تلخ گھونٹ

زاہدہ حنا  اتوار 22 دسمبر 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

سات دہائیوں پہلے ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آگیا۔ خیال تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ فرقہ واریت دم توڑ دے گی، مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا ، ہندو مسلم تنازعہ بھی دم توڑ دے گا اورپورے برصغیر میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔

دونوں نو آزاد ملکوں کے درمیان تعلقات دوستانہ ہونگے، سرحدوں پر امن ہوگا ، لوگ آزادانہ دونوں ملکوں میں آجا رہے ہونگے، ہندوستان اور پاکستان کی صورتحال تقریباً امریکا اور کینیڈا جیسی ہوگی ، چھوٹے موٹے اختلافات پیدا ہوتے رہیں گے لیکن دونوں ملک کبھی جنگ کا تصور بھی نہیں کرینگے۔

آج ستر سال کا تجربہ کیا بتا رہا ہے؟ دونوں پڑوسی ملک تقریباً پانچ بڑی چھوٹی جنگیں لڑچکے ہیں۔ سرحدوں پر صورتحال ہمیشہ کشیدہ رہتی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ تجارت بند ہے اور فضائی راستے بھی بند ہیں۔ دونوں ملک اس صورتحال کی ذمے داری ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں ،کوئی یہ نہیں کہتا کہ غلطی اس سے بھی ہوئی ہے۔ پاکستان کی شہری کے طور پر جب میں تجزیہ کرتی ہوں تو مجھے جس بات کا سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر ہر ذمے داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ شاید ہی کبھی کوئی موقع ایسا آیا ہوکہ جب ہم نے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود اپنا احتساب کیا ہو۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہندوستان کیا کہتا اور کرتا ہے۔

مجھے تو اس سے غرض ہے کہ وہ آج کہاں ہے اور ہم ترقی کے کس مقام پر ہیں۔ مجھے تو اس بات کا غم ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں ہم جنوبی ایشیا کے تقریباً تمام ملکوں سے کافی آگے تھے۔ حتیٰ کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں غربت اور پسماندگی ہم سے کہیں زیادہ تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ معاشی اور انسانی ترقی کے تمام اشاریوں میں ہم جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں سے بہت پیچھے جاچکے ہیں۔ زوال کا ایک ایسا عمل شروع ہوگیا ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ سوچنا تو ہوگا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

اس حوالے سے میں یہی سمجھ پائی ہوں کہ صرف ایک عنصرکی کمی نے ہمیں اس افسوسناک مقام تک پہنچا دیا ہے۔ ہماری غربت ، پسماندگی ، معاشی بد حالی ، سیاسی بحرانوں ، تعلیم اور صحت کی بد ترین صورتحال، سب کی وجہ ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ آخر قانون کی حکمرانی کا ان تمام معاملات سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟

مجھے یقین ہے کہ انسانی اور معاشی ترقی کا عمل قانون کی حکمرانی کے بغیرکبھی پائیدار انداز میں شروع ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے ہماری کیا مراد ہے؟ ایسے ملک جہاں بدترین آمریتیں یا بادشاہتیں تھیں وہاں بھی قانون پر بڑی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ تو کیا ہم اس مظہر کو قانون کی حکمرانی کا نام دے سکتے ہیں؟

قانون کی حکمرانی کا بنیادی عنصر یہ ہے کہ قانون سازی کس نے کی ہے اورکسی بھی ملک میں قوانین کا منبع کیا ہے؟ کسی فرد واحد، آمر مطلق یا بادشاہ کے بنائے ہوئے قانون اور اس قانون کی حکمرانی سے ملک ترقی نہیں کرتے ۔ اگر ظلم وجبرکے ذریعے وہ ملک ترقی کر بھی جائیں تو وہ ترقی دیر پا نہیں ہوتی۔ بہت جلد سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے اور ساری ترقی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی آمرانہ ریاستوں میں خوب ترقی ہوئی لیکن بالآخر خانہ جنگیوں نے سب کچھ تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔

عراق کے صرف ایک شہر بغداد میں درجنوں یونیورسٹیاں تھیں۔ شام ، لیبیا ، الجزائر اور مصرمیں کیا ترقی نہیں ہوئی تھی، ترقی تو خوب ہوئی تھی لیکن خانہ جنگیوں اور سیاسی بحرانوں سے تمام ترقی ملیا میٹ ہوگئی اور ان میں سے زیادہ تر ملک اب راکھ کا ڈھیربن چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ یہاں فرد واحد ، کسی ایک پارٹی یا فوجی جنرل کی حکمرانی تھی۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا تھا۔ بہ ظاہر ہر طرف امن نظر آتا تھا لیکن اندر ہی اندر بے چینی کا لاوا پکتا رہتا تھا اور جب وہ لاوا پھٹ کر باہر آیا تو سب کچھ بہا کر لے گیا۔

جن ملکوں نے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا وہاں کے رہنے والے شہریوں نے آپس میں مل کر ایک عمرانی معاہدہ کیا ۔ اس معاہدے کے ذریعے ریاست اور شہریوں کے درمیان رشتوں کو واضح کردیا گیا۔ اس عمل سے وہاں دیر پا امن قائم ہوگیا جسکی وجہ سے معاشی وسماجی ترقی کا آغاز ہو گیا اور رفتہ رفتہ یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملک بن گئے۔ اس عمرانی معاہدے کوآئین کا نام دیا جاتا ہے۔

عوام کے منتخب نمایندے آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے ہیں جو ایک پارلیمان تشکیل دیتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ ریاست میں موجود تمام معاشی، سماجی طبقوں، قومیتیوں، نسلی اور لسانی گروہوں کا ایک گلدستہ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ اپنی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر ایک جمہوری نظام تخلیق کرتی ہے۔ وہ مختلف اداروں کو جنم دیتی ہے۔ ان کی حدود اور قیود کا تعین کرتی ہے، شہریوں کو بلاتفریق، بنیادی، انسانی و جمہوری حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

ان تمام بنیادی اصولوں کو ایک دستاویز میں یکجا کردیا جاتا ہے اور اسے آئین کہا جاتا ہے۔ ریاست کے قوانین اسی آئین کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ حکومتوں کے آنے اور جانے کے طریقہ کار کے ساتھ یہ امر بھی واضح کردیا جاتا ہے کہ کسی بھی آئینی ادارے کا دائرہ اختیار کیا ہوگا۔ کسی بھی ادارے کو آئین سے تجاوز کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ۔ جو ادارہ تجاوز کرتا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ اقدام ایک جمہوری ملک میں نہایت ناپسندیدہ تصورکیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔

قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی کو یقینی بنانے سے ریاست میں کوئی بڑا سیاسی ، سماجی یا معاشی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ میں موجود نمایندے تمام مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور تلاش کرلیتے ہیں۔ حزب اختلاف کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ وہ بڑی آزادی سے حکومت پر تنقید کرتی ہے جس سے حکومت کو اپنی خامیاں دورکرنے کا موقع ملتا ہے۔ آزاد پریس عوامی مسائل کو سامنے لاتا ہے اور حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے اپنی حد میں رہتے ہیں دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔

اگر گزرے ہوئے 70 برسوں میں جنوبی ایشیا کے ملک ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہیں تو ہمیں جذبات میں آئے بغیر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے روز اول سے ہی جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ملک پر آمریت کا غلبہ رہا جس کی وجہ سے ہماری ریاست مسلسل بحرانوں کا شکار ہوتی رہی اور 48 سال پہلے اسی دسمبرکے مہینے کی 16 تاریخ کو مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا اور آج ہم دوبارہ ایک خطرناک دوراہے پر کھڑے ہیں۔

اس وقت ملک پر ایک بڑے بحران کے خطرات اس لیے منڈلا رہے ہیں کیونکہ ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ طاقت ور طبقات ریاست پر اپنی بالادستی ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کشمکش کے باعث ملک عدم استحکام سے دوچار ہے اور معاشی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ تاریخ کامطالعہ بتاتا ہے کہ معاشی بحران ، سماجی بحران پیدا کرتا ہے جو اگر قابو سے باہر ہوجائے تو نراج اور انتشار کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر آج قانون کی حکمرانی کا تلخ گھونٹ پی لیا جائے تو بہتر ہوگا تاکہ مستقبل میں کوئی بھاری قیمت ادا کرنے سے بچا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔