔ انسانوں میں ٹیلو میریز کی لمبائی میں معمولی اضافے کا تعلق کینسر سے زیادہ بہتر صحت سے ہے اور یہ بات بھی ابھی حتمی طورپر کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ جینیات کو بھول جائیں: طرز زندگی میں تبدیلی سے صحت کو جو فائدہ ہوگا ، اس کا تجزیہ کرنا زیادہ آسان ہوگا۔

سب کے لیے یہ بات شک و شبے سے بالا تر ہے کہ اگر ورزش کی جائے تو اس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں مثال کے طورپر کینسر اور ذیابیطس کا خدشہ کم ہوتا ہے ا ور ہارٹ اٹیک اور فالج کے خدشات میں بھی کمی ہوتی ہے۔صحت مند طرز زندگی کے سلسلے میں اسٹڈی میں شامل مردوں نے ہفتے میں چھ دن روزانہ آدھ گھنٹہ وا ک کی۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنی خوراک میں زیادہ تر سبزیاں شامل کردیں ۔ کم چکنائی والی غذائوں کا استعمال کیا۔ دبائو کو کم کرنے کے لیے یوگا ، مراقبہ اور سوشل سپورٹ سے کام لیا۔

آخر کون سے لوگ ہیں جو اس قسم کی زندگی گذارتے ہیں ؟ پریس ایسوسی ایشن نے اس کو اس طرح بیان کیا:
’’ایک اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ جنگجو بھکشو کی طرح زندگی گذاری جائے تو شاید اس سے خلیات پرزبردست اثرات ہوں۔لائف اسٹائل میں تبدیلی کی بات کریں تو ستر کی دہائی کی مشہور ٹی وی سیریز ’’ ‘Kung Fu’‘‘ کا ڈیوڈ کاراڈائن کا مشہور کردار ’’گراس ہوپر‘‘یاد آتا ہے جس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بڑھاپے کو ایک خاص حد تک واپس موڑ سکتا ہے۔اصل میں یہ کردار ایسی نباتاتی غذائیں کھاتا ہے اور ایسا طرز زندگی اختیار کرتا ہے جو اس کو دیر تک جوان رکھتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے لائف اسٹائل میں تبدیلی اسی طرح ہے۔ یعنی نظریاتی طورپر ایک زبردست آئیڈیا ، لیکن حقیقت میں ناقابل عمل۔اب کوئی بھی اعلیٰ ترین شے پانے کے لیے ہمت تو کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ کو کروموسومز یا ٹیلو میریز جیسے الفاظ مشکل دکھائی دیتے ہیں اور آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا تو بس اتنا سمجھیں کہ ساری چیز صحت مند لائف اسٹائل اور سادہ غذائوں پر منحصر ہے۔چکنائی اور گوشت پر مشتمل خوراکیں ، نشاستے دار غذائوں کا زیادہ استعمال ، ورزش سے جان بچانے کی روش ، ہر وقت دبائو میں رہنا ، ایسی چیزیں ہیں جو تیزی سے عمر کوکھاتی ہیں۔ مزیدار خوراکوں سے دور رہنا بہت مشکل ہے تاوقتیکہ کے آپ یہ عہد نہیں کرتے کہ صحت مند اور لمبی عمر پانے کے لیے آپ یہ قربانی دے کر رہیں گے۔

2050 ء، طبی نگہداشت کے محتاج بوڑھوں کی تعداد تین گنا ہوجائے گی
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2050 میں عالمی پیمانے پر ایسے بوڑھے افراد کی تعداد تین گنا بڑھ جائے گی جنہیں طبی نگہداشت کی ضرورت ہے۔الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل Alzheimer’s Disease International نامی تنظیم کے مطابق اس وقت ایسے بوڑھے افراد کی تعداد دس کروڑ سے زائد ہے جنہیں طبی نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن آئندہ تیس سے چالیس سال تک یہ تعداد لگ بھگ پونے تیس کروڑ ہوجائے گی۔

اس وقت بڑی تعداد میں ضعیف افراد کو خلل دماغ یعنی ڈیمنشیا کی بیماری لاحق ہے جبکہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ مستقبل میں خلل دماغ کے ساتھ الزائمر کی بیماری عالمی پیمانے پر ایک وبا کی صورت اختیار کرلے گی۔رپورٹ کے مطابق اس میں سب سے زیادہ افراد چین اور بھارت میں ہوں گے اس لیے ان ملکوں کی حکومتوں کو اس حوالے سے ابھی سے اقدامات شروع کردینے چاہئیں۔

یاد رہے کہ الزائمر کی بیماری ڈیمنشیاکا سب سے بڑا سبب ہے۔

اس کی علامات میں یادداشت سے محرومی ، موڈ میں تبدیلی اور دوسرے لوگوں سے کمیونی کیٹ کرنے اور سوچ بچار میں مشکل پیش آنا شامل ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد کو ڈیمنشیا کی بیماری لاحق ہے۔ان میں سے نصف سے زیادہ افراد کا تعلق کم اور درمیانے درجے کی آمدنی والے ملکوں سے ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ جوں جوں دنیا میں بوڑھے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا ، ویسے ویسے بوڑھے افراد کی نگہداشت کے لیے روایتی خاندانی دیکھ بھال ، دوستوں اور آس پڑوس کے لوگوں کی مدد کے ساتھ ساتھ حکومتی امداد کی بھی ضرورت ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت ساٹھ سال اور اس سے زیادہ عمر کے صرف دس فیصد افراد کو طویل المعیاد نگہداشت کی ضرورت ہے۔اس میں روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی ، کھانے پینے ، کپڑے تبدیل کرنے اور ٹوائلٹ کے استعمال میں مدد شامل ہے۔اس کی وجہ سے خاندانوں پر دبائو بہت بڑھ جاتا ہے اور بوڑھے افراد کی دیکھ بھال پرمامور افراد کو اپنے کام کاج اور ملازمت وغیرہ سے چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت ڈیمنشیا سے متاثرہ افراد کے علاج اور دیکھ بھال پر عالمی سطح پر سالانہ 376 بلین پونڈ خرچ ہورہے ہیں۔اس میں صحت اورسماجی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ روزگارسے محرومی سے ہونے والا نقصان بھی شامل ہے۔یہ رپورٹ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے کہ وہ اس سلسلے میں ابھی سے اقدامات شروع کردیں۔

رپورٹ کے مصنف کنگز کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری سے وابستہ پروفیسر مارٹن پرنس کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ کم اور د رمیانے درجے کی آمدنی والے ممالک بشمول بھارت اور چین کو سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ اس سلسلے میں ابھی سے پیش بندی شروع کردیں کیونکہ ان ممالک میں ہونے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں بوڑھے افراد کو خاندان کی طرف سے کم ہی سپورٹ مل سکے گی۔

اس وقت تازہ ترین رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کم بچے پیدا کررہے ہیں۔اس طرح خواتین کی تعلیم میں اضافے کے باعث ایسی خواتین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو ملازمت کرتی ہیں یا مستقبل میں کریں گی جس کامطلب ہے کہ وہ گھر کے بوڑھے افراد کی مدد کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی۔اس کے علاوہ ایک سے دوسرے ملک کو ہجرت اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نگہداشت کے محتاج بوڑھے افراد تنہا رہ جائیں گے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ان میں چند یہ ہیں کہ ایسے افراد جو بلا معاوضہ یا معاوضہ کے ساتھ بوڑھے افراد کی نگہداشت میں مصروف ہیں ، ان کی مالی مراعات میں اضافہ کردیا جائے اور گھروں اور نگہداشت کے مراکز میں جو نگہداشت فراہم کی جارہی ہے اس کے معیار کی نگرانی کی جائے۔

پانچ سالہ بچوں کے دانت خراب ہونے کے تناسب میں اضافہ
ایک طبی سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے پانچ سالہ بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے دانت خراب (tooth decay) ہورہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق میٹھے کے زیادہ استعمال اور دانتوں کی اچھی طرح صفائی نہ کرنے کے باعث یہ مسئلہ دکھائی دے رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق صرف انگلینڈ میں ایک چوتھائی سے زائد بچوں کے دانت خراب ہوچکے تھے۔
رپورٹ کے سلسلے میں پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی جانب سے ملک بھر میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب ڈینٹل چیکس کا تجزیہ کیاگیا۔ اس ڈینٹل چیک میں 21فیصد پانچ سال کی عمر کے افراد تھے جن میں سے 27فیصد کے دانتوں میں کیڑا لگا ہوا تھا یاان کے دانت خراب ہورہے تھے۔

برٹش ڈینٹل ایسو سی ایشن کے مطابق دانتوں کی خرابی کے حوالے سے غریب اور امیرعلاقوں کے بچوں میں بہت بڑا فرق تھا۔اعداد وشمار کے مطابق جنوب مغرب کے علاقے کے پانچ سال کے 21فیصد سے زائد بچوں کے دانت خراب تھے جبکہ شمال مغرب کے ایسے بچوں کی شرح 34فیصد تھی۔اس کا مطلب ہے کہ غریب علاقوں کے بچوں میں دانتوں کی خرابی کا مسئلہ زیادہ تھا۔

محققین نے اس سلسلے میں جب مزید مقامی نوعیت کے اعداد وشمار دیکھے تو پتہ چلا کہ برائٹن اور ہوو کے علاقوں میں بچوں میں دانت خراب ہونے کی شرح سب سے کم یعنی ساڑھے بارہ فیصد تھی جبکہ لیکاسٹر میں یہ شرح سب سے زیادہ یعنی 53فیصد سے بھی زائد تھی۔یاد رہے کہ دانت اس وقت خراب ہوتے ہیں جب ان پر میل کی تہہ جمع ہوجاتی ہے۔ میل کی اس تہہ میں موجود بیکٹیریا خوراک اور مشروبات میں پائے جانے والے میٹھے پر پلتے ہیںاور ایک ایسا تیزاب پیدا کرتے ہیں جو دھیرے دھیرے دانتوں کو گلادیتا ہے۔

دانت زیادہ تر اس وقت خراب ہوتے ہیں جب بچوں کی خوراک اچھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ دانتوں کی اچھی طرح صفائی نہ کرنے سے بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔روزانہ دانت برش نہ کرنا اور وقفے وقفے سے ڈینٹل ڈاکٹر سے دانت نہ چیک کرانا بھی اس میں شامل ہے۔

اگرچہ پانچ سال کی عمر تک بچوں میں جو دانت ہوتے ہیں وہ دودھ کے دانت ہوتے ہیں اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان میں اصل دانت نکل آتے ہیں لیکن اگر ان کی بھی اسی طرح صفائی نہ کی جائے جس طرح دودھ کے دانتوں کی نہیں کی گئی تھی تو وہ بھی خراب ہونے لگتے ہیں۔پانچ سال کی عمر کے بچے میں عام طورپر بیس دودھ کے دانت ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں دانتوں کے خراب ہونے سے ایک اور مسئلہ بھی ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ دانت نکلوانے پڑتے ہیں جو کہ ایک تکلیف دہ آپریشن کے ذریعے نکالے جاتے ہیں جس کے لیے اسپتال جانا پڑتا ہے اور یہ آپریشن بے ہوشی کی د وا دے کر کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر والد ین چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے دانت صحت مند ہوں ا ور ان کو اس کی وجہ سے کسی تکلیف کا سامنا نہ ہو تو انھیں چاہئے کہ وہ بچوں کو روزانہ برش کرنے کی عادت ڈالیں ا ور ان کو میٹھی اور ایسی غذاؤںسے بچائیں جو دانتوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ انھیں ایسی خوراکیں دیں جن میں وٹا من ڈی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جیسے دودھ اور مچھلی وغیرہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔