لیٹر پرنٹنگ پریس کا زمانہ (حصہ دوم)

لیاقت راجپر  ہفتہ 21 دسمبر 2019

پیپر کے پیچھے نرم پیڈ لگے ہوتے تھے تاکہ کاغذ پھٹ نہ جائے وہ اتنے بھی نرم نہیں ہوتے تھے کہ چھپائی کاغذ کے اندر سے نکل جائے یہ پیڈ دیکھنے میں نرم تھے مگر اندر سے سخت اور مضبوط تھے اور اس میں لچک رکھنے کی صلاحیت تھی ۔

مشین چلانے والے کا ذہن ایک پیڈل کی طرف، دوسرا کاغذ رکھنے کی طرف اور تیسرا کاغذ کو چھپنے کے بعد اٹھانے کی طرف ہوتا تھا۔ جب بعد میں مشین بجلی سے چلنے لگی تو آپریٹر کو بڑا ریلیف ملا اور چھپائی کی رفتار میں بھی تیزی آگئی۔

اس مشین کو چلانے کے لیے اس میں ایک بڑا وہیل ہوتا تھا جس کو گزری لگی ہوتی تھی اور مشین کو چلانے اور بند کرنے کے لیے ایک لیور بھی ہوتا تھا جب کہ چھپائی کی رفتار کم اور تیز کرنے کا بھی نظام مشین میں لگا ہوتا تھا۔ مشین جب خراب ہو جاتی تو اس کے بنانے والے مکینک ہوتے تھے مگر منور بخاری نے مشین کو بنانے کا کام بھی سیکھ لیا اور وہ اسے خود ہی ٹھیک کرتے تھے اور دوبارہ انھیں اپنی جگہ پر فکس کر دیتے۔ چھاپنے والے Pads کا بھی بڑا اہم رول ہوتا تھا جس سے چھپائی اچھی یا خراب ہو جاتی تھی اس لیے اسے بھی بہ وقت ضرورت بدل دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے چھپائی صاف اور اچھی ہو جاتی تھی۔

حروف سیسے (Lead) کے بنے ہوئے ہوتے ہیں جو نرم اور سافٹ ہوتے تھے جس سے کاغذ پر پڑنے سے کاغذ نہیں پھٹتا ہے اور کاغذ کی چوڑائی، لمبائی اور وزن کا بھی خیال رکھا جاتا تھا جس کا خیال آج بھی رکھا جاتا ہے۔ جب یہ حروف ڈم ہو جاتے تھے یا گھس جاتے تھے تو وہ کمپنی کو واپس بھیجے جاتے تھے جہاں سے نئے حروف بھیجے جاتے تھے۔

حروف بنانے والی دو کمپنیاں کراچی میں ہوتی تھیں جس میں ایک کراچی فاؤنڈری اور دوسری پرنٹرز گائیڈ تھیں جو پرانے حروف لیتے تھے جس کی کچھ رقم دیتے تھے اور نئے حروف کی ڈلیوری بھیجے ہوئے پتے پر ارسال کی جاتی تھی۔ پرانے حروف وزن کے حساب سے لیے جاتے تھے اور پھر انھیں پگھلا کر اس سے نئے حروف بنائے جاتے تھے۔ ہر Font کے حروف کی الگ الگ قیمت ہوتی تھی۔ حروف جب خریدے جاتے تو وہ بھی وزن کے حساب سے ملتے تھے۔

لیٹر پرنٹنگ پریس والے بھی اخبار کے علاوہ باقی جتنے بھی کام ہوتے تھے ان کا ریٹ مختلف ہوتا تھا جس میں خاص طور پر Agreement Bonds، وکیلوں کے کام، دعوت نامے، لیٹر پیڈ وغیرہ شامل تھے جس میں پیپر، سیاہی اور لیبر کے خرچے کے سلسلے میں ایک Margin دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی چیز رنگین چار کلر میں چھپوانی ہوتی تو اس کو چار مرتبہ چھاپا جاتا تھا جس میں ہر بار الگ رنگ شامل کیا جاتا تھا اور ہر بار پلیٹ کو دھو کر لگایا جاتا تھا تاکہ اس پر دوسرا رنگ چڑھایا جائے۔ اس کے علاوہ چھپائی والا پیپر بھی ہر بار سکھایا جاتا تھا۔

تصویروں کی چھپائی کے سلسلے میں انھیں کراچی بھیجا جاتا تھا جہاں سے ان کو چاروں طرف Lead کی پٹیاں لگا کر لکڑی کے فریم میں بٹھا کر واپس بھیجا جاتا تھا ، اسے پھر مقررہ جگہ پر لگا کر چھاپا جاتا تھا۔ اس چھپائی کے نظام میں بڑی احتیاط کرنا پڑتی تھی کیونکہ ذرا سی غلطی سے کاغذ بھی پھٹ جاتا، تصویریں بھی خراب ہو جاتی تھیں۔ اس کام میں ساری مہارت مشین چلانے والے کی ہوتی تھی اور وہ بھی اپنے کام سے محبت کرتا تھا اور جب اخبار یا اور مواد چھپ جاتا تو اسے دیکھ کر وہ بڑا خوش ہوتا تھا۔

اس سلسلے میں اخبار والے ہمیشہ کچھ تصویریں جس میں ذوالفقار علی بھٹو، قاضی فضل اللہ، محمد ایوب کھڑو کی تصویریں ہمیشہ اخبار میں لگائی جاتی تھیں۔ تصویریں مختلف ہوتی تھیں جو اخبار میں لگائی جاتی تھیں جنھیں دھو کر دوبارہ لگانے کے قابل بنایا جاتا تھا جس میں مٹی کا تیل استعمال ہوتا تھا تاکہ تصویروں کو زنگ لگانے سے بچایا جائے اور دوبارہ استعمال کے لائق بنایا جائے۔

اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں، میگزین، کالج کے میگزین، سندھ گورنمنٹ، لوکل باڈیز وغیرہ کے Logos کو Lathe مشین پر بناکر محفوظ کیا جاتا تھا تاکہ اسے چھپائی کے دوران استعمال کیا جائے جس کے لیے سکھر شہر جانا پڑتا تھا کیونکہ اس طرح کا کام لاڑکانہ میں نہیں ہوتا تھا اور اگر ہوتا بھی تھا تو اس کی وہ کوالٹی نہیں تھی جس کی ضرورت تھی۔ جب بائنڈنگ کا وقت آتا تو اس کے لیے مستقل طور پر ایک Binder رکھا جاتا تھا یا اس کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔

جیساکہ اخبار کے پیپر بڑے ہوتے تھے انھیں کاٹنے کے لیے ایک بڑی تیز چھری رکھی جاتی تھی اور بعد میں سکھر سے ایک کاغذ کاٹنے کا کٹر جسے ٹوکا کہتے تھے لے آئے جو ہر سائز کا کاغذ تیزی کے ساتھ کاٹ دیتا تھا ورنہ ہاتھ سے چھری استعمال کر کے کاغذ کاٹنے میں وقت بھی ضایع ہوتا تھا اور بڑی محنت کرنی پڑتی تھی اور اس کے علاوہ زخمی ہونے کے خدشات ہوتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ جب یہ ٹوکا تھوڑا سا کند ہو جاتا تھا تو اسے سکھر جا کر تیز کروایا جاتا تھا۔

اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے منور سلطان بخاری، مکرم سلطان بخاری اور معظم سلطان بخاری صحافت کی دنیا میں داخل ہو گئے اور پرنٹنگ پریس کا کام بھی سنبھال لیا۔ شروع میں وہ پی پی آئی، اے پی پی اور دوسرے اخبارات میں بھی رپورٹنگ کرنے لگے۔ ہفتہ روزہ انصاف، سندھی میں چھپتا تھا اور New Era انگریزی میں ہفت روزہ شایع ہوتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ ان اخبارات میں خبر اور تصویر چھپوانے کے لیے بھٹو اور ان کے بھائی سکندر محمد ایوب کھڑو، قاضی فضل اللہ جیسی بڑی شخصیات جمال الدین بخاری کے پاس آیا کرتی تھیں۔

کامریڈ بخاری پنے اخبارات شہر کے علاوہ پورے پاکستان جس میں سندھ بھی شامل ہے بہ ذریعہ ڈاک ارسال کرتے تھے اور شروع کے دنوں میں تو یہ اخبارات ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں کے پاس بھی جایا کرتے تھے۔ بہرحال لیٹر پرنٹنگ پریس کا بھی ایک زمانہ تھا جس کی اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔