حکومتی رٹ کہاں ہے؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  منگل 5 نومبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

افغانستان میں روسی مداخلت پھر نائن الیون کے بعد سے امریکی مداخلت کے بعد ہمارا پورا ملک ایک عذاب سے دوچار ہے، بلوچستان میں بدامنی، دہشت گردی، شورش و مزاحمت اور علیحدگی کی لہر اور خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں ڈرونز اور اندرونی و بیرونی دہشت گردی کی کارروائیاں اور کراچی میں بھتہ گیری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ڈاکا زنی، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور لیاری گینگ وار کی وارداتوں نے حکومت کی رٹ، معاشی اور سیاسی استحکام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں لسانی و فرقہ وارانہ فسادات، اغوا، قتل، دھماکوں، لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے معاملات نے پورے صوبے کے چہرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے، صوبے کے وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیے بغیر ڈائیلاگ میں ایک قدم آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں تا کہ صوبے کو فرقہ وارانہ تشدد اور بلوچ عسکریت پسندی سے چھٹکارا مل سکے۔ اگر وہ ناکام ہوئے تو یہ صرف ایک بلوچ کی ناکامی نہیں بلکہ پورے متوسط طبقے کی ناکامی ہو گی۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے لاپتہ افراد کے جس انسانی مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے اس پر ملک کی اعلا عدالتیں کئی سال سے بڑی جانفشانی سے کوشاں ہیں کہ کسی طرح اس انسانی المیے کے باب کو بند کیا جائے، لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے ساتھ ساتھ آیندہ کے لیے اس کا سدباب کیا جا سکے، لیکن اس سلسلے میں خفیہ اداروں اور خود حکومت کی جانب سے مسلسل جھوٹ و فریب اور تاخیری حربوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ سڑکوں پر احتجاج اور عدالتوں میں بین کر رہے ہیں۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے پیدل مارچ بھی شروع کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ اس انسانی مسئلے پر بار بار سرزنش اور احکامات جاری کرنے کے باوجود سر پٹخ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں عدالت عالیہ پشاور کے چیف جسٹس جناب دوست محمد خان نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران وا شگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ بیرونی ایجنسیاں ہماری ایجنسیوں کو استعمال کر کے عدلیہ کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ ہمیں غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے ہماری اپنی ایجنسیاں جنھیں ہم نے مختلف اوقات میں غیر ملکی ایجنسیوں سے بچایا وہ بھی ان کے ساتھ مل گئی ہیں۔ ہم ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، حکومت کیا کر رہی ہے، آواز نہ اٹھائی تو امریکا کل ہمارے شہروں میں بھی آپریشن کی جرأت کرے گا، جب تک اسٹیبلشمنٹ امریکی امداد پر انحصار نہیں چھوڑے گی امریکا حملہ کرتا رہے گا۔ ملا برادر کو غیر ملکی دبائو پر رہا کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم اور صدر کے پاس کسی قانون کے تحت رہائی کا اختیار نہیں ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کو بنیاد بنا کر عسکریت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے تو شمالی علاقہ جات اور کے پی کے میں ڈرون حملوں اور امریکی مداخلت کو جواز بنا کر دہشت گردانہ کارروائیاں اور دہشت گردی کو جواز بنا کر ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں۔

کراچی شہر اور خصوصاً لیاری کے علاقے میں بھتہ خوری، اغواء، قتل، فائرنگ، گرینیڈ اور راکٹوں کے حملے گینگ وار کے کارندوں کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں خود اس گینگ سے وابستہ افراد کے علاوہ بے گناہ شہریوں جن میں عورتیں اور بچے بوڑھے بھی خاصی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ اچانک لاکھوں شہری کئی کئی دن گھروں میں محبوس رہنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، بعض خاندانوں پر فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے۔ جانوروں کی بھوک سے ہلاکت کی خبریں بھی آ رہی ہیں، بڑی تعداد میں لوگ شہر کے مختلف علاقوں اور بیرون شہر نقل مکانی کر چکے ہیں۔ جدید ہتھیاروں سے مسلح جرائم پیشہ عناصر کے سامنے پولیس تو مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ رینجرز کو بھی غیر معمولی حالات میں علاقے میں داخل ہونا مشکل پڑ جاتا ہے اور ان کی جانب سے کسی کارروائی اور آپریشن، غیر اعلانیہ کرفیو، چھاپوں اور گرفتاریوں کی صورت میں بھی شہری زیادہ متاثر ہوتے ہیں، پولیس اور رینجرز دہشت گردوں اور گینگ وار کے کارندے ہدف بنتے ہیں، پولیس اہلکاروں کی صرف رواں سال میں 143 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں سے 16 کا تعلق سائٹ تھانے سے تھا۔

اس تھانے کے اہلکاروں نے خوف زدہ ہو کر حفاظتی طور پر مرکزی دروازہ بند کر لیا ہے۔ داخلہ کے لیے شناختی کارڈ دکھانا لازمی کر دیا گیا ہے۔ کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی ڈاکو، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں، مصروف ترین شاہراہوں، تجارتی مراکز، پلوں، انڈر پاس، شادی ہالوں، تعلیمی اداروں میں جرائم پیشہ عناصر آناً فاناً کارروائیاں کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ عوام میں عدم تحفظ، خوف اور جان و مال کی ارزانی کی وجہ سے مزاحمت کا جذبہ ختم ہو کر رہ گیا ہے، جو مجرموں کو مزید حوصلہ اور طاقت بخش رہا ہے، انسانی جانوں کے بے دریغ اتلاف، بھتہ خوری، اغوا، تاوان، ڈاکے، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی و لسانی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے رینجرز اور پولیس کی مدد سے ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا گیا تھا تا کہ بے قابو ہوتی صورت حال کو کنٹرول اور حکومت کی رٹ کو قائم کیا جائے۔

اس آپریشن میں کافی تعداد میں اسلحہ و بارود، دستی بم و دیگر سامان برآمد کیا گیا، کافی تعداد میں ملزمان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ رینجرز کے سیکٹر کمانڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کراچی شہر میں صرف حلال روزی کمانے والا شریف آدمی رہے گا، جرائم پیشہ عناصر یا تو بھاگ جائیں گے یا ختم ہو جائیں گے اور یہ آپریشن ملزموں کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود مقتولوں کی تعداد میں تو کچھ کمی بیشی آ جاتی ہے مگر بھتہ خوری تک ختم نہیں ہوئی۔ شہری جان و مال کے خوف سے خاموشی سے بھتہ ادا کر رہے ہیں۔ CPLC اور SIU کے انسداد بھتہ سیل کی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آئی، شہر میں سیاسی، لسانی، فرقہ وارانہ جماعتیں لیاری گینگز کے عناصر اپنی اپنی جماعتوں و گروہوں کی کثیر المقاصد سرپرستی میں مصروف عمل ہیں، ہر ایک بڑی بے خوفی سے اپنے ذاتی و گروہی مفادات، مقاصد کے حصول کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے گزشتہ دنوں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے موقع پر کہا کہ کالے دھن نے کراچی کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کراچی کی معیشت پر قبضہ چاہتے ہیں، کالا دھن شہر کی بدامنی کو ایندھن فراہم کر رہا ہے، منشیات مافیا اتنی مضبوط ہے کہ اعلیٰ فوجی افسران بھی اس کے خلاف کارروائی کرتے ڈرتے ہیں۔ میجر جنرل رینک کا افسر بھی اسمگلنگ کے گڑھ یوسف گوٹھ اور سہراب گوٹھ کے نام سے گریزاں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے عناصر کو سیاسی، اخلاقی اور معاشی مکمل حمایت حاصل ہے۔ سیاسی جماعتیں جو کراچی میں عوامی نمایندہ ہونے کی دعویدار ہیں وہ ان جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ وہ شہر میں امن و امان کی بحالی، معیشت کی بہتری اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے، اس موقع پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ کراچی کو اسلحے و منشیات سے پاک کیا جائے، ملک ایسے نہیں چلتے اگر یہی حالات رہے تو کراچی ہمیں خدا حافظ کر دے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔

حکومت سیکیورٹی پر کھربوں روپے خرچ کر رہی ہے، روز روز نئی قانون سازیاں کی جا رہی ہیں، کراچی جیسے شہر میں بھتہ، اغوا، تاوان، منظم صنعت اور قتل عام کاروبار کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، سی آئی اے سینٹر سے لے کر حساس فوجی مراکز تک دہشت گردی و تخریب کاری سے محفوظ نہیں ہیں، سرمایہ، دیانت اور افرادی قوت ملک سے باہر منتقل ہو رہی ہے، عدالتیں ملکی مستقبل کے لیے جتنی متفکر ہیں اور جو اقدامات تجویز کر رہی ہے اور احکامات جاری کر رہی ہیں، اتنا فعال کردار ملک کا کوئی دوسرا ادارہ سرانجام نہیں دے پا رہا ہے۔ اگر حکومت نے اصلاح احوال کے لیے اپنی حکمت عملی اور پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو نہ جانے ہمیں کس کس کو خدا حافظ کہنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔