تیر کمان سے، بات زبان سے

شیریں حیدر  اتوار 22 دسمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل جائے تو لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ بچپن سے ہی بڑوں سے یہی سیکھا کہ پہلے تولو، پھر بولو۔ اس پر یقین اس وقت تک ہی تھا جب تک کہ اپنے ارد گرد لوگوں کو اس طرح بولتے سنا کہ وہ بولنے کے بعد بھی نہیں سوچتے کہ انھوں نے کیا بولا تھا اور ان کے بولے کے کیا اثرات ارد گرد کے لوگوں پر ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی سنا تھا کہ دعا، گالی اور خواب… ہر انسان کی مادری زبان میں ہوتے ہیں۔ دعا اور گالی کی حد تک تو سچ لگا مگر خواب، مجھے اس سے کئی بار ذاتی اختلاف ہوا کہ خوابوں میں کئی زبانیں ہوتی ہیں، اور تو اور خاموش خواب بھی ہوتے ہیں۔

میں نے چند سال سے اپنے ارد گرد جو زبان سیاست دانوں کے منہ سے سننا شروع کی، اس سے ان کی مادری زبان ہی نہیں، ان کے پورے پس منظر اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے کرودھ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے مخالفین کو اپنی زبانوں سے سر عام برہنہ کر دیتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اس سے ان کی اپنی اصلیت برہنہ ہو جاتی ہے۔ ہماری تربیت میں ہی شاید یہ عنصر رکھ دیا جاتا ہے کہ جس سے نفرت ہو اور اس کا اظہار کرنا ہو تو زبان کی گراوٹ بہترین ہتھیار ہے۔ اسی لیے سیاستدانوں کے آنے والے الیکشن کے دوران، سیاسی نعروں میں موجودہ حکمرانوں کو سر عام سزا دینا، سڑکوں پر گھسیٹنا اور ان کی کردار کشی، عام پائی جاتی ہے۔

ان کی اصلیت دیکھنا ہو تو انھیں ٹیلی وژن پر مختلف پروگراموں میں اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہوئے دیکھیں، ان کی زبانیں زہر اگلتی ہیں، منہ سے برہمی کے باعث کف نکلتی ہے اور چہرے پر تناؤ اور غصہ ان کے چہروں کو مزید… ایسے لگتا ہے کہ کوئی گالم گلوچ سے بھر پور انگریزی یا ہندی فلم دیکھ رہے ہوں۔ پروگرام کے کمپئیر، ایک بات کی چنگاری بھس میں پھینک کر تماشہ لگا دیتے ہیں، خود بھی دیکھتے ہیں اور ہمیں بھی دکھاتے ہیں۔ کہیں جو محسوس ہو کہ آگ ٹھنڈی پڑنے لگی ہے تو مزید کسی پرانی بات کا حوالہ دے کر تیل چھڑک دیتے ہیں۔

موجودہ حالت تو ا س لیے بھی ابتر ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم، جب بھی مائیک کے سامنے آتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ ابھی بھی کنٹینر پر ڈی چوک میں کھڑے ہیں۔ انھیں کوئی الیکٹڈ کہے یا سلیکٹد، ایک بات واضع ہے کہ کسی ملک پر جو بھی حکمرانی کرنے کا حقدار ٹھہرتا ہے، اسے اللہ تعالی کے سوا نہ کوئی اس کرسی پر بٹھا سکتا ہے اور نہ اتار سکتا ہے۔ اسے یہ کرسی کیوں ملتی ہے، اس میں اس کی عزت بھی مقصود ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کرسی کے ذریعے اس کی ذلت مقصود ہو، جیسی کہ ہمارے سابقہ ادوار کے حکمرانوں کی ہو رہی ہے۔

ہم اپنی زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، جو کچھ کہا جاتا ہے وہ ہمارے کردار کا عکاس ہوتا ہے۔ زبانی بات کرنے والے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں، تو جن کے پاس قلم کی طاقت ہے ان کا کیا؟ انھیں تو اپنے ہر لفظ کا جواب دینا ہے، خواہ وہ قلم کار ہو، استاد ہو، شاگرد یا پھر منصف!! قرآن پاک میں خود اللہ تعالی سورۃ القلم میں فرماتے ہیں، ’’قسم ہے قلم کی اور اس کی جسے لکھتے ہیں۔ نہیں تم اپنے رب کے فضل سے دیوانے۔ اور بے شک تمہارے لیے اجر ہے بے انتہا۔ اور بے شک تم اخلاق کے اعلی مرتبے پر ہو۔ سو عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میںسے کون دیوانہ ہے۔ بے شک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے، اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے اور وہ خوب جانتا ہے ان کو جو سیدھے راستے پر ہیں!‘‘ (پہلی سات آیات کا ترجمہ)

میں جب بھی قرآن پاک پڑھتے ہوئے اس سورۃ کو پڑھتی ہوں، اس کا ترجمہ مجھ پر ہیبت طاری کر دیتا ہے۔ میں خود قلم کار ہوں، اللہ تعالی نے یہ طاقت خود مجھے ودیعت کی ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ جو کچھ بھی ہمیں عطا کرتا ہے، عنایت کرتا ہے، ودیعت کرتا ہے، وہ سب کچھ ہماری آزمائش میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ تعالی قلم کی اور اس قلم سے لکھے ہوئی کی قسم کھاتا ہے تو سوچیں کہ لکھنے والے کی کیا ذمے داری ہے۔

اپنے لکھے کو ہم خود بھی لکھ کر تسلی سے پڑھتے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو گئی ہو، ہم کہانیاں لکھنے والوں کو فکر اتنی ہے کہ حقائق مسخ نہ ہوں، کوئی غلط پیغام قارئین تک نہ پہنچے، ہمارا لکھا کسی کو بہکا نہ دے۔ ہمارے کسی لکھے ہوئے لفظ سے جب کوئی متاثر ہوتا ہے، کسی کالم سے کوئی جملہ کسی کی زندگی تبدیل کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہمارے قارئین ہمیں ای میل کے ذریعے بتاتے ہیں کہ انھیں ہماری کہانی سے یہ سبق حاصل ہوا تو سچ مانیں کہ قلم میں جذب اور شوق بڑھ جاتا ہے۔

جان کی امان پاؤں تو عرض کروں، یہ قلم جب کسی منصف کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس کی طاقت کسی قلم کار کے ہاتھ سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ منصفی ایک ایسا پیشہ ہے جو ہر زمانے میں اور ہر ملک و معاشرے میں انتہائی عزت اور احترام کا باعث رہا ہے۔ ایک منصف اپنے دماغ اور قلم سے کسی معاشرے کا چہرہ بناتا ہے، اس کے کیے گئے درست اور غلط فیصلے قوموں کی تقدیر بدل دیا کرتے ہیں۔ حال ہی میں، ہماری ایک معزز عدالت کے ایک منصف نے ایک آرمی چیف اور صدر پاکستان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جن تلخ الفاظ کا لکھ کر استعمال کیا ہے، اس کی مثال اسی ملک میں نہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی۔

کجا یہ کہ ایک ایسے ملک میں جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، کیا قرآن اور سنت میں ایسے کسی فیصلے کی مثال موجود ہے؟ کیا اللہ اور اس کے رسول ؐ نے اپنی حیات طیبہ میں ایسے سخت الفاظ کے ساتھ کسی کے بھی خلاف کوئی فیصلہ سنایا ہے؟

مجھے پرویز مشرف سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا جرم کیا ہے، سزا کیا؟ سزا درست ہے یا غلط، جرم کی صحت ثابت کی گئی یا نہیں، سزا دینے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے گئے یا نہیں، صرف ایک بات، جب آپ کو اتنی طاقت والی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے تو اپنے دماغوں کو ٹھنڈا رکھیں۔ ملک کے ہر گلی کوچے میں چھوٹے بچوں کی جانیں اور عزتیں ہر روز لٹ جاتی ہیں، ظلم اور بربریت کی مثالیں ماضی میں بھی تھیں اور اب بھی قائم ہو رہی ہیں، جو اصل قاتل ہیں وہ چھوٹ جاتے ہیں، وہاں عدالتیں اور حکومتیں بے اختیار ہیں؟ ہر جرم پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ اس ملک میں سب کے خلاف بولا جا سکتا ہے، مگر ہم بولیں تو توہین عدالت کی فرد عائد ہو جاتی ہے!!

اس وقت سارے محکموں کا سارا زور اور طاقت اس بات پر صرف ہو رہی ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کو safe passage   کیسے دیا جائے، حکومت اس وقت ایک ایسے بھنور میں ہے کہ نکلنے کا راستہ نہیں نظر آتا۔ ایسے میں احتیاط کا تقاضہ تو یہ ہے کہ عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد ہو مگر لگ ایسا رہا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے مابین ٹھن گئی ہے۔ اس ساری چکی کی مشقت میں عوا م گیہوں بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں ترقی کیا خاک ہو گی، جو لوگ اس ملک کو لوٹ کر کھا چکے ہیں، وہ اس وقت ملک سے بھاگ چکے ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں ان کو بھگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ وہ چندسال ملک سے باہر آرام اور تفریح کر لیں، پھر انھوں نے واپس آ کر اپنی اگلی نسلوں کے لیے مزید اس ملک کو نوچ کھسوٹ کر کھانا ہے۔

اس سارے تماشے میں عام آدمی سوچتا ہے، یار یہ ادارے کس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔