2019ء کھیلوں میں ناکامیوں کا سال رہا

میاں اصغر سلیمی  اتوار 29 دسمبر 2019
اسنوکر اور ریسلنگ میں گولڈ میڈل پانے والے سرکاری پذیرائی سے محروم

اسنوکر اور ریسلنگ میں گولڈ میڈل پانے والے سرکاری پذیرائی سے محروم

موجودہ دور میں کھیلوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کھیلیں ملکوں کے درمیان آپس میں پیار محبت بانٹتی اور روٹھے ہوؤں کو قریب لانے کا سبب بنتی ہیں، صحت مندی کی علامت اور امن کی سفیر سمجھی جاتی ہیں، بدقسمتی سے سپورٹس کبھی بھی ہماری موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہیں۔

جس کی وجہ سے ٹیلنٹ ہونے کے باوجود ہمارے کھلاڑی عالمی سطح وہ کارنامے انجام نہیں دے پاتے جو دنیا کے دیگر ممالک کے پلیئرز انجام دے رہے ہیں۔ 2019ء میں بھی پاکستانی کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر بڑی کامیابیاں نہ سمیٹ سکے۔

پاکستان کی سب سے محبوب اور مقبول گیم کرکٹ زوال کا شکار رہی، ہاکی ٹیم نہ صرف شکستوں کے بھنور میں پھنسی رہی بلکہ اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ میں گرین شرٹس ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ٹوکیو اولمپکس 2020ء کی دوڑ سے بھی باہر ہو گئی۔

ریسلر محمد انعام اور سنوکر پلیئرمحمد آصف عالمی چیمپئن بننے میں تو کامیاب رہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی کارکردگی کو سراہا گیا اور نہ ہی ان کو پرکشش انعامات سے نوازا گیا، اگرچہ ساؤتھ ایشن گیمز کے دوران پاکستان دستہ 132 میڈلز جیتنے میں کامیاب رہا لیکن سات ملکوں کے ایونٹ میں اس کی چوتھی پوزیشن رہی۔ ایکسپریس نے پاکستانی کھلاڑیوں کی 2019ء میں کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ تیار کی ہے جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔

کرکٹ:

پاکستان اس برس کرکٹ کے میدانوں میں بڑی کامیابی نہ سمیٹ سکا، عوام کے سب سے مقبول کھیل کو فتوحات کے ٹریک پر ڈالنے کے لئے متعدد کوششیں تو کی گئیں لیکن چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے تمام تر حربے ناکام ثابت ہوئے، انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ بعد ازاں سری لنکا کے خلاف لاہور میں ہونے والی ٹوئنٹی20 سیریز میں پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں کا تمام تر نذلہ کپتان سرفراز احمد پر گرا، انہیں تینوں طرز کی کرکٹ ٹیموں کی قیادت سے ہٹا کر ٹوئنٹی20 کرکٹ کی باگ ڈور بابر اعظم جبکہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی اظہر علی کو سونپی گئی۔

غیر ملکی کوچ مکی آرتھر کی جگہ مصباح الحق کو چیف کوچ کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کی بھی ذمہ داریاں سونپی گئیں، نئے کپتان اور ہیڈ کوچ بھی پاکستان کو فتح کی جانب گامزن نہ کر سکے اور پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں بری طرح شکستوں سے دو چار ہوئی۔ سال کی اچھی خبر یہ رہی کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے کراچی میں ایک روزہ جبکہ لاہور میں ٹوئنٹی 20میچوں کی سیریز میں حصہ لیا۔

بعد ازاں دس سال کے طویل عرصہ کے بعد آئی لینڈرز ایک بار پھر پاکستان آئے اور انہوں نے گرین کیپس کے خلاف روالپنڈی اور کراچی میں ٹیسٹ میچز کھیلے۔ اس دورے کی اہم دریافت عابد علی رہی جو آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ کے بعد اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنیچری کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

بعد ازاں عابد علی نے کراچی ٹیسٹ میں بھی 174 رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔ عابد علی کے علاوہ ابتدائی چاروں بیٹسمین بھی سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے۔اگر رواں برس پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی کی بات کی جائے تو فتح کی دیوی پاکستان ٹیم سے روٹھی رہی،گرین کیپس صرف ایک کامیابی ہی سمیٹ سکے، پاکستانی ٹیم نے مجموعی طور پر6 میچوں میں حصہ لیا، گرین کیپس کو4 مقابلوں میں ناکامی کا سامنا رہا ، بارش کی وجہ سے ایک میچ کا فیصلہ نہ ہو سکا جبکہ کراچی ٹیسٹ میں اظہر علی الیون سری لنکا کو زیر کرنے میں کامیاب رہی۔

سرفراز احمد کو طویل طرز کی کرکٹ سے بھی ہٹا کر اظہر علی کو ٹیم قیادت کی ذمہ داری دی گئی، اوپنر کی کپتانی میں بھی گرین کیپس کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شرمناک شکستوں کاسامنا کرنا پڑا، گرین کیپس نے سال کا آغاز جنوبی افریقہ کے خلاف دورے سے کیا، 3 جنوری کو کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف شیڈول میچ میں پاکستانی ٹیم کو9 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، دوسرا ٹیسٹ 11جنوری کو جوہانسبرگ میں کھیلا گیا، اس میچ میں بھی جنوبی افریقہ نے107 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ ان ناکامیوں کے بعد سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے بھی ہٹا کر اظہر علی کو قومی ٹیم کا نیا کپتان بنایا گیا۔

وہ بھی پاکستانی ٹیم کو فتوحات کے ٹریک پر نہ لا سکے اورگرین کیپس آسٹریلیا کے خلاف دونوں میچوں میں شکست سے دو چار ہو گئی۔ 21 نومبر کو برسبین میں شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کو اننگز اور 5رنز سے شکست کا سامنا رہا، دوسرا میچ ایڈیلیڈ میں 29 تا 2 دسمبر تک کھیلا گیا۔

اس میچ میں بھی پاکستانی ٹیم کو اننگز اور48 رنز سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم 10 سال کے طویل عرصہ کے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لئے پاکستان آئی، راولپنڈی میں شیڈول پہلا میچ بارش کی نظر ہو گیا ہے، اس میچ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا چانس تو تھا لیکن بارش نے گرین کیپس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، سال کے دوران نسیم شاہ، موسی ،عثمان شنواری اور عابد علی کو ٹیسٹ کیپ دی گئی لیکن یہ نوجوان کھلاڑی بھی صلاحیتوں کا اظہار دکھانے میں ناکام رہے۔

سالہا سال سے نظر انداز فواد عالم کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سکواڈ کا حصہ تو بنایا گیا ہے لیکن انہیں پنڈی کے بعد کراچی ٹیسٹ میں بھی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان ٹوئنٹی20 کرکٹ ٹیم کے بھی رواں برس ڈراؤنا خواب ثابت ہوا،گرین شرٹس نے مجموعی طور پر10 میچوں میں حصہ لیا جس میں صرف ایک میچ میں کامیابی حاصل کی، آٹھ میں ناکامیوں کا سامنا رہا جبکہ بارش کی وجہ سے ایک مقابلے کا فیصلہ نہ ہو سکا، پے در پے ناکامیوں کو جواز بنا کر سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹا کر ٹیم کی قیادت بابر اعظم کے سپرد کی گئی۔

وہ بھی ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نہ نکال سکے،پاکستان کی طرف سے سب سے کامیاب بیٹسمین بابر اعظم رہے، انہوں نے4 نصف سنیچریوں کی مدد سے 374 رنز بنائے۔ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 90 رہا،عماد وسیم سب سے کامیاب بولر رہے، انہوں نے10 میچوں میں حصہ لیتے ہوئے 7 وکٹیں حاصل کیں۔گرین شرٹس کا سال کا آغاز ہی ناکامی سے ہوا اور پاکستانی ٹیم دورہ جنوبی افریقہ کے دوران یکم فروری کو کیپ ٹاؤن میں میزبان سائیڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز کا شیڈول پہلا میچ 6 رنز سے ہار گئی۔

جوہانسبرگ میں بھی پاکستانی ٹیم کو دوسری بار شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم6 فروری کو سینچورین میں ہونے والے سیریز کے تیسرے میچ میں پاکستانی ٹیم 27 رنز سے مقابلہ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی، بعد ازاں یہ گرین شرٹس کی سال کی اکلوتی فتح بھی ثابت ہوئی،5 مئی کو پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف کارڈف میں میچ کھیلا، اس میچ میں بھی گرین شرٹس کو 7 وکٹوں سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے لاہور میں3 میچون کی سیریز میں حصہ لیا، تمام مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کو ناکامیوں کا سامناکرنا پڑا، ان شکستوں کی پاداش میں سرفراز احمد کو کپتانی کے عہدے سے ہٹا کر بابر اعظم کو نئی ذمہ داری سونپی گئی لیکن وہ بھی شکستوں کے سفر کو نہ روک سکے۔

پاکستانی ٹیم نے نومبر میں آسٹریلیا کا دورہ کیا، 3 میچوں پر مشتمل سیریز کے پہلا میچ کا فیصلہ بارش کی وجہ سے نہ ہو سکا، 3 نومبر کو شیڈول میچ میں پاکستانی ٹیم مقررہ اوورز میں صرف 107 رنز ہی بناسکی، آسٹریلیا نے 3.1 اوورز میں بغیر کسی نقصان پر 41 رنز بنائے تھے کہ بارش کی وجہ سے میچ روک دیا گیا، بعد ازاں کینبرا اور پرتھ میں شیڈول دونوں میچوں میں پاکستانی ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کی طرف سے سب سے کامیاب بیٹسمین بابر اعظم رہے، انہوں نے4 نصف سنچریوں کی مدد سے 374 رنز بنائے۔ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 90 رہا۔افتخار احمد150 رنز کے ساتھ دوسرے اور عماد وسیم121 رنز کے ساتھ تیسرے رنز پر رہے۔حارث سہیل 120 رنز کے ساتھ چوتھے اور حسین طلعت98 رنز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے۔

کپتان سرفراز احمد 4 میچوں میں صرف 67 رنز ہی بنا سکے۔ عماد وسیم سب سے کامیاب بولر رہے، انہوں نے10 میچوں میں حصہ لیتے ہوئے 7 وکٹیں حاصل کیں، محمد عامر 7 میچوں میں 7 وکٹیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے، شاداب خان نے4 وکٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کیں۔

فہیم خان، محمد حسنین، شاہین شاہ آفریدی اور عثمان شنواری تین، تین وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور بہتر اوسط کی بنا پر فہیم اشرف چوتھے، محمد حسنین پانچویں، شاہ آفریدی چھٹے اور عثمان شنواری ساتویں نمبر پر رہے۔فخر زمان، حسین طلعت، افتخار احمد، محمد موسی، شعیب ملک نے بھی بولنگ کی لیکن وہ کوئی بھی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔اسی طرح پاکستانی ٹیم2019ء میں جہاں نہ صرف ورلڈ کپ میں کامیابی سمیٹ سکی بلکہ اسے دنیا کی دوسری ٹیموں کے خلاف بھی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستانی ٹیم نے سال کے دوران مجموعی طور پر 25میچوں میں حصہ لیا،صرف 9 میں فتح حاصل کی،15 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک میچ کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

ہاکی :

پاکستانی ہاکی ٹیم نے رواں برس بھی شائقین کو خاصا مایوس کیا، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار سب اچھا ہے کی راگ تو الاپتے رہے لیکن وینٹی لیٹر پر موجود قومی کھیل ہچکیاں لیتا اپنی زندگی کی آخری سانسیں گنتا رہا۔ محمد آصف باجوہ دوسری بار سیکرٹری پی ایچ ایف بننے میں کامیاب رہے، خواجہ محمد جنید کو ایک بار پھر چیف کوچ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں جبکہ لاس اینجلس اولمپکس1984ء کی فاتح ٹیم کے کپتان منظور جونیئر کو سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا لیکن ان کی تشکیل کر دہ ٹیمیں بھی کامیابیاں نہ سمیٹ سکیں اور اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ میں ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد گرین شرٹس ٹوکیو اولمپکس 2020ء کی دوڑ سے بھی باہر ہو گئے۔

پاکستان نے آخری بار 1984ء میں اولمپکس ٹائٹل جیتا تھا جبکہ 1994ء میں اس نے آخری بار عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔بھارت میں 2010ء میں ہاکی ورلڈ کپ ہوا تو گرین شرٹس نے اپنی تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھائی تاہم اس کے بعد بتدریج اس کی کارکردگی زوال پذیر ہوتی گئی لیکن  آخری چند برسوں میں اس کی کارکردگی اس نہج پر پہنچ گئی۔

جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔2012 کے لندن اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم ساتویں نمبر پر آئی تھی۔ اگست 2013 میں پاکستانی ٹیم ایشیا کپ کاسیمی فائنل کوریا کے خلاف ہار گئی تھی جس کے سبب اسے اپنی تاریخ میں پہلی بار2014 کے عالمی کپ سے باہر ہونا پڑا تھا۔جولائی 2015 میں بیلجیم میں ہونے والے اولمپکس کوالیفائنگ ٹورنامنٹ میں پاکستان کو آئرلینڈ کے ہاتھوں چونکا دینے والی شکست کے نتیجے میں 2016 کے ریو اولمپکس سے باہر ہونا پڑا تھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان ہاکی میں اولمپکس سے باہر ہوگیا تھا۔

2018 میں پاکستانی ہاکی ٹیم کامن ویلتھ گیمز میں 10 ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی۔ چیمپیئنز ٹرافی میں ٹیم کو وائلڈ کارڈ کی وجہ سے شرکت کا موقع ملا لیکن وہ چھ ٹیموں میں آخری پوزیشن حاصل کر سکی جبکہ بھارت میں منعقدہ ورلڈ کپ میں وہ 16 ٹیموں میں 12ویں پوزیشن پر آئی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرح پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کی تقرری بھی حکومت کی خواہش کے مطابق ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فیڈریشن حکومتوں کے پسندیدہ افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں زیادہ تر سابق اولمپیئنز ہی نظر آئے ہیں لیکن ان سب کی سیاسی وابستگیاں انھیں ان عہدوں پر لاتی رہی ہیں۔موجودہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ابتک 68 کروڑ روپے کی گرانٹ مل چکی ہے۔ اس سے پہلے جو لوگ فیڈریشن چلا رہے تھے انھیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں مجموعی طور پر ایک ارب سے بھی زائد کی گرانٹ ملی تھی۔

لیکن بدقسمتی سے ملک میں ہاکی کے ڈھانچے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق استوار کرنے کے لیے بظاہر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ملک بھر میں اکیڈمیز کا جال بچھانے اور کوچنگ پروگرام کے بلند بانگ دعوے کیے گئے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔سال کے آخر میں پاکستان ہاکی کے لئے خوشی کی خبر یہ رہی کہ گرین شرٹس کو اپریل میں ملائشیا میں شیڈول سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ کا پروانہ جاری کیا گیا۔

 ایتھلیٹکس

پاکستان کے ایتھیلٹ اب تک ہاکی کے سوا تمام کھیلوں میں وائلڈ کارڈ کی بنیاد پر ہی اولمپکس میں شرکت کر پاتے تھے، لیکن ارشد ندیم اس ریکارڈ کو ختم کرتے ہوئے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ بنے جنھوں نے اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا ہے۔ارشد ندیم نے یہ کارنامہ 13ویں جنوبی ایشیائی کھیلوں کے دوران سرانجام دیا، جہاں انھوں نے جیویلن تھرو کے مقابلوں میں 86.23 میٹر دور تھرو کر کے ایشین اور نیشنل گیمز میں نیا ریکارڈ بنایا۔اس طرح انھوں نے سونے کا تمغہ جیتنے کے ساتھ 2020 میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کے لیے بھی براہ راست کوالیفائی بھی کیا۔

اسنوکر

سنوکر پاکستان کے ان چار کھیلوں میں شامل ہے جن میں وہ عالمی چیمپیئن بنا ہے۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد آصف ایک بار پھر عالمی چیمپئن بننے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے رواں برس ترکی میں کھیلے جانے والے مقابلے میں فلپائین کے جیفرے روڈا کو پانچ کے مقابلے میں آٹھ فریمز سے شکست دے کر عالمی سنوکر امیچر چیمپیئن شپ میں کامیابی حاصل کی۔ایک دہائی میں وہ دو مرتبہ عالمی چیمپیئن بنے ہیں۔محمد آصف نے ورلڈ امیچر سنوکر چیمپیئن شپ کا اعزاز پہلی مرتبہ 2012 میں حاصل کیا تھا۔ اس وقت وہ پاکستان کی جانب سے سنوکر کے عالمی چیمپیئن بننے والے دوسرے کھلاڑی تھے۔

باکسنگ

پاکستان اب تک اولمپک مقابلوں میں صرف 10 میڈلز ہی جیت سکا ہے، انفرادی طور پر میڈلز کی تعداد 2ہے۔پاکستان نے 1960 کے روم اولمپکس میں ریسلنگ مقابلوں میں پہلی بار کانسی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ دوسرا میڈل سول اولمپکس1988ء￿  میں حسین شاہ کی مرہون منت تھا،حکومت پاکستان نے جب باکسرز کے سروں سے ہاتھ اٹھا لیا تو انٹرنیشنل کامیابیاں بھی ایک، ایک کر کے روٹھتی چلی گئیں۔

تاریخ میں پہلی بار علی محمد، احمد علی عابد علی، نعمان کریم اور اصغرعلی شاہ کوالیفائنگ راؤنڈ میں شکستوں سے دو چار ہو گئے اور پاکستان تاریخ میں پہلی بار اولمپک2008ء میں شرکت سے محروم رہ گیا۔مایوسیوں اور ناکامیوں کے اس دور میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے باکسر محمد وسیم ایک درخشاں ستارہ بن کر سامنے آئے اورباکسنگ کے عالمی افق پر چھا گئے۔

محمد وسیم نے21 نومبر کو ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے میکسیکو کے سابق عالمی چیمپئن کو شکست دے کر دنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا ہے، دبئی میں شیڈول پاکستانی اور میکسیکن باکسرز کے درمیان یہ فائٹ آٹھ ویں راونڈ تک جاری رہی۔

جس کے بعد ریفری نے محمد وسیم کو فاتح قرار دے دیا۔محمد وسیم اس سے قبل ایشیائی گیمز2014 میں برونز، کامن ویلتھ گیمز 2010میں برونز،کامن ویلتھ گیمز 2014میں سلور، بنکاک میں شیڈول کنگز کپ2009 میں برونز، ورلڈ کامبیٹ گیمز2010 میں گولڈ، استنبول احمدجومرت باکسنگ 2010 میں برونز، جنوبی ایشیا گیمز ڈھاکہ2010 میں سلور، پریذیڈنٹ کپ جکارتہ 2011 برونز، شہید بے نظیربھٹو انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ اسلام آباد 2011 گولڈ میڈل جیت کر ملک وقوم کی نیک نامی میں اضافہ کر چکے ہیں۔محمد وسیم کی ان بڑی کامیابیوں کے باوجود حکومت کی طرف سے وہ پذیرائی نہیں مل سکی۔

جس کے وہ اصل حقدار ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں برس متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میںشیڈول فلائی ویٹ باٹ باکسنگ چیمپیئن میں محمد وسیم نے 13 ستمبر کو دبئی کے میرینہ باکسنگ ہال میں فلپائنی باکسر کو شکست دے کر چیمپیئن جیتی تھی۔پاکستانی باکسر نے فائنل میں فلپائنی باکسر کونراڈوسور کو محض 82 سیکنڈ میں چت ناک آؤٹ کرکے اعزاز اپنے نام کیا تھا۔محمد وسیم باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے کے بعد 15 ستمبر کو وطن پہنچے جہاں باکسنگ فیڈریشن کے عہدیداروں سمیت کسی اعلیٰ عہدیدار نے ان کا استقبال نہیں کیا تھا اور انہیں اعزاز جیتنے کے باوجود کرائے کی ٹیکسی پر گھر روانہ ہونا پڑا تھا۔

ملک کا نام روشن کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اپنا استقبال نہ ہونے پر محمد وسیم دلبرداشتہ بھی ہوئے اور انہوں نے ایک شکایتی ٹوئیٹ بھی کیا۔انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ’ انہوں نے ایئرپورٹ پر اپنے استقبال کے لیے فائٹ نہیں لڑی بلکہ انہوں نے یہ فائٹ اس لیے لڑی کہ دنیا بھر میں پاکستان کا شاندار استقبال ہو۔ پاکستانی باکسر محمد وسیم حکومت کی طرف سے سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے گلہ کرتے نظر آئے، ان کے مطابق باکسنگ میں وہ حصہ لیتے ہیں جو بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ ایسا کھیل ہے جو انسان کو سڑک سے اٹھا کر ارب پتی بنا دیتا ہے لیکن پاکستان میں ایسے بے شمار باکسرز ہیں جنہیں لوگ جانتے تک نہیں۔محمد وسیم کا کہنا ہے باکسنگ ایک مہنگا کھیل ہے اوران کے بقول پاکستان میں باکسروں کو تر بیت دینے کے لیے جدید جم، کلب اور دیگر ضروری چیزیں نہیں ہیں۔

ریسلنگ:

پاکستان میں شاید ریسلنگ ہی وہ کھیل ہے جس میں پاکستان کو ان گنت کامیابیاں دلائیں، ان فتوحات کو یقینی بنانے والے پاکستان میں ریسلنگ کے سلطان انعام بٹ ہیں۔ویسے تو انعام بٹ پاکستان میں سب سے کامیاب پہلوان ہیں جو گزشتہ دس برسوں کے دوران پاکستان کے لیے کئی طلائی تمغے جیت چکے ہیں، لیکن اگر ان سب میں سے یادگار مواقع کی بات کی جائے تو وہ بلاشبہ دولت مشترکہ کھیلوں میں جیتے جانے والے دو طلائی تمغے ہیں۔

انعام بٹ نے 2010 میں پہلا 2018 میں دوسری مرتبہ دولت مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتا۔ان کے میڈلز کی بات جائے تو جو سلسلہ انہوں نے 2010 میں شروع کیا تھا وہ دہائی کے آخر تک جاری رکھا اور 2019 کے جنوبی ایشیائی کھیلوں میں انہوں نے اپنے ٹائٹل کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے آٹھ دسمبر 2019 کو گولڈ میڈل جیت لیا۔انعام بٹ نے دولت مشترکہ کھیلوں کے علاوہ 2016 میں جنوبی ایشیائی کھیلوں اور بیچ ایشین گیمز، ورلڈ چیمپین 2017 اور 2018، ورلڈ بیچ گیمز 2019 میں گولڈ میڈل جیتا۔

 بیڈمنٹن

بیڈمنٹن کے افق پر ماحور شہزاد کا نام ابھر کر سامنے آیا۔ماحور شہزاد بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں جن کا نام بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن جولائی 2019 میں آنے والی کھلاڑیوں کی تازہ رینکنگ میں ٹاپ 150 کھلاڑیوں میں شامل ہوا۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔اس کے علاوہ ماحور شہزاد 2017 میں پاکستان انٹرنیشنل بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کے سنگلز میں سونے اور ڈبلز مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیت چکی ہیں۔

جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشیئن گیمز 2014 میں ماحور پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیںوہ پاکستان انٹرنیشنل 2016 میں دوسری پوزیشن پر آئیں جبکہ 2017 میں ہونے والے ٹورنامنٹ کی فاتح رہیں۔ماحور شہزاد نے بلغارین انٹرنیشنل چیمپیئن شپ 2019 میں کانسی کا تمغہ بھی جیتا جبکہ اسی سال 13ویں ایشین گیمز میں بھی وہ کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

کوہ پیمائی:

کوہ پیمائی کے حوالے سے یہ سال پاکستان کے لیے یادگار رہا۔پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے کوہِ ہمالیہ میں واقع دنیا کی چوتھی بلند ترین چوٹی لوسے سر کی، جو دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند14چوٹیوں میں سے چھٹی چوٹی تھی جو انہوں نے سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔وہ 2016 میں 8126 میٹر بلند نانگا پربت بھی سر کر چکے ہیں۔

لیکن یہاں پاکستانی کوہ پیمائی میں قابل ذکر نام دس سالہ سلینا خواجہ کا ہے جنہوں نے ملک کے لیے ریکارڈ قائم کیا۔سلینا خواجہ نے جولائی 2019 میں7027 میٹر بلند سپانٹک نامی چوٹی سر کی جسے ’گولڈن پیک‘ یا سنہری چوٹی کہا جاتا ہے۔ اس سنہری چوٹی کو سر کرنے کے بعد سلینا خواجہ سات ہزار میٹر بلند چوٹی سر کرنے والی دنیا کی سب سے کم عمر کوہ پیما بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

جنوبی ایشیائی گیمز:

پاکستان میں صرف کرکٹ میں ہی نہیں بلکہ تمام کھیلوں کا یہی حال ہے کہ کبھی تو بالکل ہی مایوس کر دیتے ہیں اور کبھی یقین ہی نہیں آتا کہ پاکستان ایسا بھی کر سکتا ہے۔اب حال ہی میں نیپال میں ہونے والی 13ویں جنوبی ایشیائی کھیلوں ہی کو دیکھ لیں جہاں پاکستان نے 132 میڈل جیت ڈالے۔پاکستان کی لاج کراٹے کاز، ایتھلیکٹس، ہینڈ بال ،ویٹ لفٹرز، اور ریسلرز نے رکھی، باکسنگ ،تائی کوانڈو ، ووشو، شمشیر زنی اور والی بال میں بھی پاکستان نے میڈلز حاصل کئے، ٹیبل ٹینس، کبڈی اور سوئمنگ میں پاکستان کا ہاتھ خالی رہا، ٹینس میں پاکستان سے گولڈ میڈل کی امید تھی جو پوری نہ ہوسکی۔

ماضی میں پاکستان کبڈی،سوئمنگ میں کامیابی حاصل کرتا رہا ہے مگر اس بار انکے کھلاڑیوں نے مایوس کیا،دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ کوئی زیادہ بڑا کارنامہ نہیں ہے اور پاکستان ان کھیلوں میں چوتھے نمبر پر ہی آیا ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ان دس سالوں میں ہونے والے تین جنوبی ایشیائی کھیلوں میں سے اس مرتبہ پاکستان نے زیادہ میڈل جیتے ہیں۔پاکستان نے ان جنوبی ایشیائی کھیلوں 2019 میں کل 132 میڈل جیتے جن میں 32 طلائی، 41 چاندی اور 59 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔جبکہ 2010 میں پاکستان نے کل 80 میڈل جیتے جن میں صرف 19 سونے کے تمغے تھے۔ اس طرح 2016 میں ہونے والے جنوبی ایشیائی کھیلوں میں پاکستان نے 106 تمغے جیتے تھے جن میں 12 گولڈ میڈل شامل رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔