خواتین کی ڈرائیونگ

ثناء غوری  پير 4 نومبر 2013
sana_ghori@live.com

[email protected]

ہماری ایک بہت قریبی عزیزہ بھارت کے شہرسورت میں مقیم ہیں۔ پاکستان میں جب تک رہیں ان سے تعلق بہنوں سے بڑھ کر تھا اور اب بھی دل کے نہایت قریب ہیں۔ کچھ دنوں پہلے انھوں نے ہمیں اپنی ایک تصویر بھیجی، جس میں وہ ویسپا اسکوٹر چلاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہم ان کے تہلکہ خیز مزاج سے آشنا ہیں، اس لیے تصویر دیکھ کر یہی سمجھے کہ ویسپا چلانا بھی ان کے کسی ’’ایڈونچر‘‘ کا حصہ ہوگا۔ لہٰذا جب ان سے بات ہوئی تو ہم نے ان کا ’’ایڈونچرازم‘‘ برقرار رہنے پر انھیں داد اور مبارک باد دی۔ تاہم ان کا جواب ہمارے لیے غیرمتوقع تھا۔

ان کا کہنا تھا یہ ہمارے لیے تفریح نہیں ہماری ضرورت ہے۔ ’’میں ویسپا اسکوٹر چلانا نہیں چاہتی تھی، لیکن یہ میری ذمے داریوں کا تقاضا ہے کہ میں یہ سواری خود چلاؤں، کیوں کہ نوکری، گھر گرہستی اور بچوں کو سنبھالنا، سب میرے فرائض میں شامل ہے اور میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے گھر کے دیگر افراد کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ میرے شوہر نہایت محنتی انسان ہیں۔ وہ میرا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔ ہم دونوں کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے۔ عورتوں کا اسکوٹر چلانا ہمارے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہاں، کراچی آکر میں یہ سب نہیں کرسکوں گی، کیوں کہ پاکستان کا کلچر اور وہاں کی سماجی اقدار مختلف ہیں۔ اسکوٹر چلانا میری ضرورت ہے اور اس سے مجھے بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔۔۔‘‘

یہ تھی ہماری عزیزہ کی گفتگو، جس نے بہت سے سوال ذہن میں پیوست کردیے۔

ابھی ہم ان سوالات کے تانے بانے میں الجھے ہوئے ہی تھے کہ ایک خبر اخبارات سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا تک جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ سعودی عرب کی عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم تین خواتین نے اپنی ہم وطن بہنوں کو ڈرائیونگ کا حق دلانے کی مہم کے سلسلے میں بہ طور احتجاج کار ڈرائیو کی اور اس عمل کی وڈیوز اور تصاویر یوٹیوب سمیت مختلف سوشل ویب سائٹس پر اپ لوڈ کردیں۔ یوٹیوب کی اسکرین نے ان وڈیوز اور تصاویر کو خوب پروموٹ کیا اور اب تک کروڑوں لوگ انھیں دیکھ چکے ہیں۔

ان خواتین کا یہ اقدام اپنے ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تھا۔ سعودی عرب کے قانون کے مطابق کوئی عورت ڈرائیونگ لائسنس لینے کی اہل ہے نہ گاڑی ڈرائیو کرسکتی ہے، ایسا کرنے کی صورت میں بھاری رقم پر مبنی جُرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر برق رفتاری سے سفر کرتی اور مقبول ہوتی ان وڈیوز اور تصاویر نے سعودی حکومت کے ایوانوں میں بھی ہلچل مچادی، چناں چہ اس سلسلے میں غور کرنے کے لیے شوریٰ کا اجلاس بلالیا گیا۔

مغربی میڈیا اور این جی اوز کو کسی مسلم ملک کو ہدف بنانے کا موقع ملنا چاہیے، سو حسب توقع انھوں نے اس معاملے پر وہ صف ماتم بچھائی ہے کہ گریہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ساتھ ہی حسب دستور اسلام کو نشانہ بنانے کا کھیل بھی شروع ہوگیا۔

ادھر سعودی عرب میں ’’چاند‘‘ نکلا اُدھر ہمارے یہاں بعض لوگوں کی ’’عید‘‘ ہوگئی۔ مغربی میڈیا تو رہا ایک طرف ہمارے لوگوں نے بھی اس معاملے کو مذہبی رنگ دینا شروع کردیا ہے۔ حالاں کہ اس ایشو کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ سماجی اقدار کا مسئلہ ہے۔

بھارت میں مسلمان عورتیں اسکوٹر چلائیں یا سعودی عرب میں نسوانی ہاتھوں کو گاڑی کا اسٹیئرنگ تھامنے کی اجازت نہ ہو، یہ کسی بھی مخصوص خطے یا ملک کے حالات، سماجی اقدار اور وہاں کے طرز زندگی کی بنا پر ہے۔ اگر کوئی قانون، اجازت یا قدر اسلام سے متصادم نہیں تو اس معاملے میں اسلام کو جواز یا تنقید کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف اور دانش مندی ہے، جس سرزمین پر سعودی مملکت قائم ہے، وہاں آج سے 14سو سال پہلے صحابیات گُھڑسواری کرتی تھیں اور اونٹ پر بیٹھ کر تجارت کے لیے سفر کیا کرتی تھیں۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ ہونے کے جواز میں یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ اسلام میں عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں، اس لیے بہتر ہے کہ وہ ڈرائیونگ نہ کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی احکامات کی رو سے سفر ہے کیا؟ شہر کی حدود میں رہتے ہوئے آمدورفت کرنا سفر کے زمرے میں نہیں آتا، چناں چہ نماز کی قصر کا حکم بھی اندرون شہر کے سفر پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا یہ پابندی سفر کے حوالے سے اسلامی ضوابط کے دائرے میں تو نہیں آتی۔

بعض حلقوں کی جانب سے خواتین کی ڈرائیونگ کو ’’حرام‘‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا، جس عمل کے اسلام سے متصادم ہونے کی کوئی دلیل نہیں اسے کوئی حرام کیسے کہہ سکتا ہے؟ ایسی کوئی پابندی یا اجازت کسی ملک کی داخلی صورت حال اور اقدار کی بنا پر ہونا اور بات ہے، مگر اس پر حرام کا فتویٰ لگادینا افسوس ناک ہے۔

اس ضمن میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ چونکہ مرد حاکم ہے اور عورت کی ذمے داریاں گھر کی چار دیواری تک محدود ہیں، اس لیے خواتین کی ڈرائیونگ اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔

کیا بات ہے۔ اسلام نے مرد کو عورت کا سرپرست بنایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت صلاحیتوں میں مرد سے کم ہے۔ دراصل مرد کو درجے میں بلند رکھنا بھی عورت کے لیے ایک تحفہ ہے ہمارے رب کا۔ چونکہ عورت کو اﷲ تعالیٰ نے مرد کے مقابلے میں نزاکت عطا کی ہے اور اسے ماں بننے کی صلاحیت سے نوازا ہے اور اسے یہ اہلیت دی کہ مرد کی طرح بچے کی بھوک مٹانے کے لیے اسے خارجی ذرایع پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، بلکہ وہ اپنے سینے سے اپنی اولاد کو غذا فراہم کرتی ہے۔ عورت کو یہ نازک اور اہم ترین ذمے داریاں عطا کرکے اﷲ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ بنا دیا تاکہ وہ پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض نبھا سکے۔

یہ ہے اسلام کا مزاج۔

اسلام کے اس مزاج کے پیش نظر ڈرائیونگ کو عورتوں کے لیے سرے سے حرام قرار دینا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے مخصوص صورت حال میں عورتوں کو بعض افعال سے گریز کرنا چاہیے، جیسے دورانِ حمل ڈرائیونگ کرنا بچے کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے، مگر ایسی شرائط عورتوں ہی کے لیے نہیں، کچھ خاص حالات میں اور بعض امراض میں مبتلا مرد بھی ڈرائیونگ نہیں کرسکتا۔ رسول اکرم ﷺ کے دور میں ہونے والے معرکوں میں مسلم خواتین کا کردار ہمارے لیے روشن مثال ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں کے تحت عورت کا میدان میں آنا اسلام کے مزاج کے ہرگز خلاف نہیں۔

ایک طرف مغربی حلقے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور دوسری طرف ہم لوگ، جو اپنے روشن مذہب کے دمکتے پہلوؤں کو سامنے لانے کے بجائے اپنی رائے کو حلال اور حرام کا درجہ دے کر اسے اسلام پر چسپاں کردیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔