صاف اور سر سبز پنجاب مہم کا آغاز

مزمل سہروردی  بدھ 25 دسمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ہم اس بات پر تو ایمان رکھتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اجتماعی صفائی پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ہم اپنا گھر تو صاف رکھتے ہیں لیکن گھر کا کوڑا اور گند باہر پھینک کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ گھر کی صفائی پر کامل یقین رکھنے کے باوجود ہم اپنی گلی سڑک شہر اور علاقہ کی صفائی کو اپنا فرض نہیں سمجھتے۔ اس ضمن میں اجتماعی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ویسے تو عموی رائے یہی ہے کہ پنجاب میں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی پر تنقید ہمارے دوستوں کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ویسے اس ضمن میں کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں لیکن کچھ انھیں بھی مرنے کا شوق ہے۔کام کی تشہیر کو جرم سمجھتے ہیں۔

اس لیے خود کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بہر حال پنجاب کی 319 مقامی شہری آبادیوں کے درمیان صاف اور سر سبز پنجاب کا مقابلہ شروع کیا گیا ہے۔ ان 319مقامی شہری آبادیوں میں پنجاب کی9میٹروپولیٹن کارپوریشنز،16میو نسپل کارپوریشنز، 134میونسپل کمیٹیز، اور 160ٹاؤن کمیٹیز شامل ہیں۔ یہاں یہ ا مر قابل ذکر ہے کہ اس میں تحصیل کونسلز اور دیہی کونسلز شامل نہیں ہیں۔

اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے مقامی شہری علاقوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ پنجاب کی زیادہ تر آبادی دیہی ہے۔ لیکن تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق اب پنجاب کی 44فیصد آبادی ان مقامی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔ اس طرح پنجاب کی 44فیصد آبادی کے درمیان صاف اور سر سبز پنجاب کا مقابلہ ہو رہا ہے۔

اس وقت پنجاب میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے نفاذ کے تحت مقامی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مقامی حکومتوں کے انتخابات ابھی نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے ان مقامی حکومتوں کا نظام کار  سول بیوروکریسی کے پاس ہے۔ اس طرح صاف اور سرسبز پنجاب کا یہ مقابلہ ایک طرح سے بیوروکریسی کے درمیان ہی ہے۔

اسی لیے پنجاب کے محکمہ بلدیات کے سیکریٹری ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے صاف اور سر سبز پنجاب کے افتتاح کے لیے ایوان وزیر اعلیٰ میں ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا ۔وہ اس پر خصوصی داد کے مستحق ہیں۔ یہ تقریب کسی بھی روایتی تقریب سے ذرا مختلف تھی۔ ویسے تو سرکاری و نیم سیاسی تقاریب میں تقریریں ہوتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس تقریب میں پنجاب کی 319مقامی شہری حکومتوں کے انچارج موجود تھے۔

جن میں ڈپٹی کمشنرز اور دیگر افسران شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ان افسران سے سر سبز پنجاب مہم میں تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے اور اپنے اپنے علاقہ کو فتح دلانے کے لیے کام کرنے کا حلف لیا۔ اب امید ہی کی جا سکتی ہے کہ یہ افسران اپنے اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔ ورنہ حلف تو انھوں نے بہت جوش سے لیا ہے۔

اگر پنجاب کے کسی شہری علاقہ میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو مقامی شہری آبادی کے افسران کو اس کو سو فیصد میسر بنانے کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے چاہیے۔ لوگ پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لیے چندہ دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ویسے حکومت پنجاب نے ایک آب اتھارٹی بھی بنائی ہے وہ بھی کام کر رہی ہے۔

اس لیے یہ کوئی نا ممکن کام نہیں ہے۔ اسی طرح سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ پنجاب میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پر بہت کام ہوا ہے۔ بلکہ اب تو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ جو کام ہوا ہے وہ بھی ضایع نہ ہو جائے۔ اسی طرح ویسٹ واٹر مینجمنٹ کا بھی ایک انڈیکس رکھا گیا ہے۔ ہم ویسٹ واٹر مینجمنٹ میں بہت پیچھے ہیں۔ پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنایا جا رہا ہے۔

پاکستان کو اب پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ہمیں ویسٹ واٹر مینجمنٹ کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہو گا۔ ہمیں اس ضمن میں پانی کا ضیاع روکنا ہوگا۔ آج ہمیں ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے۔ پنجاب میں اسموگ نے بھی حملہ کیاہوا ہے۔ اس سے نبٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بڑی شجر کاری کی ضرورت ہے۔

صاف اور سر سبز پنجاب کے مقابلے میں فاتح کا اعلان 23مارچ کو ہوگا۔ میری رائے میں پنجاب کے عام آدمی کو اس مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ ہمیں اپنے مقامی شہری علاقوں کے ذمے داران کو پابند کرنا چاہیے ۔ ویسے تو عام شہری بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے کلین گرین پاکستان کی موبائیل ایپ اور ویب سائٹ پر بطور کلین گرین چیمپئن رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ میری رائے میں حکومت پنجاب اور بالخصوص محکمہ بلدیات کو اس ضمن میں ایک بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانی چاہیے۔

تمام شعبہ زندگی سے لوگوں کو اس میں شامل کرنے کے لیے شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت مقامی حکومتوں کا سیاسی سیٹ اپ موجود نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی صوبائی اور مرکزی سطح پر سیاسی نمائندے موجود ہیں۔ ان سب کو اس میں شامل کرنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو حزب اختلاف کے نمائندوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے تا کہ اس کی سیاسی تنہائی بھی ختم ہو سکے۔

عثمان بزدار کی خامی یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے جا رہے ہیں  اور کسی کو بتانا پسند نہیں کرتے۔ اس سے قبل نوجوانوں کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے ’’چیف منسٹر ہنرمند نوجوان پروگرام‘‘ کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے لیے 1.5ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ٹیوٹا انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے مزید ایک لاکھ نوجوان اسکلز ڈویلپمنٹ اور ٹیکنیکل  ووکیشنل تربیت حاصل کر کے روزگار کما سکیں گے۔ ٹیوٹا سے تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے نیشنل و ملٹی نیشنل اداروں کے ساتھ ایم اویوز پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔

چیف منسٹر ہنرمند پروگرام سے نوکریوں کے وژن کو حقیقت بنانے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کے لیے 9اسپتال تعمیر کیے جائیں گے۔بزدار حکومت نے اس عرصہ کے دوران 30قانون اسمبلی سے پاس کروائے ہیں اور مزید 35سے زائد بل صوبائی اسمبلی  میں پیش کیے جا رہے ہیں۔لیکن پھر بھی دوستوں کو بزدار کی کارکردگی پسند نہیں۔ حالانکہ باقی صوبوں میں اتنی کارکردگی بھی نہیں ہے۔

اسی لیے کلین گرین پاکستان کے مقابلوں میں سندھ اور بلوچستان کا کوئی شہر شامل نہیں۔ اور کے پی کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ اس شعبہ میں بھی صا ف اور سر سبز پنجاب کا آغاز کر کے عثمان بزدار ایک قدم آگے ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔