نواز شریف کی بیماری پر بے بنیاد باتوں کے سبب ’پریس کانفرنس‘ کے سوا کہیں بات نہیں کی!

رضوان طاہر مبین  منگل 24 دسمبر 2019
ممتاز ماہر ’امراضِ خون‘ اور پاکستان میں ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ کے بانی ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے خصوصی بیٹھک

ممتاز ماہر ’امراضِ خون‘ اور پاکستان میں ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ کے بانی ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے خصوصی بیٹھک

پاکستان میں ہڈیوں کے گودے کی پیوند کاری (بون میرو ٹرانسپلانٹیشن) کے بانی ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے ہماری گفتگو کا اغاز سابق وزیراعظم نواز شریف کے ذکر سے ہوا، انہیں گزشتہ دنوں نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کے لیے لاہور بلوایا گیا تھا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے بھی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔۔۔ انہیں شکایت ہے کہ ’’ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کے حامل صوبے پنجاب میں کیا کوئی ایک ڈاکٹر بھی ایسا نہیں، جو اتنی قابلیت رکھتا ہو کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کر سکتا، یہ تو ہماری صحت عامہ کی سہولتوں پر سوال اٹھ رہا ہے کہ وہاں اتنے بڑے ڈاکٹر اور ادارے موجود ہیں، لیکن پھر بھی انہیں کراچی سے ایک معالج  بلانا پڑا۔۔۔!‘‘

’’یہ توآپ کی قابلیت ہے!‘‘ ہم نے ان کی ستائش کی تو وہ اپنی استعداد پر ناز کرنے کے بہ جائے وہی استدلال آگے بڑھاتے ہوئے بولے کہ ’ایسی قابلیت دوسروں میں کیوں نہیں؟ ہم اب تک ایسے افراد کی تیاری کیوں نہیں کر پائے؟ ہمارے حکام اس سوال پر ’نو کمنٹس‘ کہتے ہیں۔‘‘

ہم نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے  پیدا ہونے والے کچھ شکوک کا ذکر چھیڑا تو انہوں نے کہا کہ ’وہ سفر کے قابل بن گئے، تب ہی باہر گئے، ورنہ اس سے پہلے تو میڈیکل بورڈ نے ہی انہیں روکا تھا۔ سفر کی اجازت کا  مطلب ہی یہ ہے کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ مریض کی ایک کیفیت ’انتہائی نگہداشت‘ والی ہوتی ہے، ان کی وہ حالت تو نہیں تھی، سوائے درمیان کے کچھ وقت کے، اب بھی انہیں جہاز پر لفٹ سے چڑھایا گیا، بس وہاں سے دو چار قدم چل کر وہ نشست پر بیٹھ گئے۔ وہ اس قابل کر دیے گئے ہیں، دوسری طرف ان کے دل کی بیماری کافی پیچیدہ ہے، ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بتا چکے ہیں کہ ان کے دل کی 90 فی صد  شریانیں بند ہیں، انہوں نے دو بائی پاس کرائے ہوئے ہیں، پانچ اسٹنٹ ڈلے ہوئے ہیں، یہ میں اپنی آنکھوں دیکھی بات بتا رہا ہوں، یہ  ایک تسلیم شدہ بیماری ہے، میڈیکل بورڈز کے بے شمار ماہرین نے دیکھا، وزیراعظم کی ہدایت پر شوکت خانم اسپتال کے  ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ نواز شریف واقعی بیمار ہیں!

ذرایع اِبلاغ کے کردار کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر کہتے ہیںکہ ’’سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی بہت سے ویڈیو اور تصاویر دو سال پرانی ہیں اور عام آدمی کے پاس تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں، لیکن یہاں تو ’خبری چینلوں‘ میں بیٹھے ہوئے بہت سے قابل احترام شخصیات کی جانب سے بھی بے بنیاد باتیں کی گئیں، جنہیں ان بیماریوں اور علاج سے متعلق ذرا بھی کچھ نہیں پتا، وہ سب  اپنی اپنی ہانکتے رہے اور نہایت بے سر وپا گفتگو کرتے رہے۔ اسی لیے میں نے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے صرف ایک ’پریس کانفرنس‘ کے سوا کہیں بھی ذرایع اِبلاغ سے کوئی بات نہیں کی، روزانہ چینلوں سے فون آئے، لیکن میں نے منع کر دیا۔‘‘ یعنی ہمارایہ انٹرویو ڈاکٹر طاہر شمسی کی اس حوالے سے پہلی باضابطہ گفتگو ہے۔

نواز شریف کا معائنہ کرتے ہوئے کسی دباؤ کی تردید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں وہاں انفرادی طور پر نہیں، بلکہ بطور ’سبجیکٹ اپشلسٹ‘ گیا تھا، مجھے میڈکل بورڈ پنجاب کی طرف سے پرائیوٹ کنسلٹنٹ کے طور پر بلایا گیا۔ میں نے صرف بیماری سے متعلق بات کی، جس کام کے لیے گیا تھا۔ پلیٹ لیٹس کا علاج یہاں ہو سکتا تھا، اور وہ لندن پلیٹ لیٹس کے نہیں، بلکہ دل کی بیماری کے علاج کے لیے گئے ہیں۔ مریض میں ’پلیٹ لیٹس‘ کی کمی کے دوران دل کا دورہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے معالج ڈاکٹر عدنان گردوں اور دل کے جن عارضوں کا ذکر کرتے ہیں، میں  ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ میری وہاں موجودگی کے دوران انہیں بہت نازک کیفیت میں دل کا دورہ پڑا تھا۔

زیر علاج آنے والی مشہور شخصیات کے ذکر پر ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ میرا ہر مریض اہم ہوتا ہے، وہ ایک عام آدمی ہو یا کسی بڑے عہدے پر فائز، یہ اس کے علاج کے طریقے پر کہیں اثر انداز نہیںہوتا، ’این آئی بی ڈی‘ میں ہر مریض کا بھرپور توجہ سے علاج کیا جاتا ہے۔

اہم شخصیات کا نام لینے سے گریزاں ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ عدلیہ سے لے کر فوج تک کے اعلیٰ ترین افراد زیرِعلاج رہے، نام نہ لینا راز داری کا تقاضا ہے، تاہم نواز شریف سے قبل وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے والی کوئی شخصیت زیر علاج نہیں آئی۔

زمانہ طالب علم کے دوران ’جمعیت‘ سے وابستگی کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ ہمارا خاندانی پس منظر مذہبی تھا، ڈاؤ میڈیکل کالج میں جن افراد سے وابستہ پڑا ان کا تعلق ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ سے تھا، کالج کی حد تک ان کی سرگرمیوں کا حصہ رہا، یہ تعلق حمایت تک تھا، کبھی ان کا کارکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اب ابھی اپنی سوچ کو کسی کے تابع کرنے کا قائل نہیں، مجھے اگر آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے، تو میں آپ کی بات پر عمل نہیں کروں گا، بلکہ اس کا اظہار کروں گا۔ میں اپنی سوچ پر پہرہ نہیں بٹھا سکتا! کسی بھی  تنظیم سے وابستگی وہاں کے  نظم وضبط کی پابند کر دیتی ہے، جسے میں نے تسلیم نہیں کیا۔

جب ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، تو وہاں ’این ایس ایف‘ کی ’طلبہ یونین‘ تھی، چند ماہ بعد چناؤ ہوا تو ’جمعیت‘ کا پینل آگیا، تو میری ذمہ داریوں میں یہ طلبہ تک سستی کتب پہنچانا وغیرہ تھا۔ اس کے علاوہ میں وہاں پہلے سال سے ہی کالج کی ہاکی ٹیم کا حصہ بنا، کپتان بھی رہا، انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی ٹورنامنٹ مین حصہ لیا، سیمی فائنل تک بھی پہنچے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ زمانہ طالب علم کے دوران طلبہ یونین پر پابندی، بشریٰ زیدی حادثہ، سانحہ قصبہ علی گڑھ کالونی، سہراب گوٹھ کے واقعات کے سبب 1984ء تا 1990ء تعطل شمار کریں، تو ملا کے ڈھائی سال تعلیمی ادارے بند رہے، کراچی میں 1960ء کی دہائی کے سوا ایسی صورت حال کی اور کوئی نظیر نہیں! یوں 1988ء میں ڈھائی برس تاخیر سے ساڑھے سات برس میں میڈیکل کالج سے نکل سکا۔ اس وقت کو مختلف مطالعوں اور دیگر صلاحیتوں کے حصول میں صرف کر کے کارآمد کیا، اسپتالوں میں رضا کارانہ طور پر کام کیا جو اس زمانے میں سیکھا آج تک کام آتا ہے۔

ملک میں ’ڈینگی‘ بخار کی پہلی وبا پر قابو پانے کے لیے ان کی معاونت کا ذکر کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’2005ء میں کراچی میں سب سے پہلے وبائی صورت میں ’ڈینگی‘ آیا،  لیکن یہ معاملہ 8 اکتوبر کے زلزلے کی تباہ کاریوں کے سبب خبروں میں نمایاں نہ ہو سکا۔ 2006ء میں پہلی بار اس بیماری کے بارے میں سنا گیا، اس وقت یہاں کسی کو بھی ’ڈینگی‘ سے متعلق کچھ معلوم نہ تھا، اس وقت ابتدائی معلومات اور تربیت میں حکومت کے ساتھ مل کر ’ڈینگی‘ کو قابو کرنے کی کوششوں میں آگے آگے رہا۔ 2012ء سے 2013ء تک کسی بھی سرکاری اور نجی ادارے میں یہ سہولت نہ تھی اور سرکاری طور پر ڈینگی کے مریض ہمارے پاس بھیج دیے جاتے تھے۔2018 ء اور رواں برس وبائی صورت اب تک کی بدترین شمار ہوتی ہے، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق متاثرین 70 ہزار تک ہیں، لیکن میرے اندازے کے مطابق اس سے ساڑھے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

’’ڈینگی یہاں آیا کیسے؟‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہر شمسی بتاتے ہیں کہ متعدد رپورٹس میں یہ بات پتا چلی کہ تھائی لینڈ اور ملائیشیا سے درآمد کیے جانے والے ربڑ کے پرانے پہیوں میں ڈینگی مچھروں کے انڈے یہاں آئے، جس سے یہ وبا یہاں پہنچی۔

ڈینگی مخصوص کالی سفید دھاریوں والی مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، پھر متاثرہ مریض کو کاٹنے والا مچھر کسی اور کو کاٹتا ہے، تو اسے بھی ڈینگی ہو سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی عام مچھر بھی متاثرہ مریض کو کاٹ کر ڈینگی پھیلانے کا باعث بنے، ڈینگی کالی سفید دھاریوں والے مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہی ہوگا۔

ڈینگی کے خاتمے کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ سوائے سنگاپور کے اور کوئی ملک ’ڈینگی‘ ختم نہیں کر سکا، وہ ایک چھوٹا اور انتہائی منظم ملک ہے، اس لیے وہاں ممکن ہو سکا، ورنہ یہ امریکا تک میں موجود ہے۔ البتہ اسے قابو میں لایا جا سکتا ہے اور دو برس پہلے ہمارے ہاں صورت حال قابو میں رہی۔

خون کی بیماریوں سے بچنے کے لیے صلاح دیتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ خاندانوں اور قریبی رشتے داروں میں شادیاں نہیں کرنا چاہئیں۔ ہماری 60 سے  70فی صد خواتین کسی بھی درجے کی خون کی کمی کا شکار ہیں، کثیر زچگی اور خوراک کی کمی اس کا بڑا سبب ہے۔

موروثی بیماریوں کو ختم کرنے میں اہم پیش رفت کر لی!

ڈاکٹر طاہر شمسی بتاتے ہیں کہ اب ہمارے ’پی ایچ ڈی‘ پروگرام  سے طلبہ فارغ ہونے لگے ہیں، ہمارے تحقیقی مقالوں کی تعداد 300 سے متجاوز ہے، صرف اس سال 40 سے زیادہ مقالے اس ادارے اور یہاں کے محققین کی جانب سے شایع ہوئے۔ رفاہی کاموں کے سلسلے میں نجی ادارہ ہونے کے باوجود حکومت بلوچستان، حکومت پنجاب اور حکومت سندھ بون میرو کے مریضوں کے علاج کے لیے فنڈنگ کر رہی ہیں۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ حکومت کسی نجی ادارے کے کام کو اس طرح تسلیم کرے ۔ ’این آئی بی ڈی‘ کے کراچی کیمپس کے علاوہ پانچ مزید بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر اسلام آباد اور لاہور میں دو، دو اور ایک  بہاول پور میں بنانے اور چلانے میں ہمارا کردار ہے، ہماری خواہش ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی کے ہر شہر میں ایک مرکز ضرور ہو۔ ملک میں اس وقت سالانہ 200 بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنے والے 50 اداروں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں ہر سال 10 ہزار نئے مریض ایسے تشخیص ہوتے ہیں، جنہیں بون میرو کرانا ضروری ہوتا ہے۔ اس وقت بہ مشکل 250 سالانہ تک بون میرو ٹرانسپلانٹ کر پار ہے ہیں، یعنی 97 فی صد ضرورت مند اس سے محروم رہ رہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اعانت ضروری ہے کیوں کہ یہ بہت منہگا علاج ہے اور عام آدمی کی دسترس باہر ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی نے انکشاف کیا کہ وہ یہ معلوم کرنے میں کام یاب ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں پائی جانے والی موروثی بیماریوں میں کون سا جینیاتی نقص زیادہ ہے۔ تھیلیسمیا کے علاوہ 200 بیماریاں ایسی ہیں، جن کا ہم نے ایک خاکہ بنا لیا ہے، جو آگے چل کر جینز کی تدوین میں بنیاد فراہم کرے گا، جس سے بہت سی موروثی بیماریاں نہ صرف اس فرد میں بلکہ اس کی آنے والی نسلوں میں بھی ختم ہو سکیں گی۔

’پنوراما سینٹر‘ کی ناکامی نے اعلیٰ تعلیم کا راستہ کھولا!

ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی 18 فروری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، اُن کے آبا و اجداد پنجاب سے دلّی آئے، قیام پاکستان کے بعد کراچی مسکن ہوا، تین بہنیں اور تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ 10 ماہ میں قرآن مجید ناظرہ اور دو سال اور دو ماہ میں حفظ کر لیا، اس وقت عمر آٹھ برس تھی۔ پھر 1974ء تا 2012ء تراویح پڑھانے کا سلسلہ رہا، لیکن اس کے بعد مصروفیات آڑے آئی، پرائمری اسکول نہیں پڑھے، یہ تدریس غیر رسمی رہی۔1971ء میں براہ راست چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا، خاندان میں کاروبار کا رواج تھا، اس لیے میٹرک کے بعد وہ کراچی کے پہلے شاپنگ مال ’پنوراما سینٹر‘ میں اپنے دادا کی گھڑیوں کی دکان پر جانے لگے، شاپنگ مال ناکامی ایک سال بعد ان کے ڈی جے کالج میں داخلہ لینے کا راستہ بن گئی، پھر کالج سے دکان چلے جاتے، انٹر کے نتائج آنے سے پہلے ایک فارماسیوٹکل کمپنی سے منسلک ہوگئے، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی، پھر ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، یہاں پانچ سال کی تعلیم ساڑھے سات برس میں نبٹ سکی۔ اس ڈھائی برس کے خسارے کو ہر ممکن طریقے سے تربیت اور تجربے حاصل کر کے کارآمد کیا اور اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کیے، 1986ء میں اپنی تشخیصی لیبارٹری بنائی۔ 1988ء میں امتحانات کے بعد تخصیصی مہارت کے لیے پہلے امراضیات (Pathology) اور پھر امراض خون کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سول اسپتال میں میڈیسن اینڈ سرجری میں ہاؤس جاب کے دوران برطانیہ کے ’رائل کالج آف پتھالوجسٹس‘ کا بلاوا گیا۔ وہاں اسسمنٹ کے امتحان کے لیے مطلوبہ تجربہ ہفتے کے 40 گھنٹے کے حساب سے پانچ برس میں مکمل ہوتا ہے، لیکن انہوں نے ہفتے کے 80 گھنٹے کام کیا اور دو سال بعد ہی امتحان کام یاب کرلیا، پھر وہاں ملازمت کی پیش کش چھوڑ کے دسمبر 1994ء میں کراچی لوٹے، سات اداروں کو درخواستیں ارسال کیں، صرف تین جگہ سے جواب ملا۔ لاہور کے زیر تکمیل شوکت خانم کینسر اسپتال نے کہا کہ ہم امریکی تربیت یافتہ لوگوں کو رکھ رہے ہیں، آغا خان اسپتال نے ایک سال بعد معذرت کی کہ ہم تقرر کر چکے ہیں۔ بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں بلالیا گیا، جہاں انٹرویو میں اُن کا ملک میں ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ کرنے کا خواب سن کر کہا گیا کہ 1981ء سے ملٹری جیسا ادارہ بھی ابھی اس پر کام ہی کر رہا ہے، تو تمہاری کیا اوقات ہے، اگر تمہاری اگلی نسل بھی یہ کام کر لے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ تاہم جنوری 1995ء میں انہیں ضیا الدین اسپتال نے بلا لیا، جہاں انہوں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے مطلوبہ نظام بنایا اور عملے کو تربیت دی اور 13 ستمبر 1995ء کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا۔ چار برس بعد جُزوقتی طور پر ’ایس آئی یوٹی‘ (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) سے منسلک ہوئے۔ صبح آٹھ تا دوپہر ایک بجے وہاں ہوتے اور باقی وقت اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر مرکوز رہتے۔ چار سال بعد 2000ء میں ’بسم اللہ تقی فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ ایک ’بون میرو انسٹی ٹیوٹ‘ کی داغ بیل ڈالی، پھر یکم جولائی 2008ء کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن (این آئی بی ڈی) کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی دسمبر 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات خاتون خانہ ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ گھر میں اردو نثر کی مختلف کتب سے دو، تین الماریاں بھری ہوئی ہیں، جب کہ اپنے شعبے سے متعلق کتب وہ دفتر میں ہی رکھتے ہیں۔

رواں برس امریکن سوسائٹی آف ہیماٹولوجی (ASH) کی بین الاقوامی کانفرنس میں ’این آئی بی ڈی‘ کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالے کو 10 بہترین تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا علاج خون کی تبدیلی یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر شمسی کے زیر نگرانی دس سالہ تحقیق کے بعد 2012ء میں بہ ذریعہ دوا تھیلیسیمیا کا علاج بھی دریافت کیا گیا، جس میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے، یعنی اس دوا سے ملک کے کم سے کم سالانہ چھے ارب روپے اور پانچ لاکھ خون کی بوتلیں بچ سکتی ہیں!

’بورنگ‘ کا پانی ٹیسٹ کرا کے استعمال کیا جائے۔۔۔!

ڈاکٹر طاہر شمسی کا ماننا ہے کہ ملک کی آدھی بیماریوں کا سبب ہمارے فراہمی اور نکاسی آب کا نظام خراب ہونا ہے، ان بیماریوں میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفایڈ، ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی وغیرہ شامل ہیں۔ صنعتی فضلے سے آلودہ پانی جگر اور خون کی بیماریوں کا باعث ہے، اس پانی سے سیراب کی گئی فصلیں بھی نہایت مضر کیمیائی اجزا کی حامل ہوتی ہیں۔ فراہمی آب کی لائنوں کا پانی کراچی میں کہیں بھی ٹھیک نہیں، ’عالمی ادارہ صحت‘ اور دیگر اداروں کے مطابق مضر اجزا کی مقدار مقررہ حد سے 10گنا تک زیادہ ہے۔ یہ پانی ابالنے کے باوجود 10 فی صد جراثیم باقی رہ جاتے ہیں، بوتلوں میں دست یاب زیادہ تر پانی میں بھی کچھ نہ کچھ آلودگی ہے، یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ ایک کمپنی کی بوتل ہمیشہ ہی معیاری ہو۔

’ایک عام آدمی منرل واٹر کو کیسے جانچے؟‘ ہم نے اپنی تشویش کہی تو وہ بولے کہ ’یہ ایک الگ معاملہ ہے، پانی کی بوتل شفاف اور جراثیم سے پاک ہونا چاہیے، یہ خورد بین سے بھی بہت مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔‘

گندے پانی کی لائنوں سے رساؤ کے سبب ’بورنگ‘ کا پانی آلودہ ہے، اس لیے ’بورنگ‘ کرانے کے بعد کسی بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے پانی کا ’کلچر‘ ضرور کرائیں، یہ ہزار، بارہ سو کا ٹیسٹ ہے۔ اگر پانی صاف نہ ہو تو مزید گہرائی سے پانی نکالیں۔

بیماریوں سے تحفظ کے لیے ڈاکٹر طاہر شمسی صلاح دیتے ہیں کہ شہری پانی بہت اچھی طرح ابال کے استعمال کریں، کھانا پکانے اور برتن وغیرہ دھونے کے لیے بھی یہی ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔ متوازن غذا استعمال کریں، وزن نہ بڑھنے دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔