مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس؛ اوگرا آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری

ویب ڈیسک / رضوان غلزئی  پير 23 دسمبر 2019
مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی شریک ہوئے.فوٹو: این این آئی

مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی شریک ہوئے.فوٹو: این این آئی

 اسلام آباد:  وزیراعظم کی زیر صدارت پیرکو مشترکہ مفادات کونسل کے41ویں اجلاس میں پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن پالیسی، اوگرا آرڈیننس 2002ء میں ترمیم، آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل بینچ مارک اینڈ پرفارمنس کرائی ٹیریا کی منظوری دی گئی جس کے مطابق آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

اجلاس میں حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاور پلانٹ کی نجکاری کی منظوری بھی دی گئی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے اجرا کا ایجنڈا موخر کر دیا، سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے مردم شماری پر تحفظات تھے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ای او بی آئی کا انتظام وفاق کے سپرد ہوگا۔ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی تقسیم سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

پانی سے متعلق بھی ماہرین پر مشتمل کمیٹی ایک ماہ میں سفارشات پیش کرے گی۔اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، وفاقی وزراء اور سینیئر افسران شریک ہوئے۔ اجلاس میں 16 نکاتی ایجنڈا پر غور کیا گیا۔آبادی میں اضافہ کنٹرول کرنے کے لیے صدر مملکت کی صدارت میں ٹاسک فورس حکمت عملی بنائے گی، ہائیرایجوکیشن کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے یکساں نصاب تعلیم یقینی بنائیں گے،ایل پی جی پر رائلٹی کا تعین گیس سیل پرائس کی بنیاد پر ہوگا۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاق کی چاروں اکائیاں عوام کے تحفظ کی ضمانت ہیں، تمام صوبائی حکومتیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کریں، عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔فردوس عاشق اعوان نے کہا ہائیڈل پرافٹ کے گیارہ ارب روپے کی رقم نیپرا کے ذریعے ایڈجسٹ کی جائے گی۔اجلاس میں ملک میں پانی کے وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی سفارشات پیش کی گئیں۔ قانونی ماہرین اور پانی سے متعلقہ تکنیکی ماہرین ملکر اس ضمن میں سفارشات پیش کریں۔

کمیٹی ایک ماہ میں سفارشات مرتب کرکے مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش کرے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانی کی مقدار جاننے کے لئے ٹیلی میٹری نظام کی جلد از جلد تنصیب یقینی بنائی جائے گی۔

پیٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کی نئی پالیسی میں صوبوں کو بھی شراکت دار بنایا گیا ہے، ایل این جی سے متعلق سندھ کے تحفظات پر غور کیا گیا ، معاون خصوصی ندیم بابر اور وزیراعلی سندھ ملکر اتفاق رائے پیدا کریں گے، اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اشیائے ضروریہ کے معیار کے تعین کا اختیار وفاق کے پاس ہوگا، معیار کو یقینی بنانے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوگا۔آبادی میں اضافہ کنٹرول کرنے کے لیے صدر مملکت کی صدارت میں ٹاسک فورس حکمت عملی بنائے گی۔

ہائیرایجوکیشن کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے یکساں نصاب تعلیم یقینی بنائیں، وزیراعظم نے ہدایت کی کہ یونیورسٹیاں بہتر معیار کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر حکمت عملی بنائیں۔گاڑیوں کے ودہولڈنگ ٹیکس سے متعلق بلوچستان کے تحفظات حل کیے جائیں گے۔ایل پی جی کی رائلٹی کے زیرالتو مسئلے پر طویل بحث ہوئی۔فیصلہ کیا گیا کہ ایل پی جی پر رائلٹی کا تعین گیس سیل پرائس کی بنیاد پر ہوگا۔ وزیر توانائی نے متبادل توانائی پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دی۔انہوں نے کہا پولیو سے پاک پاکستان حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

گمراہ کن پروپیگنڈے نے قوم کے مستقبل کو اپاہج کیا، صوبوں نے پولیو سے پاک پاکستان بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔صوبوں میں ویکسین کے معیار کے حوالے سے جزا و سزا کا نظام لانے کا فیصلہ ہوا ہے۔فردوس عاشق اعوان نے کہا بلاول صاحب پہلے اپنا بیانیہ درست کرلیں،بلاول کہتے ہیں وہ عمران خان کو وزیراعظم نہیں مانتے، دوسری طرف انکے وزیراعلی وزیراعظم کی سربراہی میں پاکستان کو آگے لے جانے کا عزم کرتے ہیں، وزیراعظم اگلے چار سال رہیں گے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا احسن اقبال کی گرفتاری سے حکومت کا کیا لینا دینا، خود کو ارسطو کہنے والے کرپشن کی داستانیں رقم کرتے نیب تک پہنچ جائیں، نیب نے کب ،کس کو ،کس کارستانی پر بلایا حکومت کا اس سے تعلق نہیں،ادارے آزاد،بااختیار اور قانون کے تابع کام کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی دیوانے کی بڑھکیں ہیں، قانون کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، قانون کو آزاد کرانا ہی نئے پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ہے،۔قانون کی کامیابی ہے کہ ارسطو خان جیسے لوگ بھی اسکے تابع ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔