احتساب، انتقام اور حکومت

سید امجد حسین بخاری  جمعـء 27 دسمبر 2019
احسن اقبال کی گرفتاری سیاسی انتقام کے الزام پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

احسن اقبال کی گرفتاری سیاسی انتقام کے الزام پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چیئرمین نیب نے ہواؤں کے بدلنے کا پیغام دیا۔ ان کے بیان کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ضمانتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بی آر ٹی منصوبے اور مالم جبہ کیس کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ اب نیب حکومت کی جانب رخ کر ے گی۔ لیکن یہ سب باتیں احسن اقبال کی گرفتاری کے بعد بے معنی سے محسوس ہونے لگیں۔ مرکزی سیکریٹری جنرل کی گرفتاری کے بعد لیگی قیادت نے ایک بار پھر نیب نیازی گٹھ جوڑ کے بیانات دینا شروع کردئیے جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی قومی احتساب بیورو پر سیاسی انتقام کےلیے استعمال ہونے کا الزام عائد کیا۔

قومی احتساب بیورو پر اپوزیشن مسلسل سیاسی انتقام کا الزام عائد کررہی ہے۔ احسن اقبال کی گرفتاری بھی اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ لیگی قیادت ایک بار پھر حکومت کے نشانے پر ہے۔ پچھلے دنوں ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے قبل از وقت ریٹائرڈ منٹ لی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی جانب سے ان پر تین اہم لیگی رہنماؤں خواجہ آصف، احسن اقبال اور میاں جاوید لطیف پر کیس بنانے کا دباؤ تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اسی وجہ سے وہ اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ اس بیان پر کسی سیاست دان اور میڈیا ہاؤس نے خاص توجہ نہیں دی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان کا بیان مزید واضح ہوتا گیا۔ پردے میں چھپے حقائق سامنے آنے لگے۔ خواجہ آصف پر کیس بنا، میاں جاویدلطیف کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور اب احسن اقبال کو گرفتار کرلیا گیا۔

اپوزیشن جماعتیں تو نیب پر تنقید کر ہی رہی ہیں لیکن حکومتی وزرا بھی متعدد بار نیب کے سیاسی ہونے کا تاثر دے چکے ہیں۔ نیب نے ہر بار الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی فرد کی گرفتاری سے قبل حکومتی وزرا اعلان کرتے ہیں کہ فلاں فرد گرفتار ہونے والا ہے اور اس کے فوراً بعد اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ایسا کون سا ذریعہ ہے جو ایک آزاد ادارے کی رپورٹس حکومتی وزرا کے گوش گزار کردیتا ہے؟ ایسا کون سا منتر ہے، جس کا ورد کرنے سے انہیں علم الغیب حاصل ہوجاتا ہے؟ اگر نیب ایک آزاد ادارہ ہے تو محض اپوزیشن کےممبران ہی کو کیوں پکڑتا ہے؟

بی آر ٹی منصوبے پر پورے ملک میں سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ لیکن چند اخباری رپورٹس کے بل بوتے پر اپوزیشن کو گرفتار کرنے والا ادارہ بی آرٹی منصوبے میں شامل افراد سے تحقیقات کیوں نہیں کرتا؟ نیب کا موقف ہے کہ بی آر ٹی اور مالم جبہ کیس پر عدالتی اسٹے ہے۔ لیکن مالم جبہ کیس کے حوالے سے متعدد کورٹ رپورٹرز سے رابطہ کیا، مختلف فائلز کھنگال ڈالیں، ایسا کوئی بھی اسٹے نہیں ملا۔ ایک لمحے کو مان لیں کہ دنوں کیسز پر عدالتی اسٹے موجود ہے تو نیب نے اس اسٹے کو ختم کرانے کےلیے کوشش کیوں نہیں کی؟ کئی حکومتی عہدیدران کے حوالے سے شکایات ہیں، مگر حکومت میں جاتے ہی ان کے کیسز ختم کیوں ہوجاتے ہیں؟

حکومت نے احتساب کے نام پر اقتدار سنبھالا۔ قوم کو بتایا کہ یومیہ اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کی تجوریاں بھری جارہی ہیں، مگر قومی خزانہ مسلسل خالی ہورہا ہے۔ عوام نے اس بات کو تسلیم کیا۔ بیلٹ باکس بھر بھر کر ووٹ ڈالے۔ تحریک انصاف کو خیبر، پنجاب اور وفاق کا مختار کل بنادیا۔ بلوچستان سے بھی اتحادیوں کی صورت ٹھنڈی ہواؤں کا جھونکا آیا، لیکن سرکار کو کرپشن صرف سندھ میں نظر آئی۔ پنجاب میں دودھ کی نہریں بہتی رہیں لیکن عوام کو پانی تک نصیب نہ ہوا۔ خیبر اور بلوچستان کے پہاڑوں پر عوام کو ہریالی دکھائی گئی مگر حقیقت میں پہاڑخشک ہی رہے۔ احتساب ہوا اپوزیشن جماعتوں کا لیکن انہیں بھی ریلیف ملتی گئی۔ گرفتاریاں بھی اپوزیشن رہنماؤں اور بیوروکریٹس کی ہوئی، لیکن کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔

ایک لمحے کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ نیب فیس نہیں کیس دیکھتی ہے۔ اسے چہروں سے خوف ہے اور نہ ہی وہ کسی طاقتور سے ڈرتا ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ احتساب سیاسی نہیں بلکہ تمام افراد جو پکڑے گئے ہیں وہ سبھی مجرم ہیں۔ لیکن میرے سوال جوں کے توں ہی ہیں۔ کیا حکومتی اتحادی اور وزیراعظم کے قریبی ساتھی سبھی دودھ کے دھلے ہیں؟ کیا وزیراعظم کے رفقاء کے حوالے سے کیسز موجود نہیں ہیں؟ تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے درمیان شٹل کاک بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اس کیس کے ثبوت بانی رکن اکبر ایس بابر نے خود الیکشن کمیشن کو فراہم کیے ہیں، مگر پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر کیس کو طوالت دی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیب کو پرویز مشرف نے سیاسی انتقام کےلیے استعمال کیا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی اور خود مسلم لیگ نون نے دعوؤں کے باوجود اس کے قوانین میں ترمیم کی اور نہ ہی اس ادارے کے احتساب کا کوئی طریقہ کار طے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین کےلیے جس ادارے کا استعمال کیا گیا، آج وہی ادارہ ان کے بقول ان کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔

اس وقت چیئرمین نیب کے کندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ادارے پر لگا سیاسی انتقام کا داغ دھونے کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔ ادارے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں، بیوروکریٹس اور تاجر برداری کے تحفظات دور کئے جائیں۔ قومی احتساب بیورو کو حقیقی معنوں میں قومی ادارہ بنائیں۔ شخصیات کی کردارکشی کی بجائے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کےلیے انتظامات کریں۔ ان اقدامات کے بعد ہی نیب ایک باوقار ادارہ بن سکتا ہے۔

نیب کا وقار نہ صرف حکومت اور اپوزیشن بلکہ خود نیب کےلیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ برسوں کی محنت اور مہینوں کی کوششیں محض ایک الزام کے نتیجے میں غارت ہوجاتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔