نقی محمد خاں کی آپ بیتی

رفیع الزمان زبیری  پير 4 نومبر 2013

آزادی سے پہلے راجپوتانہ کی ہندو ریاستوں میں دتیا ایک نسبتاً چھوٹی ریاست تھی۔ اس ریاست کے حکمراں مہاراجہ رام سنگھ پرانی وضع کے رئیسوں میں آخری رئیس تھے، اسی وجہ سے ان کا زمانہ تاریخ میں ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی داد و دہش کی بڑی شہرت تھی۔ ایک دفعہ جب مہاراجہ گوالیار نے ان سے سوال کیا کہ ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود آپ کے ہاں سے کوئی حاجت مند خالی ہاتھ نہیں جاتا اور جس کو آپ دیتے ہیں مالا مال کردیتے ہیں کیا بات ہے کہ اتنی بڑی ریاست ہونے کے باوجود میںجب بجٹ بناتا ہوں تو خزانے میں روپیہ نہیں ہوتا۔ مہاراجہ رام سنگھ نے جواب دیا کہ تم طرح طرح کے ٹیکس لگاکر غریب رعایا کا خون چوستے ہو۔ میں ان کو دیتا ہوں اور دعائیں لیتا ہوں۔ اسی وجہ سے میرے خزانے میں برکت ہے جو تمہارے خزانے میں نہیں ہے۔

انڈین پولیس سروس کے ایک افسر نقی محمد خاں ان دنوں ریاست دتیا میں تعینات تھے، اپنی خود نوشت داستان حیات ’’عمر رفتہ‘‘ میں انھوں نے رام سنگھ کی دریا دلی اور انسان دوستی کے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ مہاراجہ اپنے کسی درباری مسخرے کے بارے میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئے کہ اس غریب کی لڑکی جوان ہے لیکن افلاس کی وجہ سے وہ اس کی شادی نہیں کرسکتا۔ انھوں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ کئی ہزار روپے کی تھیلی لاکر اکھاڑے کے درمیان رکھ دی جائے۔

تھیلی رکھ دی گئی اور مہاراجہ نے اپنے ارادے سے پہلوانوں کو آگاہ کردیا۔ درباری مسخرے کے آنے کا جو وقت تھا وہ آیا مہاراجہ نے کہاکہ آج ہم تم لوگوں کی طاقت آزمانا چاہتے ہیں۔ روپوں کی اس تھیلی کو تم میں سے جو کوئی دو انگلیوں سے اٹھاکر فلاں جگہ پر رکھ دے گا یہ روپے اس کے ہوجائیںگے۔ یہ سن کر سب نے مصنوعی طورپر زور آزمائی کی لیکن نہ اٹھاسکے۔ پھر مسخرے سے کہا گیا۔

وہ کہنے لگا مہاراج تعمیل حکم میں عذر نہیں لیکن جب یہ بڑے بڑے پہلوان ہی نہ اٹھاسکے تو بھلا میں ایک کمزور آدمی کیا اٹھاسکوںگا لیکن وہ سمجھ گیا تھا کہ آج اس کی قسمت کھلنے والی ہے۔ چنانچہ جس طرح دوسرے اٹھانے والوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی، اس کی آنکھوں پر بھی باندھ دی گئی۔ اس نے دو انگلیوں سے زور لگایا۔ مہاراجہ نے ایک پہلوان کو اشارہ کیا اس نے سہارا دیا، تھیلی اٹھ گئی سب نے شور مچایا، واہ واہ کی۔ یہاں تک کہ تھیلی جس جگہ رکھنی تھی وہاں پہنچ گئی۔ مسخرے کی آنکھوں سے پٹی ہٹادی گئی اور روپوں سے بھری تھیلی مسخرے کو دے دی گئی۔

ریاست دتیا کا دسہرے کا جلوس بڑا مشہور تھا اس جلوس کے موقعے پر نقی محمد خاں کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ جلوس کے انتظام کے سلسلے میں اپنے گھوڑے پر سوار تھے، قلعہ کے سامنے مہاراجہ کی آمد کے موقعے پر ان کا گھوڑا ایک جاگیردار ٹھاکر پربت سنگھ کے گھوڑے سے جواچھل کود کررہاتھا ٹکراگیا۔ پربت سنگھ جو مہاراجہ کا رشتے دار بھی تھا بڑا غصہ ور اور جھگڑالو قسم کا آدمی تھا۔ اس وقت تو بات آئی گئی ہوگئی بعد میں اس نے نقی محمد خاں سے کہاکہ میرے اور آپ کے گھوڑوں کے ٹکرانے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا کیوں کہ ہم لوگوں کا یہ پرانا عقیدہ ہے کہ جب دو گھوڑے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کے سواروں میں کوئی ایک دوسرے کو ہلاک کردیتاہے۔ نقی محمد خاں یہ سن کر ہنس دیے اور بولے کہ اس کا کوئی امکان معلوم نہیں ہوتا۔

نقی محمد خان لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے کوئی ایک سال بعد پربت سنگھ نے دو سرکاری مزدوروں کو جو اس کی زمین پر گھاس کاٹ رہے تھے اور اس کے منع کرنے پر بھی باز نہ آئے غصے میں آکر گولی ماردی۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو جان بچانے کی فکر ہوئی۔ اس کے لیے جو تدبیر سوچی وہ اور زیادہ خطرناک تھی۔ پربت سنگھ نے دس بیس آدمی جمع کیے ، انھیں مسلح کیا اور اپنی گڑھی سے نکل کر ڈاکے ڈالنے شروع کردیے۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے لگا۔ ریاست میں تباہی پھیلادی۔ نقی محمد خاں نے کئی بار مسلح پولیس لے جاکر گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ ایک سال تک کم وبیش یہی صورتحال رہی پھر ایک روز نقی محمد خان کو خبر ملی کہ پربت سنگھ دتیا سے تین میل دور اپنی گڑھی میں ہے۔ یہ پانچ چھ مسلح سپاہی لے کر وہاں پہنچے اور گڑھی کو گھیرلیا تاکہ وہ نکل کر بھاگنے نہ پائے۔

پربت سنگھ کے بھائی بھی جاگیردار تھے یہ بھلے آدمی تھے۔ ان کے ذریعے چاہا کہ پربت سنگھ کو اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے پر آمادہ کیاجائے۔ اسی دوران پربت سنگھ کا پیغام آیا کہ وہ ان سے بات کرنا چاہتاہے مگر شرط ہے کہ یہ بلا ہتھیار لیے اس کی گڑھی کی دیوار کے نیچے آکر اس سے بات کریں۔ پربت سنگھ کی نیت مشتبہ تھی تاہم نقی محمد خاں اپنا ریوالور اردلی کے سپرد کرکے اس کی گڑھی کی طرف چل پڑے۔ چند قدم ہی چلے تھے کہ گڑھی کے اندر ان پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ انھوں نے جلدی سے ایک درخت کے تنے کے پیچھے جاکر چھپنے کی کوشش کی۔

اگرچہ درخت بڑا نہیں تھا تاہم یہ فائرنگ سے جو مسلسل ہورہی تھی محفوظ رہے۔ پولیس والے جوان کے ساتھ تھے وہ جوابی فائرنگ کررہے تھے مگر بے سود پھر دتیا سے پولیس کی کمک آگئی اور انھوںنے پربت سنگھ کے مورچوں پر فائرنگ کرکے اس کے آدمیوں کو خاموش کردیا۔ نقی محمد خاں نے درخت کے پیچھے سے نکل کر دیوار کی پناہ لی۔ گڑھی کا دروازہ توڑنا مشکل تھا اسے آگ لگادی گئی، صبح جب پھاٹک جل کر گرگیا تو وہ پولیس کو لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ پربت سنگھ اور اس کے ساتھی مردہ پڑے ہیں۔ سب نے خودکشی کرلی تھی کیونکہ ان کا اب بچنا مشکل تھا اور گرفتاری کا انجام پھانسی تھی۔

نقی محمد خاں کی زندگی کے واقعات دلچسپ ہیں۔ ایک مرتبہ الٰہ آباد جانے کے لیے جب وہ لکھنو کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو صبح کے چار بجے تھے۔ اس زمانے میں لکھنو کا اسٹیشن ایک معمولی عمارت تھی۔ کمروں کے آگے ایک لمبا سائبان تھا جہاں مسافروں کے بیٹھنے کے لیے بینچیں پڑی تھیں لیکن کوئی خالی نہیں تھا کہ یہ بیٹھ جاتے۔ انھوں نے ادھر سے ادھر ٹہلنا شروع کردیا۔ لکھتے ہیں ’’ایک بینچ پر تین صاحب بیٹھے تھے۔ ان میں ایک ضعیف العمر لاغر اندام لکھنوی کی وضع کی دوپلی ٹوپی، ڈھیلا پاجامہ اور انگرکھا پہنے ، دونوں پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے بیٹھے تھے، بائیں ہاتھ میں ’’ہر دم تازہ‘‘ تھا یہ اس زمانے میں وہ حقہ ہوتاتھا جو شاید دو پیسے یا ایک آنے میں بھربھرایا، آگ پانی سے تیار ملتاتھا۔ پینے کے بعد اس کو پھینک دیتے تھے، ان بزرگ کا داہنا ہاتھ مڑے ہوئے گھٹنے پر رکھا ہواتھا۔

میں جب ٹہلتا ہوا ان کے قریب سے گزراتو انھوںنے مجھے آواز دے کر اپنی طرف مخاطب کیا۔ میں قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ کہنے لگے: کیا تم شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے مرید ہو؟ (ان کا کافی عرصے پہلے انتقال ہوگیاتھا) میں نے کہا جی نہیں، انھوں نے تعجب سے میرے الفاظ کو دہرایا جی نہیں! میں نے کہا میں مرید نہیں ہوں اب انھوں نے سخت لہجے میں کہا ! تم جھوٹ بولتے ہو۔ مولانا کا ہاتھ تمہاری پیٹھ پر رکھا دیکھ رہا ہوں۔ یہ سن کر میں حیران ہوگیا اور مجھے اپنی دس سال کی عمر کا وہ واقعہ یاد آگیا جب والد صاحب مجھے حضرت مولانا کے پاس گنج مراد آباد لے گئے تھے اور انھوں نے اپنا ہاتھ میری پشت پر رکھ کر توجہ فرمائی تھی۔ میں نے کہا: حضرت آپ سچ فرماتے ہیں۔ میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہواتھا تو بہت کم عمر تھی اور اس واقعے کو بھول گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔