’’ہماری دنیا اجڑ گئی، حکومت نے پوچھا تک نہیں‘‘

بشیر واثق  اتوار 3 نومبر 2013
10 اکتوبر کو لاہور میں پرانی انار کلی فوڈ اسٹریٹ بھی دہشتگردوں کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھی۔ فوٹو : فائل

10 اکتوبر کو لاہور میں پرانی انار کلی فوڈ اسٹریٹ بھی دہشتگردوں کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھی۔ فوٹو : فائل

 دہشت اور خوف و ہراس کے الفاظ سب سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی، مگر اس کا صحیح معنوں میں تجربہ تب ہی ہوتا ہے۔

جب کسی انسان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے سانحات بڑے تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، پاکستانی عوام کو خوف و دہشت کی اس فضا اور کیفیت سے دوچار ہوئے تیرہ ، چودہ سال بیت چکے ہیں، آئے روز کہیں نہ کہیں بم دھماکہ یا فائرنگ کا واقعہ پیش آتا رہتا ہے جس میں بے گناہ شہر ی مارے جاتے ہیں اور ان کے ورثاء اس شعر کے مصداق دھائی دیتے نظر آتے ہیں

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

خوف و دہشت کی اس فضا نے عوام کی اکثریت کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اور بہت سے لوگ ہجوم والے مقامات پر جانے سے گھبراتے ہیں حتیٰ کہ مذہبی مقامات میں سکیورٹی کے اقدامات بھی خوف کے سائے کو گھمبیر کرتے ہیں۔

عید الاضحی سے قبل دس اکتوبر کو ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں دہشت گردوں نے خوف و ہراس کی فضا قائم کرنے کے لئے بم دھماکے کئے۔ لاہور میں پرانی انار کلی فوڈ سٹریٹ بھی ان کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھی۔ دوپہر کے وقت جب لوگ کھانے کی غرض سے فوڈ سٹریٹ پہنچ رہے تھے توسندھی بریانی کی چھوٹی سی دکان پر ہونے والے بم دھماکے سے پورا علاقہ گونج اٹھا، ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی، بریانی کھانے کے لئے آنے والے افراد اور خود مالک دکان اور اس کا بیٹا بم دھماکے سے زخمی ہو گئے جبکہ ایک شخص موقع پر دم توڑ گیا ۔

ایک کلو وزنی ریموٹ کنٹرولڈ بم کھانے کی میز کے نیچے رکھا گیا تھا ، گویا دہشت گرد اس وقت انارکلی میں ہی موجود تھے۔ اس اندوہناک واقعے میں زخمی ہونے والوں کو سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرا دیا گیا۔ یوں گویا ارباب اختیار اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے اور سارے زمانے کے غم سہنے کے لئے زخمیوں اور ان کے ورثاء کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اس بم دھماکے میں شدید زخمی ہونے والا مالک دکان کا بیٹا قاضی اسد خورشید دوروز کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لئے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مالی امداد کا بھی اعلان نہیں کیا گیا ۔ صرف دہشت گردی پر قابو پانے کی باتیں کی گئیں اور یوں معاملہ گویا نمٹ گیا۔

بریانی کی دکان چلانے والے اسد خورشید قاضی کی دھماکے میں شہادت سے اس کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی کیونکہ بریانی کی دکان ہی ان کے خاندان کا واحد ذریعہ آمدن تھا اور وہ تینوں بھائی اور والد سب اسی دکان کو چلاتے تھے۔ جس طرح کسی بھی ادارے کو چلانے اور کامیاب کرنے میں کسی خاص فرد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اسد قاضی کا بھی بریانی کی دکان کی کامیابی میں یہی کردار تھا۔ دکان کھولنے سے رات کو بند کرنے تک وہ وہاں موجود نظر آتا ہے، اس کی شہادت سے گویا اس کا خاندان واحد کماؤ پوت سے محروم ہو گیا۔

بریانی کی چھوٹی سی دکان کھنڈر کا نقشہ پیش کر تی ہے۔ پکی ٹھٹھی سمن آباد لاہور میں اسد خورشید قاضی شہید کے گھر پہنچے تو گھر کے در ودیوار سے افسردگی ٹپک رہی تھی تاہم گھر میں کھیلتے دو چھوٹے بچوں کی وجہ سے زندگی کااحساس ہو رہا تھا ان کی معصومیت گھر پر گزرنے والی قیامت سے انھیں بے خبر رکھے ہوئے تھی۔ قاضی اسد خورشید شہید کی والدہ منور بی بی ، بھائی ثاقب خورشید ،بیوہ غزالہ اسداوراسد کی تینوں بچیاں نویرہ،آمنہ اور جنت موجود تھیں۔ تینوں بچیوں نے سکول یونیفارم پہنا ہوا تھا شاید ابھی سکول سے واپس لوٹی تھیں۔

مکان تقریباً پانچ مرلے کا تھا، خیال آیا چلو ان کے پاس سر چھپانے کو چھت تو ہے مگر تھوڑی ہی دیر بعد ہماری یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ اسد قاضی کی والدہ منور بی بی نے بتایا کہ دھماکے میں تباہ ہو نے والی دکان 1960ء سے انھی کے پاس تھی، پھر 1998ء میں دکان کی نیلامی ہوئی تو اس کے خاوند قاضی خورشید احمد نے اسے خرید لیا جس کے لئے انھیں اپنا مکان فروخت کرنا پڑا ، ان کا خیال تھا کہ مکان تو پھر بھی بن جائے گا اگر روزی روٹی کا اڈا چھن گیا تو گزارہ مشکل ہوجائے گا، اسی نقطہ نظرکے تحت انھوں نے مکان فروخت کر کے یہ دکان خریدی ، چودہ پندرہ سال قبل یہاں بریانی کا کام شروع کیا جو چل نکل، پھر انار کلی میں فوڈ سٹریٹ قائم ہوئی تو اس سے بھی دکان کی آمدن بڑھی۔

تینوں بیٹے قاضی اسد ، ثاقب اور عامر خورشید اس دکان کو کامیاب کرنے کے لئے بڑی محنت کرتے تھے، مگر قاضی اسد شہید بہت مودب اور محنتی تھا اس دکان کو کامیاب کرنے میں اس کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا، یوں سمجھیں کہ وہی اس گھر کو چلانے والاتھا اس کے اس دنیا سے یوں اچانک جانے سے ہماری تو دنیا اجڑ گئی ۔ گفتگو کرتے ہوئے منور بی بی کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے، اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو ایک ماں پر ٹوٹنے والی قیامت کی کہانی سنا رہے تھے، وہ رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگی ، میرا بیٹا اسد بہت ہی اچھا تھا اس کی کس کس بات کی تعریف کروں، ہر کسی سے بڑے اخلاق سے ملتا تھا ساری مارکیٹ والے بھی اس کی تعریف کرتے تھے۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں، بڑی نویرہ بارہ سال کی ہے اور ساتویں کلاس میں پڑھتی ہے، دوسری بیٹی آمنہ نو سال کی ہے اور تیسری کلاس میں پڑھتی ہے جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی چار سال کی ہے وہ پلے گروپ میں ہے۔

قاضی اسد کی بیوہ غزالہ اسد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’میری تو دنیا برباد ہو گئی، سب کچھ تباہ ہو گیا ، اوپر سے حکومت نے بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کیا ، حکومت سے اپیل ہے کہ ہماری مالی مدد کرے ، دکان بنوا دے، ہمارا روزگار کا وسیلہ بن جائے گا باقی اللہ فضل کرے گا ۔ اسد کی بڑی خواہش تھی کہ اس کی بڑی بچی ڈاکٹر اور چھوٹی بچی حافظہ بنے اب یہ سب بڑا مشکل نظر آرہا ہے، ہمارے لئے گھر کے اخراجات چلانا مشکل ہو گئے ہیں، پھر بچیوں کے پڑھائی کے اخراجات ہیں ، وہ الگ ہیں۔‘‘اسد کی بیٹیاں کہنے لگیں کہ ان کی فیسوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے ، یونیفارم خریدنا تھا وہ اب تک نہیں خرید سکیں، خدا کے لئے حکومت ہمارے لئے کچھ کرے۔

قاضی اسد کے چھوٹے بھائی ثاقب خورشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اور پھر بم دھماکوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کے لئے تو خاص طور پر امداد کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ ہمارا سب کچھ برباد ہو گیا اور حکومت نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ گھر کرائے کا ہے ، ہمارے لئے تو کرایہ دینا ہی بہت مشکل ہے ، گھریلو اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ جس جگہ یہ دھماکا ہوا ہے وہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا حلقہ ہے جہاں سے منتخب ہو کر وہ اس عہدے تک پہنچے ہیں ، افسوس کی بات ہے کہ ان کے حلقے میں ہوتے ہوئے بھی ہم حق سے محروم ہیں ۔ دھماکے بعد حمزہ شہباز شریف وہاں آئے تھے مگر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کا ذکر کر کے چلے گئے ہمیں پوچھا تک نہیں ۔ میرے والد صاحب دل کے مریض ہیں میں انھیں ساتھ لے کر صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین سے عید سے قبل ملا تھا ، وہ کہنے لگے کہ اب تو ان کے پاس وقت نہیں ہے بعد میں کچھ کریں گے، مگر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ صاحب کو بھی درخواستیں بھیجی ہیں ، مگر کچھ نہیں کیا گیا ۔ ‘‘

ثاقب خورشید کی باتوں پر چراغ تلے اندھیرا والا محاورہ بالکل پورا اترتا تھا کیونکہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف ملک بھر کے عوام کی قسمت سنوارنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں مگر اپنے ہی حلقے میں بم دھماکے کے متاثرین داد رسی کے لئے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ارباب اختیار کی طرف سے ہر ایسے سانحے کے بعد دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کے دعوے اور ان کی روک تھام کے وعدے بھی کئے جاتے ہیں۔

ان سانحات میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لئے مالی امداد کے اعلانات بھی ہوتے ہیں۔ یوں ارباب اختیار یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس سے وہ اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ارباب اختیار اس وقت تک یہ دعوٰی کرنے کے اہل نہیں ہیں جب تک وہ ایسے سانحات میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیتے اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے خاندان کے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو جاتا۔کیونکہ حکومت کی طرف سے مالی امداد کے اعلانات کے بعد رقم وصول کرنے کے لئے ورثاء کئی کئی ماہ تک دفاتر میں ذلیل وخوار ہوتے رہے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ورثاء رقم نہ ملنے سے مایوس ہو کر بیٹھ گئے جبکہ میڈیا کے ذریعے مالی اعلانات کے بعد عوام میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ دھماکے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے ورثاء کو معاوضہ فی الفور ادا کر دیا جاتا ہے۔

ایسا بھی ہوا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کے بعض واقعات میں جاں بحق یا زخمی ہونے والوں کے لئے مالی اعلانات بھی نہیں کئے، یوں پاکستان کا آئین ہر شہری کو جان و مال کے تحفظ کا جو حق دیتا ہے وہ حکومت نے خود اس سے چھین لیا ۔ حکومت کا فرض ہے کہ ایسی تمام غفلتوں اور کوتاہیوں سے بچے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے اور اگر کسی کے ساتھ ایسا سانحہ پیش آ جائے تو اس کے خاندان کی بحالی کو یقینی بنایا جائے صرف اعلانات پر نہ ٹرخایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔