سائنس اور مذہب: معرکہ یا مفاہمت (حصہ چہارم)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  جمعرات 9 جنوری 2020
عالم اسلام نے ایسے کئی نابغہ روزگار پیدا کیے جو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالم اسلام نے ایسے کئی نابغہ روزگار پیدا کیے جو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب تک ہم بات کرچکے ہیں یورپ اور عالم اسلام کے طرزِ عمل کے تضاد کی کہ کیسے دونوں نے اپنی علمی کم مائیگی پر توجہ دی۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیسا نے ولن کا جو کردار ادا کیا، اس کے ردعمل میں وہاں مذہب کو سائنس سے جدا گردانا گیا اور یہ تصور راسخ ہوا کہ اہل مذہب تنگ نظری اور قدامت پرستی کا شکار ہیں؛ اور اسی پر استدلال کرتے ہوئے مذہب کو عمومی طور پر سائنس مخالف تسلیم کرلیا گیا۔ اس مغالطے کو تقویت کلیسا کے غلط طرز عمل نے پہنچائی۔ لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے برعکس آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اہلِ مذہب نے سائنس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے مشہور جابر بن حیان کو کون نہیں جانتا۔ ہم سب نے اپنی میٹرک اور انٹر کی کتابوں میں ان کا ذکر پڑھ رکھا ہے۔ امام جعفر صادقؒ کی شاگردی میں ہوتے ہوئے انہیں یا ان کے استاد کو سائنس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اسی طرح گریگر مینڈل کے نام سے کون سا طالب علم ہوگا جو واقف نہ ہوگا۔ والدین سے بچوں میں جینیاتی وراثت کی منتقلی پر سب سے پہلے مفصل کام کرنے والا شخص کوئی یونیورسٹی کا گریجویٹ نہیں بلکہ آسٹریا کا ایک پادری تھا۔ یہ دو تو وہ شخصیات ہیں جنہیں دنیا کی اکثریت جانتی ہے اور ان کے کام سے واقف ہے۔

اس موضوع پر پہلا بلاگ یہاں پڑھیے: سائنس اور اقوامِ عالم

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: سائنس، یورپ اور عہدِ تاریکی (گزشتہ سے پیوستہ)

مضمون کا تیسرا حصہ پڑھیے: سائنس: عالمِ اسلام کا زوال (حصہ سوم)

اسی طرح عالم اسلام میں کئی ایسے سائنسدان پیدا ہوئے جو سائنس (طب، ریاضی، طبیعیات) کے ساتھ ساتھ مذہب ( فقہ، قرآن، حدیث) اور دیگر فنون جیسے علم الکلام، علم نجوم، موسیقی وغیرہ پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کی شہرت بطور امامِ فقہ کے ہے مگر آپ اپنے وقت کے علم الکلام کے ماہرین میں سے تھے۔ صرف یہی نہیں، آپ کی تجات اس قدر پھیلی ہوئی تھی کہ آپ کے سامان سے بھرے ہوئے بحری جہاز چلا کرتے تھے۔ اسی طرح حکیم بو علی سینا، جن کی کتاب ’’قانون فی طب‘‘ صدیوں یورپ میں پڑھائی گئی، محض حکیم نہیں تھے بلکہ عالم دین اور ساتھ ساتھ علمِ موسیقی کے ماہر بھی تھے۔ آپ کا ایجاد کردہ ساز ’’سینائی‘‘ آپ کے نام سے منسوب ہوا، جو بگڑتے ہوئے آج شہنائی کہلاتا ہے۔

ان مثالوں سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ جب یورپ میں کلیسا رجعت پسندی کی حالت میں ارسطو کے نظریات سے چمٹا ہوا تھا، اس وقت عالم اسلام میں مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی خاص تفریق روا نہیں رکھی جا رہی تھی۔ عالم اسلام نے ایسے کئی نابغہ روزگار پیدا کیے جو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں ’’ملٹی ڈسپلنیری صلاحیتوں‘‘ کو استعمال میں لاتے ہوئے ایسے کمالات کا مظاہرہ کیا کہ آج بھی حیرت ہوتی ہے۔

اب ہم آتے ہیں اپنے ابتدائی سوال کی جانب کہ اس قدر درخشاں تاریخ کے باوجود آج کل کے عالمِ اسلام میں کیوں مذہب اور سائنس باہم دست و گریباں ہیں اور آج کل کیوں نیوٹن، آئن اسٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ کے پائے کا کوئی بڑا سائنسدان عالمِ اسلام میں پیدا نہیں ہورہا؟ بقول اقبالؒ:

ہے تیرے گُلِستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دَور
خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سے

جو نغمہ زن تھے خِلوتِ اوراق میں طیور
رُخصت ہوئے ترے شجَرِ سایہ دار سے

اس سوال کا جواب مغلوں، ایرانیوں اور ترکوں کے طرزِ عمل میں پنہاں ہے، جن کا اجمالی تذکرہ پہلے کیا جاچکا ہے۔

میری نظر میں ہماری سائنس سے بیزاری کی وجوہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ نویں صدی سے تیرھویں صدی تک کے مسلمانوں کےلیے یونانی، چینی، ہندوستانی کفار سے علم اکٹھا کرنا، اسے سمجھنا اور آگے بڑھانا نہ صرف جائز تھا بلکہ سرکاری طور پر اس کی حوصلہ افزائی کے ساتھ عوام بھی جوق در جوق اس سے مستفید و متفیّض ہوتے۔ اگر اس بیزاری کی وجہ مذہب ہے تو اس استدلال کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہم موجودہ زمانے کے مسلمان، خصوصاً برصغیر کے رہنے والے جن کی اکثریت صحیح تلفظ کے ساتھ سورۃ فاتحہ کی قرأت بھی نہیں کرسکتی، ان عربوں سے زیادہ اسلام کو جانتے ہیں جن کی اپنی زبان میں اسلام آیا تھا؛ جنہوں نے مدینۃ الحکمۃ کی بنیاد رکھی تھی۔ کیوں آج ہم سائنس کو نہ تو سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے موڈ میں ہیں؟ کیا اس کی وجہ نوآبادیاتی دور میں پیدا ہونے والی سوچ ہے؟

نوآبادیاتی عہد میں جہاں تقریباً پورا عالمِ اسلام یورپ کے زیرِنگیں تھا، وہیں یورپ سے براہ راست نبرد آزما ترکی بھی رُوبہ زوال تھا۔ اس دوران یورپی دارالحکومتوں میں ترکی کو ازراہِ تمسخر یورپ کا مردِ بیمار کہا جانے لگا۔ اس طرح جس یورپی طاقت کو جو خطہ پسند آیا، اس نے بزورِ بازو اس پر قبضہ جما لیا۔ ذرا تصور کیجیے کہ آپ ایک ہندوستانی مسلمان ہیں۔ حال ہی میں آپ کی آزادی سات سمندر پار سے آنے والے تاجر چھین چکے ہیں۔ ایسے میں آپ کی امیدوں کا مرکز ترکی ہے (جیسے کہ ٹیپو سلطان کا ترکی کے عثمانی خلفا سے انگریزوں کے خلاف مدد مانگنے کےلیے خطوط لکھنا)۔ کبھی خبر آتی ہے کہ روس نے حملہ کرکے ترکی سے کریمیا کا علاقہ چھین لیا ہے تو کبھی فرانس نے مصر پر قبضہ جمالیا ہے۔ کبھی برطانیہ یونانی باغیوں کی ترکی کے خلاف مدد کرتا ہے تو کبھی اٹلی لیبیا کا علاقہ ہتھیا لیتا ہے۔ اور آسٹریا کے ساتھ تو آئے روز کی جنگ چلتی ہی رہتی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ ان حالات میں جہاں ایک طرف تو اپنے ملک میں غلامی کی ذلت برداشت کرنی پڑ رہی ہے تو دوسری طرف اپنے مرکز پر ہونے والا ہر ایک حملہ مزید دل شکستگی کا باعث ہوگا یا نہیں؟ (اگر آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو کسی بھی تاریخ یا مطالعہ پاکستان کی کتاب میں تحریکِ خلافت کے اسباب پڑھ لیجیے۔)

ماضی قریب میں خلافت کی وجہ سے ترکوں کے پاس عالمِ اسلام کی قیادت تھی اور ان کے اثرات آپ کو جابجا نظر آتے ہیں۔ انہی اثرات میں سوچ کا جمود بھی شامل ہے جو ہمارے عوام، اہلِ علم اور سیاسی و مذہبی اشرافیہ میں سرائیت کرتا گیا۔ ان کی مغرب سے جنگ ہماری مغرب دشمنی کی بنیاد بنی، ان کی مغرب سے بیزاری ہماری جدید تعلیم سے بے اعتنائی کا باعث ہوئی۔ مرد بیمار کی صورت اختیار کرتے عثمانیوں میں وقتاً فوقتاً اصلاحات کی ضرورت کا احساس شدت کرتا گیا۔ مگر سیاسی عدم استحکام اور حکومتی نظام کی بوسیدگی وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے پائی۔ اور جو تھوڑی بہت اصلاحات ہوئیں بھی، وہ سیاسی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئیں جن میں تعلیم اور سائنس کے فروغ پر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی؛ اور غلامی کے دوران ہم سمیت باقی کا تمام عالمِ اسلام ان ناکافی اصلاحات سے بھی روشناس نہیں ہوسکا۔ اسی دوران پنپنے والی ’’مسٹر‘‘ اور ’’مولوی‘‘ کی تفریق نے بھی ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔

وہ طبقات جنہیں عوام کی رہنمائی کرنی تھی، آپس میں تعاون کے بجائے تصادم کی راہ پر گامزن ہوگئے اور ہمارا قومی مکالمہ قوم کی ترقی و فلاح جیسےامور کے بجائے ’ٹائی باندھنا‘ اور ’شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنا‘ کے درمیان کہیں ایسا کھو گیا کہ آج تک بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔

اگرچہ ہم آج تک اس ماضی کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں لیکن حال میں بدحالی کی ذمے داری ماضی پر ڈالنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ہمیں اپنے مستقبل کی خاطر اپنے لیے واضح سمت متعین کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے آئندہ کل کو آج اور گزشتہ کل سے بہتر کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔