کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

شیریں حیدر  اتوار 29 دسمبر 2019
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ تم نے میرے بیٹے سے پوچھا کہ آج اس کی کرسمس کی چھٹی ہے؟ ‘‘ میری ہمسائی نے مجھ سے سوال کیا۔ ا س کے لہجے میں کچھ عجیب سا تھا۔

’’ جی ہاں ‘‘ میںنے مختصر جواب دیا، ’’ کیوں ؟ ‘‘

’’ واقعی؟ ‘‘ اس نے چتون چڑھائے، ’’ یعنی تم نے اسے گمراہ کرنے کی کوشش کی؟ ‘‘

’’ تو کیا آج کرسمس نہیں ہے؟ ‘‘ میںنے دل ہی دل میں اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی کوشش کی۔

’’ استغفر اللہ… اب تمہارے جیسے لوگ ہمارے بچوں کے اذہان کو اس طرح پراگندہ کریں گے!! ‘‘

’’ اس سے یہ پوچھنے سے کہ کیا اسے کرسمس کی چھٹی ہے، اس کا ذہن پراگندہ ہو جائے گا اور اور وہ گمراہ بھی ہو سکتا ہے؟ ‘‘

’’ تو اور کیا؟ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان میں پچیس دسمبر کو قائد اعظم کے یوم پیدائش کی چھٹی ہوتی ہے‘‘

’’ سو تو ہے، مگر ساری دنیا کو معلوم ہونے والی بات میں کچھ زیادہ مبالغہ ہو گیا ہے۔ ن لیگ والے تو سمجھتے ہوں گے کہ اس روز ان کے قائد کی پیدائش کی وجہ سے چھٹی ہوتی ہے اور دنیا بھر میں بلا شک اس دن کو حضرت عیسی ؑکی پیدائش کے دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ ہم بھی حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے منکر نہیں تو اگر ہم اسے حضرت عیسی ؑکی پیدائش کا دن اور کرسمس کا دن کہہ دیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ‘‘ میں نے سوال کیا، ’’ کیا اس سے ہمارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے؟‘‘

’’ لیکن جب ہمارے بچوں کو علم ہے کہ یہ قائد کی پیدائش کا دن ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے… ‘‘

’’چند سال پہلے تک ، جب تک ہم طالب علم تھے تو سالانہ سرکاری چھٹیاں تیئس مارچ کو یوم پاکستان ، اکیس اپریل کو علامہ اقبال کے وفات، چودہ اگست کو یوم آزادی، گیارہ ستمبر کو قائد کی وفات کا دن، نو نومبرکو یوم اقبال یعنی علامہ اقبال کی پیدائش کا دن اور پچیس دسمبر کو قائد کی پیدائش کاد ن… یہ چھٹیاں یوم عاشور، جمعتہ الوداع، یوم حج اور عیدین کے علاوہ ہوتی تھیں ۔ اب جب کہ عیدین کے علاوہ سب چھٹیاں منسوخ ہو چکی ہیں تو فقط یوم قائد کی چھٹی ہم اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن کو ہم کرسمس کی چھٹی کہہ دیں گے تو کہیں ہم پر غیر اسلامی حرکت کرنے کا فتویٰ نہ لگ جائے !!‘‘

’’ پاکستان میں کرسمس کی چھٹی کیوں ہو گی بھلا؟ ‘‘

’’ کیوں پاکستان میں کیا اقلیتیں آباد نہیںہیں، اس ملک میں غیر مسلموں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ ‘‘

’’ تو صرف عیسائیوں کے لیے یہ کہنا بجا ہے کہ یہ کرسمس کی چھٹی ہے، ہمارے بچوں کو اس کا علم ہونا کیا ضروری ہے؟ ‘‘

’’ میرے کہنے سے پہلے آپ کے بچے کو علم نہیں تھا کہ آج کرسمس ہے؟ اس کے اسکول میں ہونے والی ہیلووینHalloween پارٹی کی تصویریں آپ نے مجھے دکھائی تھیں، ویلنٹائن ڈے پر بھی وہ اسکول اپنی ٹیچر کے لیے پھول لے کر جاتا ہے اور گھر واپسی پر آپ کے لیے اپنے ہاتھ سے کارڈ بنا کر لاتا ہے، وہ سب اسلامی تہوار ہیں کیا؟ ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا، ’’کیا واقعی آپ نے سنجیدگی سے اس کا برا منایا ہے، کیا یہ سب آپ اور آپ کے بچوں کے قول و فعل کا کھلا تضاد نہیں ہے، ہمارے رویوں میں اتنی منافقت کیوں ہے؟ ‘‘ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔

دنیا کے کئی ملکوں میں ، جہاں مسلمان اقلیتیں ہیں یا تیسرے درجے کے شہری ہیں، جب ان ممالک میں ، ماہ رمضان میں مسلمانوں کے سحر اور افطار میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے، تو ہم سوشل میڈیا پر اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے کہ دیکھیں ہمارے ملک میں اشیائے ضروریہ گراں کر دی جاتی ہیں اور غیر ممالک میں ان کی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے۔

جب کسی غیر اسلامی ملک میں مسجد نہ ہونے کے باعث، اس ملک کے شہری، حکومت اور انتظامیہ اپنے چرچ میں مسلمانوں کے لیے نماز کے لیے اوقات نماز میں جگہ مختص کر دیتی ہے، تو بھی ہم ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں پر جب وہاں کی وزیر اعظم اسلامی لباس پہن کر مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے آئیں، دکھ میں شریک ہوئیں، مسجد کی مرمت کے عرصے میں ، نماز کے لیے متبادل جگہ فراہم کی، لاکھوں لوگوں نے ساکت اور خاموش کھڑے ہو کر پہلی دفعہ وہاں کی فضاؤں میں گونجنے والی اذان اور خطبے کی آواز سنی تو ہمارے دلوں میں قوت ایمانی کئی گنا بڑھ گئی اور ہم نے اسے بہت سراہا۔

ہمارے ہاں کوئی سربراہ مملکت جب کسی اقلیت کے حقوق کی بات کرتا ہے تو ہم اسے غیر مسلم کا خطاب دے دیتے ہیں، اس پر کفر کا فتویٰ دے کر اسے واجب القتل کہہ دیتے ہیں۔ امریکا اور کینیڈا کے سربراہان یوم عید ٹیلی وژن پر آ کر مسلمان آبادی کو اردو میں عید مبارک کہتے ہیں تو ہمارے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ کیا ہمارا اتنا ظرف ہے کہ ہم اپنے کسی سربراہ مملکت کو اجازت دیں کہ وہ پچیس دسمبر کو ملک میں بسنے والے عیسائیوں کو کرسمس مبارک کہے یا ہندو آبادی کو ہولی اور دیوالی کی مبارک باد دے۔

دوسرے ممالک سے آنے والے تمام سربراہان ہمارے ملک کی اہم مساجد جیسے فیصل مسجد یا بادشاہی مسجد کا دورہ ضرور کرتے ہیں، ہم انھیں تو اپنی مسجدوں میں پر تپاک طریقے سے لے جاتے ہیں لیکن ہمارے محلے کا جمعدار ہماری مسجدمیں چلا جائے تو ہم کہیں گے کہ اس نے اپنے قدم رکھ کر ہماری مسجد کو ناپاک کردیا ہے۔

اپنے گھروں میں صفائی کے کام کے لیے آنے والے جمعداروں اور جمعدارنیوں کے لیے تو ہم نے پانی اور چائے کے کپ بھی علیحدہ رکھے ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنے ’’ ناپاک ‘‘ ہاتھوں سے ہمارے کسی برتن کو چھو جائیں یا ان کا ہاتھ ہمارے کسی کپڑے کو لگ جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ان کپڑوں سے نماز نہیں ہو گی، ان کے ہاتھ کسی تولیے کو لگ جائیں تو اسے بھی ہم دھو کر پاک کرتے ہیں ۔ لیکن جب ہم دوسرے ممالک میں یا اپنے ملک میں بھی کسی ریستوران میں جاتے ہیں تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ مگر اس میں کام کرنے والے سب مسلمان ہیں کہ نہیں، کھاناپکانے والے اور برتن دھونے والے کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔

چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہمارے مذہب کو بڑے بڑے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں… ہمارا دھیان ہی بڑی غلطیوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی مین میخ کی طرف جاتا ہے۔

’’ معاف کردیں ، اگر آپ کو لگا ہے کہ میں نے آپ کے بیٹے کو کوئی ایسی بات بتا دی ہے جو اسے پہلے سے معلوم نہ تھی یا جس کا جاننا اس کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ‘‘ میںنے ان سے معافی مانگی ۔ ان کے جانے کے بعد بھی میں سوچ رہی تھی کہ ہماری سمت کون سی ہے، ہمیں خود بھی معلوم نہیں ۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔