مودی کا ایجنڈہ: ہندوستان صرف ہندوؤں کا  !! ؛ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی اداروں کی خاموشی دوہرا معیار ہے

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

نریندر مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آتے ہی ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔

پہلے کشمیر میں کرفیو لگایا گیا جو 150 سے زائد دن گزرنے کے باجود تاحال نہیں ہٹایا گیا، پھر آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی گئی اور اب شہریت بل سے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دی گئی ہیں۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کے خلاف کشمیر سمیت پورے بھارت میں مظاہرے ہورہے ہیں اور اس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگ بشمول ہندو بھی شریک ہیں۔

اس سارے معاملے کی اہمیت دیکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’بھارتی انتہا پسندی اور عالمی اداروں کی خاموشی‘‘ کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 بریگیڈیئر(ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ بہت سارے محرکات ہیں۔ اس میں پاکستان، کشمیر، شہریت بل و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں جو تحریک چل رہی ہے اس کی ایک وجہ تو شہریت بل ہے مگر ان مظاہرین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح بھارتی آئین سے متاثر ہوئے ہیں۔

1976ء میں بھارت نے آئینی ترمیم سے سیکولرازم کی تعریف کی اور مذہبی تعلیمی اداروں کو ریاستی کنٹرول میں رکھا۔ امبیڈکر نے جو آئین بنایا اس کے مطابق اقلیتیں اپنی شناخت سے خود کی پہچان نہیں کرواسکتی، مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان ہے۔ کرناٹکا میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی جو تقریباََ 11 کروڑ ہے، کو ہندو آبادی کے طور پر شمار کیا گیا ۔

اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 30 کروڑ مسلمان ہیں حالانکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہیں۔ 2020ء میں سکھوں کے ساتھ عہد بھی ختم ہورہا ہے اور اب انہوں نے اپنی تحریک شروع کرنی ہے۔ اس سے بھارت میں ہندو آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔کہا جا رہا ہے کہ 2030ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے گی جسے مدنظر رکھتے ہوئے اب شہریت بل جیسے اقدامات کیے جارہے ہیں اور وہ اس مسئلے کو پہلے ہی حل کرلینا چاہتے ہیں۔

بھارت میں تفریق دو طرح کی ہے، ایک اکثریت کے اقتدار جبکہ دوسری مذہب کی ہے، وہ مسلمانوں کی اکثریت نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کو ہندوستان میں پنپنے دینا چاہتے ہیں۔ آسام میں ہندوؤں کی اکثریت ہے مگر وہ بھی شہریت بل کے خلاف بول رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو رجسٹرڈ کریں گے تو ہمارا توازن خراب ہوجائے گا۔ بھارت میں کانگریس و دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ مذہب کے نام پر تفریق نہ پھیلائی جائے ، اس لیے وہ مودی سرکار کے خلاف کھڑی ہیں۔ بابری مسجد کا فیصلہ بھی مذہبی انتہا پسندی کا عکاس ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے جواب کے باوجود ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ بھارت کے معاشی حالات بھی خراب ہیں،وہاں تاریخ کی سب سے بڑی بے روزگاری ہے لہٰذا اب اس کی یہ کوشش ہوگی وہ پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کرکے اپنی ناکامیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹائے۔ پاکستان اندرونی مسائل کا شکار ہے، اداروں میں تناؤ ہے جبکہ بھارت اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے مسائل جلد از جلد حل کرنا ہوں گے۔کوالالمپور سمٹ میں نہ جانا ہمارے لیے نقصاندہ ہے۔ اس کا تعلق صرف کشمیر سے نہیں بلکہ ’ایف اے ٹی ایف‘ سے بھی ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں چین، ترکی اور ملائیشیا نے سپورٹ کیا تھا ، اگلی میٹنگ چین میں ہونے جا رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی اور ملائیشیا کا کیا ردعمل آتا ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا میں شہریوں کی رجسٹریشن کا کام کیا، اب مودی بھی وہی کر رہا ہے لہٰذا یہ ایک ہی پالیسی کا تسلسل ہے۔

اس لیے بھارت پر عالمی دباؤ نہیں آئے گا بلکہ اس کا اندرونی دباؤ ہی مودی کے اقدامات کو روک سکتا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کو 150 دن سے زائد ہوگئے، وہاں عالمی اداروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں جبکہ اقوام متحدہ بھی اس پر خاموش ہے جو افسوسناک ہے۔ ہاؤس آف فارن افیئرز کمیٹی میں دو قراردادیں پیش ہوئیں، عالمی سطح پر یہ آواز بلند ہورہی ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں لہٰذا ہمیں اس موقف کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

عالمی سیاست میں اخلاقیات نہیں مفادات ہوتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے وہ خاموش ہیں۔ مودی نے الیکشن میں پاکستان اور اسلام مخالف بیانیہ دیا جس پر انہیں ووٹ ملے۔ آر ایس ایس کا تو فلسفہ یہ ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے۔

لہٰذا مسلمان یا تو ہندو مذہب اختیار کرلیں یا ہندوستان چھوڑ دیں۔ اب شودی اور سنگھٹن کی تحریکوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی ایک کے بعد ایک ایسا قدم اٹھا رہے ہیں جو اسلام اور پاکستان مخالف ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی، شہریت بل و دیگر اقدامات اسی کا تسلسل ہیں۔

بابری مسجد کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی ہندووآتہ کے دباؤ میں ہے اور یہ فیصلہ قانون اور حقائق کے مطابق نہیں تھا۔ اگر بھارتی سپریم کورٹ قانون کے مطابق فیصلہ کرتی تو اس کے خطرناک نتائج بھگتنا پڑ سکتے تھے۔کشمیر ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ آج 70 برس بعد پاکستان اقتصادی طور پر آگے نہیں بڑھ سکا تو اس کی وجوہات میں جہاں کرپشن و دیگر مسائل رہے وہاں کشمیر کا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ ہمارے دفاعی اخراجات زیادہ ہوئے۔ اب بھی کشمیر کی حالت سب کے سامنے ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہماری وجہ سے کشمیر کاز کو کتنا فائدہ ہوا اور اس میں ہمیں کس ملک نے سپورٹ کیا؟ ترکی، ملائیشیا اور ایران کی معیشت نے کافی ترقی کی۔ یہ ایسے مسلم ممالک ہیں جنہوں نے تیل کے ذخائر سے نہیں بلکہ معاشی اصلاحات سے ترقی کی۔ طیب اردوگان نے گزشتہ 10 سے 15 برسوں میں ترکی کو بہت بہتر بنا دیا۔ اسی طرح مہاتیر محمد نئے ملائیشیا کے بانی ہیں۔ ایران کی بات کریں تو تمام تر پابندیوں کے باوجود ا س کی معیشت آج بھی بہتر ہے۔

ان تینوں ممالک نے اپنے معاشی مفادات کی پرواہ نہ کیے بغیر ہمیں مسئلہ کشمیر میں سپورٹ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں زبردست تقریر کی تھی مگر جب عمل کرنے کا وقت آیا تو ہم نے کیا کیا۔ میرے نزدیک پاکستان نے کوالا لمپور سمٹ میں نہ جاکر بہت بڑی غلطی کی۔ یہ ملکی تاریخ میں خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

ہم نے دنیا کو تاثر دیا کہ ہم محتاج ہیں حالانکہ یہ موقع تھا کہ ہم بھرپور طریقے سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے۔کوالالمپور سمٹ میں ہمارے جانے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا،ا س پر ہمیں سعودی عرب کو قائل کرنا چاہیے تھا کہ ہمارے وہاں جانے سے ’او آئی سی‘ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ او آئی سی 57 ممالک کا بلاک ہے جبکہ کوالالمپور سمٹ میں 18 سے 20 ممالک اکٹھے ہوئے تھے لہٰذا وہ کس طرح ’او آئی سی‘ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ایسا تعلق بن رہا تھا جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انتہائی اہم تھا لہٰذا ہم نے وہاں نہ جاکر کشمیر کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔

اب نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور وزیراعظم اس حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں۔ طیب اردوگان کو پاکستان دورے کی دعوت دی جارہی ہے جبکہ مہاتیرمحمد کے ساتھ بھی معاملات نارملائز کرنے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

طیب اردوگان مضبوط لیڈر ہیں، انہوں نے بغیر کسی پرواہ کے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کیوں نہیں کی۔ افسوس ہے کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کا پوری طرح سے ادراک نہیں ہے، اگر ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ جس نریندر مودی کے خلاف ہم آواز اٹھا رہے ہیں، جو کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، اسے ہمارے برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات  اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور  پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اب ہم نے ترکی، ملائیشیا اور ایران کو بھی سمٹ میں نہ جاکر ناراض کیا ہے۔

لہٰذا  بھارت پر دباؤ کیسے ہوگا؟اب مغرب و اقوام متحدہ سے کس طرح بھارت پر دباؤ کی امید کی جاسکتی ہے۔ بھارت کی معیشت گرتی جارہی ہے، لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے لہٰذا مودی حکومت کے پاس اب پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کی کوشش کرسکتا ہے۔ بھارت میں 30 کروڑ مسلمان ہیں جن کی کوئی الگ پہچان نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جماعت ہے، اگر یہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجائیں تو ہندوستان میں اپنے مسائل حل کروا سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں خلفشار ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت ہے جو لمحہ فکریہ ہے، ایسے حالات میں دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کشمیر و بھارت کے مسلمانوں کو صرف پاکستان ہی مدد کرسکتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے اندرونی مسائل حل کرنا ہوں گے تاکہ ہم خطے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز احمد
( پروفیسر شعبہ سیاسیات ، جامعہ پنجاب )

بھارت کا شہریت بل جو اب قانون بن چکا ہے، یہ بھارتی حکومت کا حق ہے اوروہ اپنے اندرونی معاملات کو دیکھتے ہوئے قانون سازی کرسکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت میں جو قومیں سمجھتی ہیں کہ یہ بل ان کے خلاف ہے، اس پر ان کا ردعمل کیسا ہے اور کتنا سخت ہے۔

بھارت نے پہلے آرٹیکل 370 اور 35 (اے)کے خاتمے سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے عالمی طاقتوں کا امتحان لیا، اس پر کشمیر میں بسنے والے 80 لاکھ مسلمانوں کا بھی وہ ردعمل سامنے نہیںآیا جو آنا چاہیے تھا۔

اسی طرح اب مسلمانوں کے حوالے سے بھارت میں جو قانون سازی کی گئی ہے اس پر وہاں رہنے والے 25 کروڑ مسلمانوں کو سخت ردعمل دینا ہوگا کیونکہ جب تک مقامی کمیونٹی کھڑی نہیں ہوگی تب تک کوئی دوسرا ملک بھارت کو قانون تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔بھارت کے اندرونی حالات کا جائزہ لینے کیلئے دیکھنا یہ ہے کہ اس کی معیشت کی حالت کیا ہے؟ اس وقت نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں بھارت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس اور سنگاپور سرمایہ کاری کرنے والے دنیا کے 5بڑے ممالک ہیں۔ ان کے بعد متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب ہیں۔

ان سب نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ابھی مزید کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ممالک نے ایسے ملک میں سرمایہ کاری کی جو سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کیلئے خود نریندر مودی سب سے بڑا دشمن ہے جو دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ میرے نزدیک بھارت کے اندرونی حالات کا سرحدوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا بلکہ صرف بھارت پر ہی ہوگا۔ اب بھارت کی معیشت گر رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کا جی ڈی پی سکڑ رہاہے۔

اعداد و شمار دیکھیں تو بھارت کا معاشی نمو 8 فیصد سے گر کر 4 ،5 فیصد کے قریب ہے تاہم عالمی مالیاتی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ وقعتی طور پر ہے، اس میں بہتری آئے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر بھارت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں بھارت سے خوفزد ہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے، اداروں میں اصلاحات لانی ہیں، اپنی معیشت درست کرنی ہے کیونکہ جب تک ہم معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے تب تک ہماری کسی بات سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

موجودہ حکومت مخلص ہے۔ 1894ء کے بعد جو کینال منصوبہ ختم ہوگیا تھا اب اسے دوبارہ شروع کیا جارہا ہے جو خوش آئند ہے۔ ہم دنیا میں ایک لیڈر شپ کے طور پر ابھر رہے تھے مگر کوالا لمپور سمٹ میں نہ جا کر یہ موقع ضائع کیا گیا۔ ہم سعودی عرب کو قائل کرسکتے تھے کہ ہم کوالالمپور سمٹ میں آپ کے سفیر ہونگے۔

ابھی بھی ہمارا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لہٰذا اب ہمیں ثابت قدمی کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ دنیا میں ہمارا وقار بلند ہو۔ مغرب اور بھارت خوفزدہ ہیں کہ مسلمان ان کی جگہ لے لیں گے لہٰذا اسی لیے مغرب کے بعد اب اس خطے میں یہ ایسی قانون سازی ہو رہی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا کا نظریہ ہے جس پر یہ طاقتیں کام کر رہی ہیں۔

سی پیک پاکستانی معیشت کی شہ رگ ہے اور اس سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی تاہم مخالفین پاکستان کو کمزور کرنا اور اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔بھارت کو تباہ کرنے کیلئے نریندر مودی کافی ہے، ہمیں اپنے ملک کو ٹھیک کرنا ہے۔ پہلے بھارت میں نام نہاد سیکولرازم تھا اب نام نہاد ہندووآتہ لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا وہ ہندوازم نہیں بلکہ فاش ازم ہے۔ 57 اسلامی ممالک کی دنیا میں کوئی آواز نہیں ہے اور نہ ہی ’او آئی سی‘ کی بات معنی رکھتی ہے۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے اداروں میں اصلاحات لانا ہوگی اور ریاست کے اندر ریاست کی سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار )

بی جے پی، راشٹریہ سویم سوک سنگھ(آرا یس ایس)کا سیاسی ونگ ہے۔ یہ 1925ء میں قائم کی گئی اور اس کی نازی پارٹی کے ساتھ بہت زیادہ مماثلت ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور باقی سب کو اس میں ضم ہونا ہوگا۔ مودی اور ہٹلر میں کوئی فرق نہیں ہے۔

جس طرح ہٹلر برسر اقتدار آئے اس کا جائزہ لیں تو وہ معاشی زبوں حالی والے جرمنی کے دور میں اس بات پر آئے کہ وہ جرمنی کو دوبارہ بڑی سلطنت بنائیں گے۔ اسی طرح مودی نے گجرات حکومت کے دور میں ایک بڑے بزنس منیجر اور اقتصادی بصیرت رکھنے والے شخص کے طور پر اپنا امیج قائم کیا، انہوں نے بھی کہا کہ وہ بھارت کو گجرات کی طرح معاشی معجزہ بنا دیں گے۔ ہٹلر نے بھی اپنے ابتدائی دور میں کچھ اسی قسم کی باتیں کی تھیں بعد میں قبضہ کرلیا اور معاملات بدل گئے۔

یہی کچھ مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد ہوا، انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی آرٹیکل 370 اور 35 (اے) سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا نعرہ لگایا کہ یہ ایک غیرحل شدہ مسئلہ ہے جسے حل کریں گے۔ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے ، معیشت کی عصر حاضر میں سٹرٹیجک اہمیت ہے اور یہ کسی بھی ملک کا پلس پوائنٹ ہوتی ہے۔ آج عالمی اداروں کی خاموشی اسی لیے ہے کہ ان کے بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات ہیں۔ ہمارے برادر اسلامی ممالک کے بھی بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ بی جے پی کا ایجنڈہ ہے کہ ہندوستان صرف ہندو شناخت کیلئے ہے۔

اس میں وہ یہ نہیں کہتے کہ صرف ہندو مذہب کیلئے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہندو شناخت کیلئے ہے۔ اس میں کسی اور ثقافتی، سماجی یا دیگر شناخت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں قومیت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ دنیا میں جب بھی اس قسم کے لیڈر آتے ہیں وہ ہمیشہ ایک چہرہ دکھاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے مسئلہ ہے۔

اس چہرے کو ہٹا نے سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ عوام کی عادت ہے کہ وہ بغیر کچھ کیے سب کچھ پانا چاہتے ہیں اور وہ ایسے لیڈر کی باتوں میں آجاتے ہیں، یہی نریندر مودی نے بھی کیا اور وہ دوتہائی اکثریت سے برسراقتدار آئے۔ NRC بنگالی مسلمانوں کیلئے شروع کیا گیا تھا، پھر اسے بھارت میں رہنے والے تمام بنگالیوں کیلئے کر دیا چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو، مگر اس میں توجہ مسلمانوں پر ہی تھی۔کہا گیا کہ 24 مارچ 1971ء سے پہلے جو لوگ بھارت میں تھے صرف وہی بھارتی شہری تصور کیے جائیں گے۔

اس طرح تقریباََ 20 لاکھ افراد بھارتی شہریت سے خارج کردیے گئے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ یہاں تک نہیں رہے گا بلکہ بنگال و دیگر ریاستوں سے بھی لوگوں کو نکالا جائے گا اور بنگال کی وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ مودی حکومت شہریت بل بھی لائی جس میں کہا گیا کہ 31 دسمبر 2014ء سے پہلے جو لوگ بھارت میں موجود تھے وہی شہری ہوں گے۔

دوسرا یہ کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے اگر کوئی غیر مذہب آتا ہے تو اسے شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس بل سے انہوں نے تمام بھارتی مسلمانوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ اپنی شہریت کا ثبوت رکھیں، ان سے کسی بھی وقت پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کب اور کہاں سے آئے۔ بھارت کے سیاسی و عدالتی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مسلمانوں کو مشکل ہوگی۔ مسلمان کس طرح روزانہ اپنا دفاع کرتے رہیں گے۔ میرے نزدیک یہ صرف اس سوچ کی عکاس ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں اقامہ ساتھ رکھنا پڑتا ہے، یہی مسئلہ اب بھارت میں ہوگا کہ انہیں اپنی شہریت کا ثبوت پاس رکھنا ہوگا، اسے تسلیم کرنے سے انکار بھی کیا جاسکتا ہے اور پھر شہریوںکو عدالتوں میں گھسیٹا جائیگا۔ ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کے قوانین کو سیاسی نشانہ بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مودی نے الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان پر فضائی حملے کا ڈرامہ رچایا تھا لہٰذا اب وہ اپنی ناکامیوںکو چھپانے کیلئے ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں تاکہ وہ پاکستان مخالف جذبات پر قوم کی حمایت حاصل کرسکیں، یہ پاکستان کیلئے تشویشناک صورتحال ہے، ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔