مسلم لیگ (ن) کی خاموش سیاست کے محرکات

مزمل سہروردی  منگل 24 دسمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آجکل میرے انقلابی دوست مسلم لیگ (ن) کی خاموش رہنے کی حکمت عملی پر بہت تنقید کر رہے ہیں۔کوئی ٹوئٹ کر رہا ہے کہ اگر کسی کو مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور مریم نواز مل جائیں تو انھیں بتایا جائے کہ مشرف کے مقدمے کا فیصلہ آگیا ہے۔ کسی کو نواز شریف کی جانب سے یہ بیان بہت کمزور لگ رہا ہے کہ انھوں نے مشرف کا فیصلہ اﷲ پر چھوڑ دیا ہے۔ غرض کہ مسلم لیگ (ن) کی خاموشی کو اس کی کمزوری اور بزدلی قرار دیا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) خاموش نہ رہتی تو کیا کرتی؟ کیا شہباز شریف کی سیاست میں مشرف فیصلے کی حمایت کی آپشن موجود تھی۔ کیا ہم سب کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف تو پہلے دن سے ایسے کسی مقدمے کے حق میں ہی نہیں تھے۔ وہ پہلے دن سے بتا رہے تھے کہ ایسا مقدمہ بنانے کے بھیانک نتائج ہوںگے۔

کیا مسلم لیگ (ن) نے سیاسی خود کشی نہیں کی ہے۔ لیکن دوستوں کی رائے میں مسلم لیگ (ن) کو اب بھی ہوش کے ناخن لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں کیا پیپلزپارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی میں ایسا کوئی کام کیا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا تو انھوں نے بھٹو کے قاتلوں سے شراکت اقتدار کر لیا۔

بھٹو کی پھانسی سمیت مارشل لا دور کے تمام فیصلوں کو قبول کیا۔کسی ایک بھی فیصلے کو چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میرے دوست ذوالفقار چوہان ایک واقعہ سناتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم رفیق چوہان لاہور سے بھٹو مرحوم کے دیرینہ ساتھی تھے۔ ضیا ء الحق کے مارشل لا کے بعد ان کے پاس بھی جلا وطنی کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

ان کے والد کی وفات بھی جلا وطنی میں ہی ہو گئی۔ جب ملک سے مارشل لا کے بادل چھٹ گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بن گئیں تو ذوالفقار چوہان بھی کئی سال بعد ملک واپس آگئے۔ وہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ملے ۔ ناہید خان ملاقات میں موجود تھیں۔ ذوالفقار چوہان نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے معصوم خواہش کی کہ مارشل لا عدالت نے ان کے والد کی تمام جائیداد ضبط کر لی تھی۔

وہ کچھ نہیں صرف اپنا گھر واپس چاہتے ہیں۔ صرف انھیں ان کا گھر واپس کر دیا جائے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ وہ مجبور ہیں۔ انھوں نے ملک کی اسٹبلشمنٹ سے معاہدہ کیا ہے کہ مارشل لا دور کے کسی فیصلے کو نہیں چھیڑا جائے گا۔

اس لیے انھیں ان کا گھر واپس نہیں مل سکتا۔ ذوالفقار چوہان بتاتے ہیں کہ انھوں نے بے نظیر سے کہا کہ ایسا اقتدار لینے کاکیا فائدہ۔ تو بے نظیر نے کہا کہ آخر کب تک مار کھاتے رہتے۔ ملک میں واپس آگئے ہو، کیا یہ کافی نہیں۔ پھر بے نظیر نے ناہید خان سے کہا کہ ان کا نقصان پورا کرنے کا کوئی راستہ تلا ش کیا جائے۔

ذوالفقار چوہان نے کوئی متبادل فائدہ لینے سے انکار کر دیا اور گھر آگئے۔ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ کم از کم بے نظیر بھٹو کو معلوم تھا کہ اگر وہ کسی ریٹائرڈ جنرل کے خلاف ایسا کوئی مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کریں گی تو اس کی قیمت کیا ہوگی۔ اس لیے نہ انھوں نے اپنے و الد کی پھانسی کے مقدمہ کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے مزید لڑنے کی کوشش کی۔تب بھی 1973کا یہی آئین موجود تھا۔ آرٹیکل 6بھی اسی طرح موجود تھا۔ لیکن بے نظیر بھٹو نے اس کو استعمال نہیں کیا۔

بے نظیر کو معلوم تھا کہ یہ دوبارہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا اور وہ آگ سے کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ بہر حال نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی تقلید نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو کے بر عکس آرٹیکل 6کا مقدمہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اگر آج صورتحال کا احاطہ کیا جائے تو یہی لگے گا کہ بے نظیر بھٹو کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔میں پہلے بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ شہباز شریف کی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ پہلے دن سے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کے داعی تھے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔

وہ جب گرفتار ہوئے تو میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ ان کی مفاہمت ناکام ہو گئی ہے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا مفاہمت صرف اس لیے ہے کہ اس سے فائدہ ہو جائے۔ نقصان میں بھی مفاہمت کو قائم رکھنا ہی مفاہمت کا اصل امتحان ہے۔ اس لیے شہباز شریف نے اگر کہا ہے کہ انھوں نے مشرف کا فیصلہ ابھی تک نہیں پڑھاہے۔ تو ٹھیک ہی کہا ہے ۔وہ اقتدار میں بھی ایسی چیزیں پڑھنے کے قائل نہیں تھے۔ اب بھی کیوں پڑھیں۔ سوال تو ان سے کیا جائے جو اس کے داعی ہیں۔ سوال مریم نواز سے بنتا ہے کہ وہ آجکل ٹوئٹر پر کھانے پکانے کی ترکیبیں کیوں لائک کرر ہی ہیں۔

انھیں باقی سب کیوں نظر نہیں آرہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کی خاموشی ایک مکمل کہانی بیان کر رہی ہے۔ آپ اس کہانی کو نہ تو سننے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی قومی سطح پر بتایا گیا تھا کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہے۔ نواز شریف بھی کافی قربانی دے چکے ہیں۔ دوست انھیں مرسی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

لیکن شاید وہ خود بھی نہ تو مرسی بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان میں بھٹو بننے کی کوئی خواہش ہے۔ دوست مریم نواز سے بہت امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ مریم نواز کی حالیہ خاموشی انھیں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ ایک طرف مریم نواز ٹوئٹر پر کھانوں کی تراکیب کولائک کر رہی ہیں دوسری طرف ان کی بیرون ملک اپنے والد کے پاس جانے کے لیے درخواستیں بھی مختلف فورمز پر سیر کر رہی ہیں۔ بیچاری حکومت ویسے ہی اعلان کر رہی ہے جیسے نواز شریف کی دفعہ اعلانات کیے جا رہے تھے ۔ لیکن وہ چلے گئے۔

اب بھی امید کی جا رہی ہے حکومتی اعلانات اپنی جگہ لیکن مریم نواز چلی جائیں گی۔ ان کی خاموشی ہی الگ کہانی بیان کر رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کی خاموشی کی سیاست دراصل شہباز شریف کی پارٹی میں جیت بیان کر رہی ہے۔ اب لگتا ہے کہ پوری پارٹی شہباز شریف کے ساتھ متفق نظر آرہی ہے۔ لگ تو یہ رہا ہے کہ اب تو مریم نواز بھی شہباز شریف کے ساتھ متفق ہو چکی ہیں۔ ان کی خاموشی بھی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کب تک خاموش رہے گی۔ آرمی چیف کی توسیع سمیت تمام بڑے معاملات کا اونٹ جب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھ جاتا انھیں خاموش رہنا چاہیے۔ جب تک حا لات سازگار نہیں ہو جاتے۔ جب تک اسٹبلشمنٹ سے ٹوٹی ہوئی بات جڑ نہیں جاتی خاموش رہنا چاہیے۔ کیونکہ خاموشی ہی بہترین سیاست ہے۔ جن کو خاموشی پر اعتراض ہے، وہ خاموشی کی زبان کو جانتے ہی نہیں۔ انھیں دراصل خاموشی کی زبان اور اس کی سیاست کو سمجھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔