زوال آمادگی کی نشانیاں

مقتدا منصور  اتوار 3 نومبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جب علم کی قدرومنزلت ختم ہوجائے۔اہل علم و دانش نظرانداز کیے جائیں اور اہل زر معتبر ٹہریں۔کج بحثی و کج کلامی عام ہوجائے۔ ذاتی مفاد اجتماعی مفادپر حاوی آجائے۔ تحمل ، برداشت اور رواداری دم توڑ جائے اور اس کی جگہ فرقہ واریت،قبیلہ اور خاندان پرستی لے لے ۔ انفرادی اوراجتماعی سطح پر لوگ بے جا اناپرستی (Super ego) کا شکار ہوجائیں۔جھوٹ اور دروغ گوئی زندگی کا معمول بن جائے۔اداروں کی جگہ فرد مقدم ہوجائیں تو بقول شیخ سعدیؒ سمجھ لو کہ معاشرہ آمادہِ زوال ہے۔ اگرایسے معاشروں کی درستگی کے اقدامات پرفوری توجہ نہ دی جائے تووہ مزید انتشار میں مبتلاہوکرتباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ خامیاں اور کمزوریا ں نہ صرف بدرجہ اتم موجود ملیں گی، بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی بھی نظر آئیں گی ۔ حد یہ ہے کہ کیا عوام اورکیاخواص سبھی ان میں مبتلا ہیں۔چونکہ کسی بھی سطح پر ان خامیوں اورکمزوریوںکوسماجی خرابیاں نہیں سمجھاجارہا،اس لیے ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی عملی کوشش بھی نہیں کی جارہی۔جس کے باعث یہ خرابیاں مزید گہری ہورہی ہیں۔بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ روزِ اول سے دروغ گوئی اور جھوٹ پر مبنی پالیسیوں کے سبب ہم نہ قوم بن سکے اور نہ ریاست کی سمت کا تعین کرسکے۔غلط اور ناقابل عمل مفروضوں پر قائم پالیسیوںاور حکمت عملیوں نے نہ صرف ملک کو عالمی تنہائی کاشکار کیا،بلکہ ملک کے اندر بھی انتشار اور افراتفری کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔کرپشن، بدعنوانی اور بدانتظامی نے لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم ہوا،جس میں جسے جہاں موقع ملا، مستفید ہوااور عوام وخواص کی تخصیص ختم ہوگئی۔آمریت نے صرف نظم حکمرانی ہی میں بگاڑ پیدا نہیں کیا، بلکہ پورے معاشرے کی ذہنیت آمرانہ کردی۔دولت و طاقت کابیجااستعمال قوت وطاقت کی علامت بن گیا۔اداروں کی اہمیت و افادیت ختم ہوگئی اور فرد اور اس کی طاقت مقدم ومحترم ٹہرے۔

دنیا بھر میں طلبا انجمنیں ،ٹریڈیونینیں، پروفیشنل باڈیزاورسماجی تنظیمیںمختلف شعبہ جات سے وابستہ شہریوں کے حقوق کے ایجنڈے پیش کرکے سیاسی عمل کو مہمیز لگاتی ہیں۔مگر پاکستان میں یہ سارا عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور معاشرہ تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہاہے۔سب سے پہلے طلبا تنظیموں پر ہاتھ صاف کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کی مداخلت اور فوجی آمروں کی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں طلبہ تحاریک اپنے ابتدائی دور ہی میں مضمحل کردی گئی۔سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ طلبہ تنظیمیں اور یونینیں سیاسی عمل کے فروغ میں نرسری کا کرداراداکرتی ہیں۔تعلیمی اداروں میں ہونے والے انتخابات جمہوری عمل سے آگہی ،قیادت کے رموزاورشکست وفتح کی صورت میں جذبات کو قابورکھنے سلیقہ سکھاتے ہیں۔جب کہ مختلف ہم نصابی سرگرمیاں عملی زندگی میں ریاستی امور چلانے کی تربیت کاحصہ ہوتے ہیں۔ مگر محدود ادارہ جاتی اور طبقاتی مفادات کی تکمیل کی خاطرطلبا یونینوں پر پابندی کے ذریعے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شرکت کا راستہ روک دیا گیا۔

سیاسی عمل کو مہمیز لگانے اور اس کے کینوس کو وسیع کرنے کا دوسرا بڑاذریعہ ٹریڈیونینیں ہوتی ہیں۔ٹریڈ یونینیں خود سیاست نہیں کرتیں،بلکہ سیاسی جماعتوںکو محنت کشوں کے حقوق سے آگاہ کرتی ہیں اور منظم تنظیم کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈال کر یہ حقوق حاصل کرتی ہیں۔طلبہ تحریک کی طرح ٹریڈیونین تحریک بھی 1960ء کے عشرے سے مضبوط و مستحکم ہونا شروع ہوگئی تھی۔اسے تین طرح سے نقصان پہنچایا گیا۔اول، حکومت کی طرف سے مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرکے۔جن کے باعث ٹریڈیونین کے لیے کام کرنا مشکل ہوا۔دوئم،سیاسی مداخلت کے ذریعے ۔یعنی ہر سیاسی جماعت نے مزدوروں کے یونٹ اور بیوروقائم کرکے مزدوروں کی پیشہ ورانہ قوت کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کردیا۔سوئم، ٹریڈیونین رہنمائوں کو مختلف مراعات اورسہولیات کی فراہمی کے ذریعے کرپٹ کرکے۔یوں ٹریڈیونین تحریک حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی عیاریوں اوراپنے ہی بعض رہنمائوںکی مفاد پرستی کے نتیجے میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکرگہناگئی۔ نتیجتاًآج یہ تحریک عزم وحوصلے سے عاری ہوکر برگدکے بوڑھے درخت کی مانند ہوگئی ہے، جو کسی کام کانھیں ہوتا۔

سیاسی عمل کو تقویت پہنچانے میں تیسرا اہم عنصر پروفیشنل باڈیز ہوتی ہیں۔یہ تنظیمیں مختلف پیشوں سے وابستہ افرادکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے فعالیت سے کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں وکلاء ، ڈاکٹروں اور صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے اپنے پیشہ سے وابستہ افراد کے حقوق کے علاوہ جمہوری جدوجہد میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔یہی سبب ہے کہ یہ تنظیمیں حکمرانوں اورمراعات یافتہ طبقات کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہیں۔سب سے پہلے وکلاء تنظیم کونشانہ بنایا گیا، جو ایوبی آمریت کے دور سے فعال چلی آرہی تھی۔ لیکن 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک میںجس بے مثل اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔نتیجتاًریاست کے مقتدر حلقے لرز اٹھے تھے۔بعدازاںسازشوں کاایسا بازارگرم ہوا کہ یہ تحریک تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر باہمی یگانگت اورتحریکی فعالیت سے محروم ہوگئی۔آج بار کی اہمیت اور حیثیت گہنا چکی ہے اور عوام میںاس کا وہ مقام ومرتبہ نہیں رہاجو چند برس ہواکرتاتھا ۔

دوسری انتہائی اہم پروفیشنل باڈی ملک بھر کے ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) ہے۔ یہ تنظیم شعبہ طب سے وابستہ پیشہ وروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے کے علاوہ مفاد عامہ کے لیے بھی خدمات سرانجام دیتی ہے۔ PMA نے قدرتی آفات بالخصوص 2005 کے زلزلہ اور2010 اور 2011 کے سیلاب کی تباہ کاریوںکے دوران بے گھر افراد کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ مگر مسیحائوں کی یہ تنظیم جو گزشتہ 60برس سے بلاکسی اختلاف ہر سال اپنے مرکزی، صوبائی اور ضلعی عہدیدار منتخب کرکے جمہوری انداز میں اپناوجود قائم رکھے ہوئے تھی، اب باہمی نفاق اورشدیداختلافات کے نتیجے میں تقسیم کے عمل سے دوچار ہے۔یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ ڈاکٹروں جیسا اعلیٰ تعلیمیافتہ اور قابل قدر طبقہ بھی انا اور خود پرستی کے سحر میں گرفتار ہوکر اپنے مسیحائی کردار سے روگردانی کرتے ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ سے تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والے جمہوری عمل سے پہلو تہی پر آمادہ ہو چکا ہے ۔

پاکستان میں تیسری بڑی پروفیشنل باڈی صحافیوں کی ملک گیر تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ)ہے۔ اس تنظیم نے صحافیوں کے حقوق کے علاوہ آزادیِ اظہار کے خلاف ہونے والی سازشوں کا راستہ روکنے کے لیے ان گنت قربانیاں دے کر دراصل جمہوریت اور جمہوری عمل کی بقاء کی جنگ میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔قیام پاکستان کے چند برس بعد ہی جس انداز میں عوام کو آگہی سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، صحافیوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کسی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔ فوجی آمریت ہو یا سیاسی منتخب حکومت ، جب بھی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی، تو ان اقدامات کا راستہ روکنے کے لیے صحافی سب سے اگلی صف میں پائے گئے۔صحافیوں نے قید وبند سے کوڑوں کی سزائوں تک ہر ریاستی ظلم وستم اور غیر ریاستی عناصر کا جبر برداشت کیا۔ یہی سبب ہے کہ ملک کا ہر بالادست طبقہ صحافیوں کے بے مثل اتحاد کوپارہ پارہ کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔

سب سے پہلے صحافیوں کی یہ ملک گیر اور انتہائی فعال تنظیم نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہوگئی اور دو بڑے گروپ وجود میں آگئے۔ لیکن ملک کی بالادست قوتوں کو اس کے باوجود بھی سکون نہیں آیا اور اب یہ تنظیم مزید تقسیم درتقسیم کا شکار ہوچکی ہے۔حالیہ تقسیم میں صرف حکمرانوں اور ریاست کے بالادست طبقات کو موردالزام ٹہرانا درست نہیں ہے، بلکہ زیادہ ذمے داری خودتنظیم کے اپنے رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنھوں نے،اول، اپنے ذاتی مفادات کی خاطربرادری کے اجتماعی مفادات کو نظر اندازکردیا۔دوئم، سیاسی جماعتوں کوتنظیم کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ۔سوئم، اپنے معاملات اندرونِ خانہ حل کرنے کی بجائے انھیںطشت ازبام کیااور جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ۔

اس کربناک صورتحال سے نکلنے کااب واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسے سینئر صحافیوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جن پر دونوں گروپ متفق ہوں۔ یہ کمیٹی بااختیار ہو اور arbitrationکے اختیاررکھتی ہو،تاکہ دونوں متحارب گروہوں کو مذاکرات اور کسی صائب حل پرآمادہ کرسکے ۔ اگر باہمی اتفاق سے دونوںگروپ نئے انتخابات پر راضی ہوجائیں تو نئے انتخابات کرادیے جائیں، بصورت دیگر موجودہ نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اگلے انتخابات تک فریقین کوخاموشی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر صحافیوں نے اس وقت دوراندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا تو پہلے سے فکری انتشار میں مبتلا اس ملک میں مزید انتشار پھیلے کے خدشات کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔بعض حلقے الیکٹرونک میڈیامیں پہلے ہی غیر صحافیوں کوخاصی حد تک بالادستی دلاچکے ہیں ۔ اب ان کااگلا ہدف پرنٹ میڈیا ہوگا۔اسلیے ہر اقدام پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے پھیلائے گئے نفاق سے بچنے اور باہمی اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس لیے اس ملک کے عوام کی معلومات اور اطلاعات تک بلاکسی رکاوٹ رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں دوراندیشی اورفعالیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں اس ملک کی اور خود ہمارے پیشے کی بقا ء مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔