سٹیزن پورٹل: انصاف کی فراہمی یا ٹرک کی لال بتی

محمد ساجدالرحمٰن  منگل 24 دسمبر 2019
سٹیزن پورٹل کی سیکڑوں شکایات کو فرضی رپورٹس بناکر ختم کیا جاچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سٹیزن پورٹل کی سیکڑوں شکایات کو فرضی رپورٹس بناکر ختم کیا جاچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم عمران خان نے انتخابات 2018 سے قبل پاکستان میں رہنے والے عام شہری کو انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے انقلابی فیصلہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے زیر نگرانی ایسا نظام متعارف کروایا جس سے سائلین محکموں کے دھکے کھانے کے بجائے گھر بیٹھے ہی اپنے موبائل سے نہ صرف شکایات درج کروا سکتے ہیں، بلکہ اس پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ شکایت حل نہ کیے جانے پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرسکتے ہیں۔

اس انقلابی اقدام سے عام شہریوں کو بھی حکومتی معاملات کو دیکھنے کا موقع میسر ہوا۔ اس جدید سسٹم کو سٹیزن پورٹل نامی ایپلی کیشن کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام کو ناصرف پورے ملک میں سراہا گیا بلکہ دنیا میں بھی اسے مثبت سنگ میل قرار دیا گیا ہے۔

کوئی بھی شخص رجسٹریشن کرنے کے بعد، جس میں انتہائی آسان اور بنیادی معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں، شکایات درج کرواسکتا ہے۔ جب کوئی شہری ایپلی کیشن کے ذریعے کسی محکمے یا فرد کے حوالے سے شکایت درج کرتا ہے، یہ خودکار نظام کے تحت متعلقہ محکمے تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں فوکل پرسن اس پر کارروائی شروع کرتا ہے۔ فوکل پرسن اپنے محکمے کے حوالے سے کمپیوٹر پر تمام شکایات دیکھ سکتا ہے۔ بیس دن تک معاملہ حل نہ ہونے کی صورت میں شکایت ایک درجہ اوپر چلی جاتی ہے، جہاں اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور یہ شکایات سینئر فوکل پرسن تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر معاملہ اکتالیس دن تک بھی حل نہ ہو تو شکایت ایک درجہ اور اوپر پہنچ جاتی ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہوجاتا ہے۔ جس پر یہ شکایت براہ راست وزیراعظم آفس میں موجود فوکل پرسن مانیٹر کرتا ہے۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ وزیراعظم محکموں کو مانیٹر کررہے ہیں۔

اگر کوئی شکایت آئی جی یا کسی اہم عہدیدار کے پاس پہنچتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ افسر شکایت خود مانیٹر کررہا ہے، بلکہ اس کے آفس میں موجود سٹیزن پورٹل کےلیے مختص فوکل پرسن اس کو مانیٹر کرتا ہے۔ شکایت کو اپنے سینئر کے علم میں لانا فوکل پرسن کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ شکایات موصول ہونے کے بعد فوکل پرسن کی جانب سے اپنے ادارے یا سینئر عہدیداران کو بچانے کےلیے حیلے بہانوں اور فرضی رپورٹس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ چند اہم اور انتہائی مخصوص شکایات کے علاوہ فوکل پرسن شکایت کنندہ کو اپنی درخواست واپس لینے پر حد درجہ مجبور کرتے ہیں تاکہ وہ سینئر افسران تک نہ پہنچ سکے۔ اگر ایسا ہو تو متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر نہ صرف سوالات اٹھتے ہیں بلکہ شکایات کے ازالے کےلیے مزید دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق سرکاری افسران کے خلاف شکایات کی تحقیقات ان سے ایک درجہ سینئر افسران کو تفویض کی جاتی ہیں۔ جن افسران کے خلاف شکایات موصول ہوں، اس کے پاس وہ معاملہ انکوائری کےلیے نہیں بھیجا جاتا، لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس ایپلی کیشن کے استعمال کے دوران میرا ذاتی تجربہ کافی پریشان کن رہا، جبکہ چند قریبی احباب کے علاوہ کئی افراد سے سٹیزن پورٹل کے حوالے سے لی گئی رائے میں بھی چند ایسے حقائق سامنے آئے جو کہ حکومتی دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔

انتہائی قریبی دوست، جو کہ پنجاب کے دوردراز کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہے، نے پولیس کے خلاف ایک شکایت رجسٹر کروائی جو کہ ابتدائی طور آئی جی پنجاب کے پاس گئی۔ پھر خودکار نظام کے تحت آر پی او اور ڈی پی او کے پاس پہنچی۔ ڈی پی او کی جانب سے متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی گئی۔ اس تھانے کے غیر مجاز افسران نے شکایت کنندہ سے رابطہ کیا اور تھانے میں پیش ہوکر اپنا موقف دینے پر اصرار کیا۔ جس پر اس نے بتایا کہ وہ بسلسلہ کام کسی دوسرے شہر میں ہیں۔ غیر مجاز افسران کی جانب سے ایک فرضی رپورٹ ڈی پی او کو ارسال کردی گئی، جس کے بعد انہوں نے متعلقہ اہلکاروں کو ریلیف فراہم کرنے کے بعد شکایت کو ختم کردیا۔

یہ ایک واقعہ نہیں، بلکہ اس جیسی سیکڑوں شکایات ہیں، جنہیں فرضی رپورٹس بناکر ختم کیا جاچکا ہے۔ یہاں ایک پہلو انتہائی اہم ہے کہ جن کے خلاف شکایت درج کروائی جائے ان ہی افسران کو انکوائری سونپی جاتی ہے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ کسی افسر کا ماتحت عملہ یا وہ خود کس طرح اپنے خلاف ثبوت فراہم کرسکتا ہے۔ ایسے نظام میں انصاف کی توقع کرنا صریحاً بے وقوفی ہوگا۔

کسی بھی شکایت پر ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شکایت درج کروائی جائے اور اکتالیس دن یا اس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہ ہو تو اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ شکایت کنندہ کو روز و شب فوکل پرسنز کی جانب سے موصول ہونے والی کالز میں بار بار اصرار کیا جاتا ہے کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کردی جائے گی، لیکن اپنا فیڈ بیک دے دیں۔ اس پیش رفت سے بوجھل ہوکر شکایت کنندہ فیڈ بیک دینے میں ہی بھلائی محسوس کرتا ہے، تاکہ آئے روز موصول ہونے والی کالز سے چھٹکارا مل سکے۔ واضح رہے کہ فیڈ بیک دینے کے بعد شکایت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق شہری کی شکایات سے متعلق غلط بیانی یا کوتاہی کا ذمے دار ادارے کا مجاز افسر ہوگا، غیر مجاز افسران کی جانب سے شہریوں کی شکایات کے حل کی رپورٹ بدنیتی اور غفلت تصور ہوگی۔ اگر فرضی رپورٹس کی بات کی جائے تو صورتحال جوں کی توں موجود ہے۔ چند روز ایک سرکاری دفتر میں ایک عزیز کے ساتھ براجمان تھا۔ ان کے ساتھی کمپیوٹر پر کوئی تحریر لکھ رہے تھے اور ساتھ ہی ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے سینئر افسران کو کوس بھی رہے تھے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ سٹیزن پورٹل پر شکایت موصول ہوئی ہے اور انچارج نے انہیں جواب لکھنے کا ٹاسک سونپا ہے۔ یہی صورتحال مجموعی طور پر تمام اداروں کے خلاف درج ہونے والی شکایات کی ہے۔

شہریوں کی طرف سے درج شکایات کو وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق نہ نمٹائے جانے اور اداروں کی جانب سے تاخیری حربے اپنائے جانے کا اعتراف خود وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا ہے۔ وزیراعظم دفتر کی جانب سے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو لکھے گئے مراسلہ کے مطابق چند افسران کی کارکردگی کے جائزے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شکایات کو نہ ہی وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق نمٹایا گیا اور نہ ہی مناسب سطح پر ان کے ازالے کےلیے کوئی فیصلہ کیا گیا۔ شکایات کے ازالے کےلیے شہریوں کو دیے گئے ردعمل کے معیار سے یہ ثابت ہوا کہ پورے کا پورا نظام ماتحت عملے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور جنہوں نے زیادہ تر فیصلے بھی کیے۔ وزیراعظم دفتر کی طرف سے نشاندہی کی گئی کہ شہریوں کی حل شدہ شکایات کے حوالے سے ثبوت طلب کرنے پر معلوم ہوا کہ بہت ساری حل شدہ شکایات محض فرضی کارروائیوں پر محدود تھیں۔ شکایات کو غلط درخواستوں کا نام دے کر چھوڑ دیا گیا اور کئی درخواستوں کو غیر متعلقہ یا غیر مجاز سطح پر نمٹایا گیا۔ شہریوں کو کہا گیا کہ انہیں ریلیف یا جزوی ریلیف دے دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں صورتحال اس کے برعکس تھی اور شکایات کے ازالے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ سٹیزن پورٹل پر موصول ہونے والی شکایات پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے گی، لیکن ملکی تاریخ میں اداروں کے سامنے ایسی کمیٹیاں عموماً بے بس پائی گئی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سٹیزن پورٹل سے شہریوں کو مسائل حل کروانے میں آسانی ہوئی ہے اور وہ اپنی شکایات متعلقہ محکموں کے افسران تک پہچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی اس منصوبے میں کافی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک غیر جانبدار اور شفاف اتھارٹی کا قیام عمل لایا جانا چاہیے، جو نہ صرف تمام شکایات کا ریکارڈ مرتب کرے بلکہ اس پر ہونے والی پیش رفت اور کارروائیوں کا جائزہ لے۔ اگر حکومت موجودہ نظام کے تحت سٹیزن پورٹل سے انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کرے تو وہ یقیناً عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔