ابھی وقت گزرا نہیں

ایاز خان  پير 4 نومبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

امریکی ڈرون حرکت میں آیا‘ اس نے تین میزائل داغے اور مذاکرات کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکیم اللہ محسود کی تدفین کے ساتھ ہی مذاکراتی عمل دفن کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ تحریک طالبان کی طرف سے پہلا ردعمل یہی ہو سکتا تھا۔ وہ مذاکرات کے سرے سے حامی نہیں رہے یا اپنے موقف میں تبدیلی لا سکتے ہیں اس کا علم تب ہو سکے گا جب نیا امیر چن لیا جائے گا۔ فی الوقت تو ہمیں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہو گی۔ پاکستانیوں کی عموماً اور خیبرپختونخوا کے عوام کی خصوصاً قسمت میں یہی لکھا ہے کہ ڈرون حملہ امریکا کرے اور موت ان کے خانے میں لکھی جائے۔ اس وقت مرکز اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار سیاسی جماعتیں اس نعرے پر الیکشن جیت کر آئی تھیں کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔ مذاکرات کے حوالے سے ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں تو پھر دونوں کا سیاسی نقصان ہو گا۔ کپتان زیادہ مشکل میں ہے اس لیے ادھر سے فوری اعلان ہوا ہے کہ نیٹو سپلائی بند کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ امریکا سے تعلقات اور تعاون پر نظرثانی کا اعلان کر چکے ہیں۔ پرویز رشید کہتے ہیں مذاکرات کو ہلاک نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری طرف امریکا نے تحریک طالبان سے مذاکرات کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں میرا ایک دوست ہے جس کی شناخت ظاہر نہیں کروں گا۔ میں اسے دوست لکھوں گا۔ یہ وہ دوست ہے جو قبائلی علاقوں اور افغانستان میں ہونے والی پیش رفت سے مجھے فوری آگاہ کر دیتا ہے۔ ابھی نوجوان ہے لیکن اس کی پہنچ کافی دور تک ہے۔ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے اور اس کی ہلاکت کی خبر اس نے مجھے 7 بج کر 43 منٹ پر دے دی تھی۔ تب تک پاکستان تو کیا دنیا کے کسی چینل تک یہ خبر نہیں پہنچی تھی۔

کپتان کا کہنا ہے کہ امریکا جب چاہتا حکیم اللہ محسود کو مار سکتا تھا۔ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ امریکا نے پاکستان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ حکیم اللہ کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہمارے حکمران بہت معصوم ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ تحریک طالبان سے مذاکرات کر کے دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پا لیں گے اور امریکا انھیں شاباش دے گا۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال قابو میں ہو یا ہر طرف افراتفری پھیلی رہے‘ امریکا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکیوں کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان انھیں افغانستان سے انخلاء میں مدد دے۔ دوست کہتا ہے کہ وزیراعظم کے دورہ امریکا میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ طالبان پر اثر ورسوخ استعمال کر کے انھیں نیٹو فورسز پر حملوں سے روکا جائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ انخلاء کے دوران کوئی گڑبڑ نہ کریں۔ پاکستان کی طرف سے جب کہا گیا افغان طالبان ہماری بات نہیں سنتے تو امریکیوں نے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکا ایک مدت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کرے‘ اسے یہ کیسے قبول ہو سکتا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میاں صاحب آپ کی حکومت مشکل میں ہے۔

تحریک طالبان کے ساتھ معاملات کیسے آگے بڑھنے ہیں اس کا سارا دار و مدار نئے امیر کے انتخاب پر ہے۔ اس وقت تحریک طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات ہیں۔ دوست کہتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو مذاکرات پر قائل کرنے کا ذمے دار خان سعید سجنا ہے۔ دوست نے یہ خبر بھی دی ہے کہ سجنا نے اپنا نیا نام خالد رکھ لیا ہے۔ افغان جنگ میں روس کے خلاف لڑنے والا سجنا میڈیا سے دو ر رہنا پسند کرتا ہے۔ اسے خودنمائی پسند نہیں۔ حکیم اللہ محسود کے برعکس وہ ایک سنجیدہ شخص ہے جو مذاکرات کی طرف گیا تو مکمل یکسوئی سے بات کرے گا اور اگر اس نے دوسرا راستہ چنا تو بھی اس پر قائم رہے گا۔ افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ شاید ایسا بھی پہلی بار ہوا ہے کہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے کسی کمانڈر کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر سامنے آنے والا افغان طالبان کا یہ موقف پاکستان کے لیے مشکلات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہ دونوں اگر ایک ہو جاتے ہیں تو پھر خوفناک تباہی سے نمٹنے کی تیاری ابھی سے شروع کر دینی چاہیے۔ دوست اس شبہے کا اظہار بھی کرتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ولی الرحمان کی موت کا بدلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ولی الرحمان سجنا کا قریبی دوست تھا۔ امریکی ڈرون حملے میں ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد سجنا اور حکیم اللہ کے ساتھیوں میں لڑائی شروع ہو گئی تھی جس میں 60 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ادھر سجنا یا کسی اور کو امیر مقرر کرنے کا اعلان ہو تو دوسری طرف عبدالولی یا فضل اللہ یہ فیصلہ ماننے سے انکار کریں اور اپنا امیر مقرر کر دیں۔ پنجابی طالبان یقینا سجنا کے حق میں ہوں گے اورشاید ہماری حکومت بھی یہی چاہے گی۔

وزیراعظم کے دورہ امریکا کا نتیجہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی صورت میں نکلے گا‘ حکومت اس کی توقع بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ڈرون حملے سے اگلے روز تحریک طالبان سے مذاکرات کے لیے علماء کا ایک تین رکنی وفد شمالی وزیرستان جانے والا تھا۔ صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے، چوہدری نثار کو سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ نواز شریف اب بھی کہتے ہیں وہ خونریزی نہیں چاہتے۔ نئی آل پارٹیز کانفرنس کی تیاری ہو رہی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک اور فیصلہ کن موڑ آ گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو بھی غور کرنا ہو گا کہ امریکی زیادتیوں کا بدلہ معصوم پاکستانیوں سے کیوں لیا جاتا ہے۔ انھیں اگر اس ملک میں رہنا ہے تو پاکستان کے آئین اور قانون کو تسلیم کر کے رہنا ہو گا۔ وہ مذاکرات پر تیار نہ ہوئے تو پھر لڑائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لڑائی تک نوبت نہ ہی آنے دی جائے تو بہتر ہے ورنہ جنگ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا فریقین کو پتہ ہے۔ اب بھی وقت موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ٹریگر دب گیا تو پھر آپ کو پتہ ہی ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔