مجھے ناشکرا نہ بنائیے

راضیہ سید  جمعرات 26 دسمبر 2019
اپنے اردگرد موجود افراد کے منفی رویوں کی وجہ سے ہم ناخوش اور ناشکرے رہنے لگتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنے اردگرد موجود افراد کے منفی رویوں کی وجہ سے ہم ناخوش اور ناشکرے رہنے لگتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ارے بھئی آپ کو کیا کہیں، آپ تو اتنے قابل ہیں اور یہاں بیس ہزار کی نوکری کررہے ہیں۔ بہت ہی افسوس ہے آپ جتنے تجربے کے حامل افراد کی کم ازکم سیلری چالیس ہزار تو ہونی ہی چاہیے تھی ناں۔‘‘

’’بیٹا اب تک تمھاری شادی نہیں ہوئی۔ تمہاری ہم عمر لڑکیوں کے تو تین تین بچے ہیں۔ تم سے چھوٹی لڑکیوں کے بھی گھر بس گئے۔ اللہ جانے تمہارا نصیب کب جاگے گا؟ بیٹا اس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں ہوگا، کوئی وظیفہ کرو، دعائیں کرو اور اپنا گھرآباد کرنے کی سوچو۔‘‘

’’اف ثمینہ، تمھاری بیٹی کا سنا کہ شوگر ہوگئی اسے۔ بس بہن کیا کریں، قسمت کا کیا بھروسہ ہے؟ تم کس ڈاکٹر کو دکھا رہی ہو؟ کچھ دیسی علاج کرو۔ اللہ ایسے امتحان سے بچائے۔ اب دیکھو تمھاری بینا جوان ہے، جیسے ہی کسی کو پتہ لگے گا کہ بینا بیمار ہے کون کرے گا اس سے شادی؟‘‘

’’علاج وغیرہ کرواؤ بیٹی۔ شادی کے بعد اولاد ہونا عورت کی حیثیت کو سسرال بالخصوص شوہر کی نظر میں مستحکم کردیتا ہے۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ اگر ڈاکٹر سے علاج نہیں ہورہا تو کسی پیر فقیر کے پاس جانے میں کیا حرج ہے؟ اللہ تعالیٰ نے دولت بھی دی، شکل بھی، اور تو اور شوہر بھی لیکن دیکھ لو گود تو سونی ہے ہی۔‘‘

یہ سب کہانیاں ہمارے اردگرد، ہمارے معاشرے اور اسی معاشرے میں رہنے والے تلخ کرداروں کی ہیں۔ ایسے مکروہ کردار جو آپ کی خوشی سے کبھی خوش نہیں ہوں گے اور کبھی آپ کو اپنے حال سے خوش اور مطمئن نہیں ہونے دیں گے۔

معاشرے کے ان کرداروں کی نظر ہمیشہ صرف آپ کی خامیوں پر ہوگی کہ آپ کی اولاد نہیں ہوئی۔ آپ کو بہت پیسوں والی نوکری نہیں ملی۔ آپ کو کوئی جان لیوا بیماری ہے۔ آپ کی شادی نہیں ہورہی۔ آپ کے پاس بڑا گھر، بڑی گاڑی نہیں ہے۔ آپ کے پاس برانڈڈ کپڑے نہیں ہیں۔ آپ بیرون ملک چکر نہیں لگاتے۔ وغیرہ۔

ایسی باتیں کرنے والے لوگ کبھی آپ کے مخلص نہیں ہوسکتے۔ کبھی آپ کےلیے اچھا اور مثبت نہیں سوچ سکتے۔ وہ کبھی آپ کی خوبیوں پر نظر نہیں رکھتے، بلکہ ہمیشہ آپ کو آپ کے نقائص سے آگاہ کرکے مایوس بنادیتے ہیں۔ مثلاً آپ کے باس ہوں گے تو کہیں گے تمھیں آتا ہی کیا ہے، میں ہوں جس کی وجہ سے تمہاری نوکری قائم ہے۔ جبکہ یہ علم نہیں ہوگا کہ وہی ورکر سب سے محنتی اور فرض شناس ہوگا، نہ صرف وہ دفتر میں اپنا کام کرتا ہوگا بلکہ دوسرے کولیگز کے ساتھ بھی معاون ہوگا۔ لیکن آپ کی یہ خصوصیت کبھی بھی باس آپ کو نہیں بتائیں گے۔

اسی طرح آپ کی زندگی اچھی گزر رہی ہوگی، لوگ آپ کو آپ کی کم صورتی، انگریزی نہ آنے، دولتمند نہ ہونے کے طعنے دیں گے۔ ایسے لوگ مستقبل تو کیا آپ کا حال بھی تباہ کردیں گے۔ جب بار بار آپ کے سامنے ان نعمتوں کا ذکر ہوگا تو آپ ذہنی طور پر پریشان ہوں گے اور پھر آپ کو جلن اور کڑھنے کا احساس بھی ہونے لگے گا۔ کیونکہ ان باتوں کی وجہ سے آپ اپنی زندگی اور کامیابیوں سے کبھی مطمئن نہیں ہوں گے۔

آپ شادی شدہ ہوں گے، گھر کے حالات اچھے ہوں گے، لیکن اولاد نہ ہونے کا سوچ کر آپ گھر میں بھی جھگڑے کریں گے۔ آپ بیس ہزار کی نوکری کررہے ہوں گے، لیکن پچاس ہزار کی نوکری نہ ملنے پر بے حد اداس ہوجائیں گے اور ان لوگوں کو نہیں دیکھیں گے جو بے روزگار ہیں۔ آپ برانڈڈ کپڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں نہیں سوچیں گے جن کے تن پر کپڑے بھی نہیں ہوتے۔

آپ کنوارے ہیں، برسر روزگار بھی ہیں لیکن شادی نہ ہونے کا رولا آپ کو پریشان کردے گا۔ آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، آپ ذہنی طور پر درست ہیں، تب ہی تو آپ کو ملازمت پر رکھا گیا ہے۔ لیکن نہیں، آپ سب منفی ہی سوچیں گے۔

قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ ’’تم میرے شکر گزار بنو میں تمہیں اور نوازوں گا۔‘‘

لیکن اس کے ساتھ مختلف احادیث میں یہ بھی ہے کہ اگر انسان تھوڑے ملے پر شکر ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل اور کرے گا۔ لیکن ناشکری کی بنا پر پہلے سے عطا کردہ نعمتیں بھی چھین لی جائیں گی۔

ویسے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر ناشکرا ہے۔ کیونکہ ہم اپنی زندگیوں کو بالکل ایک پزل کی طرح دیکھتے ہیں اور ہماری نگاہ صرف اسی حد تک جاتی ہے جہاں کوئی ٹکڑا مسنگ ہو۔ اس لیے ہمیں سب کچھ ہی برا لگتا ہے۔ یہاں پر ایک اہم بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہمیں ہماری خامیوں کا احساس دلا کر، ہمارے سامنے اپنی نعمتوں کی تشہیر کرکے مزید ناشکرا بنادیتے ہیں۔ ہم رہنا تو خوش چاہتے ہیں لیکن اپنے اردگرد موجود ان افراد کے منفی رویوں کی وجہ سے ہم ناخوش اور ناشکرے رہنے لگتے ہیں۔

لہٰذا آج آپ سب کو مشورہ ہے کہ ایسے زہریلے افراد کو ٹاٹا بائے بائے کہیں اور اللہ تعالیٰ کا ہر وقت شکر گزار ہوتے ہوئے ان افراد کو صرف یہ ایک جملہ کہیں کہ ’’جناب مجھے ناشکرا نہ بنائیے۔ ‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔