اسلحہ سے پاک معاشرہ

کشور زہرا  منگل 5 نومبر 2013

انسان کی طاقت اگر زور بازو تک ہوتی تو بستیاں محلے اور گلیاں اسلحے کے زور پر نہ روندی جاتیں، اور اس سے قتال کی وہ شکل نظر نہ آتی جو آج آ رہی ہے۔ جرم کے محرکات بہت سارے ہیں، جرم لالچ، ضرورت، تھرل اور مجبوری کی بنیاد پر بھی ہوتا ہے، ہر صورت میں جرم کا فائدہ کسی ایک کو اور نقصان زیادہ لوگوں کو ہوتا ہے، جرم کے نفسیاتی پہلو پر پورا دفتر لکھا جا سکتا ہے، اس کی وجوہات سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ملیں گی لیکن سرِ دست اس نکتے کی طرف توجہ دینی ہو گی جس نے جرم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دی، اور وہ ہے جائز اور ناجائز دونوں طرح کے اسلحے کی بھرمار، جس کی طاقت نے انسانیت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ ناجائز اسلحہ وہ جس نے کبھی ڈکیتی کی صورت میں، کبھی باہمی رنجشوں کے سبب، تو کبھی اس کی طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات وہ خواہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں، گروہی ہوں، دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش، اور جائز اسلحہ وہ جسے عموماً رکھنے والے نہ صرف اس کے مالک و مختار بلکہ بیشتر اسلحہ کے استعمال کے لیے ایسے شتر بے مہار بن جاتے ہیں کہ اپنے بے قابو جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قتل کا بازار گرم کرنا جیسے ان کو حق حاصل ہو۔

پھر ان دونوں طرح کے اشخاص کے لیے آہ و بکا، خون، ہچکیاں سب بے معنی ہوتی ہیں اور جب سرکاری حکم پر ایسا کیا جاتا ہے تو حکم دینے والا اگر دو گولی کی بات کرتا ہے تو چلانے والا چھ گولیاں چلاتا ہے، خواہ اس کی خطا اتنی بڑی نہ ہو جتنی بڑی سزا اس کا مقدر بنا دی جاتی ہے، حتیٰ کہ نشانہ بننے والا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جب کہ ہمارا تعلق دین ابراہیمی سے ہے جو انسان کی قربانی کو جانور کی قربانی میں تبدیل کر کے انسان کی زندگی کی حرمت کا اعلان کر تا نظر آتا ہے۔ انسان کی زندگی اس کا قیمتی ترین اثاثہ ہے اور جینا پہلا بنیادی حق، لیکن آج یہ قیمتی ترین چیز جتنی ارزاں ہے ایسی پہلے کبھی نہ تھی۔ ہمارے گلی کوچے آج خون میں غلطاں نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر میں ہونے والے خون خرابے کا سبب وہ اسلحہ ہے جو بغیر کسی چیک کے بے خوف و خطر شہر میں ڈمپ کیا جاتا رہا ہے۔

کراچی میں بڑھتا ہوا احساسِ محرومی احساسِ یتیمی میں تبدیل ہو رہا ہے، جس کا سبب مسلح جرائم پیشہ افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک مسلح لوگ ہی جب ان کی جرائم پیشہ افراد پر دسترس نہیں ہو پاتی تو یہ اپنی نفری پوری کرنے کے لیے نہتے افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشی ناہمواری، معاشرتی ناہمواری کا سبب بنتی ہے اور انصاف کی بروقت قانونی فراہمی میسر نہ ہونے نے معاشرے میں عدم توازن کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ جرائم کی بیخ کنی اور شہر میں امن و سکون کے نام پر جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ یوں لگتا ہے آگ کو پانی سے ٹھنڈا کرنے کے بجائے آگ سے آگ کو بجھانے کی کوشش اور جیسے دو ہاتھیوں کی لڑائی جس میں معصوم شہری گنے کے کھیتوں کی طرح اجڑ رہے ہیں۔ وہ اس طرح کہ غیر قانونی محاصرے، جرائم پیشہ افراد کی تلاش میں گھر گھر قانون نافذ کرنے والے مسلح اہلکاروں کا نہتے لوگوں کی تلاشی لینا اور یوں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔

انسان کے بنیا دی حق زندگی کے تحفظ کے لیے ہم اسلحے سے پاک معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ قانونی اور غیر قانونی اسلحے کی فراوانی نے سب سے زیادہ نقصان انسانی زندگی کو پہنچایا ہے۔ ایک منظم اور پرسکون شہر میں اسلحے کے زور پر بڑھتی ہوئی لاقانونیت، جس کے سبب ہونے والی ہلاکتوں اور شہادتوں نے خوف کے ایسے سائے پھیلا دیے جس سے سرمایہ بیرونِ ملک مائل بہ پرواز ہے اور جس کے نتیجے میں بے روزگاری جنم لے رہی ہے، اور یہ ایک ایسا سائیکل ہے جہاں بے روزگاری سے جرائم کی ابتدا ہوتی ہے۔ مجھے اپنی دادی کا کہا ہوا ایک جملہ بہت یاد آتا ’’چور کو مت مارو، چور کی ماں کو مارو‘‘۔ بندوق از خود نہیں چلتی اسے کسی کا ہاتھ چلاتا ہے، وہ ہاتھ خود نہیں چلتا اس کے محرکات ہوتے ہیں، ان محرکات کے پیچھے یقیناً کبھی انفرادی اور کبھی اجتماعی طور پر انسانی حقوق سے بے بہرہ ایک قاتلانہ سوچ ہوتی ہے۔ میں اگر اپنی دادی کی بات پہ جائوں تو وہ ہتھیار بنانے والوں تک جاتی ہے، اسلحہ کی تیاری اور خرید و فروخت مقامی سطح پر ہو، ملکی سطح پر ہو یا بیرونی ممالک سے رسد جاری ہو، کیا یہ رسد محض تجارت کا فروغ ہے یا انسانوں، گروہوں اور کسی بھی ملک کی عوام کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر رکھنے کا ایک عمل۔ یکجہتی کا سم قاتل۔

انسان نے ہر معاہدہ امن کے لیے کیا۔ جنگ، اسلحے اور بارود سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ بنا ڈالی، ان کوششوں سے دائرے تو محدود ہوئے لیکن جنگ ختم نہیں ہو سکی حتیٰ کہ بعض محاذوں پر تمام تر گفت و شنید اور معاہدوں اور عوامی خواہشات کے باوجود سرحدوں پہ گولہ اور بارود کی فضا دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ اسلحے کی جاری پروڈکشن ہے، معیشت ضروریات زندگی کے بجائے اسلحے کے فروغ پر چل رہی ہو تو تب ہی اسلحے کی طلب کے حالات پیدا کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کے ذہن میں خوبصورت پلاسٹک کے مصنوعی ہتھیار، کھلونوں کی صورت میں ان کا رجحان سچے ہھتیار چلانے کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ گو ایک حقیقت ہے کہ دوسری عظیم جنگ کے بعد جو لڑائی تھمی اس کے بعد ایک سوچ یہ بھی پیدا ہوئی کہ ایٹم بم ڈرانے کے لیے اور اسلحہ دکھانے کے لیے رہ گیا ہے۔ لیکن جو بھاری اسلحہ بن چکا تھا اس کی فروخت بھی ضروری تھی، اس کا چلنا بھی ضروری تھا، اس لیے بڑے پیمانے پہ نہ سہی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں اس کی طلب بڑھانا اور یوں ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اس کی پروڈکشن سے معیشیت بھی مضبوط اور اس کی فروخت سے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کامیابی کی ضمانت بن گئی۔

روس نے سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور رائٹ پول سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایٹمی طاقت حاصل کی اور اسٹار وار پروگرام میں سب پر سبقت لے گیا، مہلک ہتھیاروں کی تیاری نے اسے زندگی کی لازمی ضرورتوں سے بے خبر کر دیا، نتیجتاً سوویت روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، برطانوی راج کا سورج ڈھلنا نہیں تھا لیکن اسلحے کی بھرمار کی وجہ سے بہت ساری ریاستوں نے جنم لے لیا، جب کہ وہ معاشرہ جس نے اپنے آپ کو اسلحے سے پاک کیا اس کی مثال سوئزرلینڈ ہے، جس کے بینک کا نظام اس لیے مضبوط ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سرمایے اور امن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور اسلحہ امن کا دشمن۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔