ضمانتوں کا موسم

محمد سعید آرائیں  بدھ 1 جنوری 2020

وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے ایک سیاسی رہنما کی ہائی کورٹ سے ملنے والی ضمانت پرکہا ہے کہ آج کل ضمانتوں کا موسم ہے ۔ ضمانتوں کے موسم کی بات کی جائے تو یہ موسم سیاسی اسیروں کی ضمانتوں کا تو ہو سکتا ہے جن میں چند بڑے سیاستدان جو ماضی کی حکومتوں میں رہے ہیں اور ان میں نواز شریف ، آصف زرداری ، مریم نواز، فریال تالپور، آغا سراج درانی، رانا ثنا اللہ، مفتاح اسماعیل اور چند ماہ قبل ضمانت پر رہا ہونے والے شہباز شریف شامل ہیں۔

سیاسی لوگوں کی ضمانتیں تو اعلیٰ عدالتوں سے منظور ہوتی ہیں اور وہ اہم لوگ ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں جب کہ ملک کی جیلوں میں لاکھوں قیدی مگر غیر اہم اور عام لوگ قید ہیں۔ جن میں سزا یافتہ بھی ہیں اور سزا یا رہائی کے لاکھوں ایسے قیدی بھی ہیں جو کئی سال سے عدالتوں کے رحم وکرم پر ہیں اور قیدیوں کی گاڑیوں میں جیلوں سے عدالتوں میں اور بعد میں عدالتوں سے واپس جیل لائے جاتے ہیں۔

روزانہ ایسے قیدی بہت کم ہوتے ہیں جن کا نچلی عدالتوں سے ضمانت یا رہائی کا فیصلہ ہوجاتا ہو اور وہ چند خوش نصیب قیدی بھی عدالتی فیصلے کے بعد رہائی کے روبکارکے لیے جیل واپس آتے ہیں جہاں جتنی زیادہ رشوت ملے وہ اتنی جلدی رہائی حاصل کرلیتے ہیں ، اگر سرکاری چھٹیاں اور خود ساختہ قانونی رکاوٹیں جو رشوت لینے کے لیے ڈالی جاتی ہیں حائل نہ ہوں تو انھیں رہائی مل جاتی ہے وہ خاموشی سے گھر چلے جاتے ہیں ۔

جیلوں میں موجود لاکھوں ایسے قیدی بھی ہیں جنھیں سزائیں نہیں ہوئیں اور مقررہ تاریخوں پر عدالتوں میں لایا جاتا ہے جن میں چند ہی کی متعلقہ عدالت میں پیشی کی نوبت آتی ہے اور عدالتوں کا وقت ختم ہو جانے پر بغیر پیشی ہی انھیں اگلی پیشی کی تاریخ مل جاتی ہے جو زیادہ تر لمبی ہوتی ہیں اور اگر عدالتوں کے ریڈر کی جیب گرم کردی جائے تو نئی تاریخ جلد پیشی کی ہوتی ہے۔ اگر پولیس اور عدالتی عملے اور متعلقہ وکیل کو رشوت اور فیس دینے کی قیدی کی پوزیشن نہ ہو تو تاریخ لمبی ملتی ہے۔

نچلی عدالتوں میں ضمانت تک کے فیصلے سالوں نہیں ہوتے جس کی ایک وجہ ملزمان کے مالی وسائل ہی ہوتے ہیں اور اگر ملزمان کے ورثا ہر پیشی پر عدالتی عملے اور متعلقہ وکیلوں کو ادائیگی نہ ہو تو متعلقہ وکیل عدالت میں نہیں آتے ، تو عدالتی عملے کو جواز مل جاتا ہے اور وہ طویل تاریخ دے دیتا ہے اور ملزم جیل میں اگلی حاضری کا انتظار کرتا رہتا ہے۔

کبھی کبھی متعلقہ جج دستیاب نہیں ہوتے۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمے کا وقت مقرر نہیں ہوتا۔ عدالت اور وکیل چاہے پولیس اپنے گواہ اور مشیر پیش کرے تو سماعت کچھ دیر جاری رہتی ہے ورنہ کسی جواز پر سماعت ملتوی کردی جاتی ہے۔

فیصلہ جلد کرانے میں وکیل کا کردار اہم ہوتا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ اگر عدالتوں میں فیصلے جلد ہونے لگیں تو وکلا کا کاروبار متاثر ہوتا ہے پولیس اور عدالتی عملے کی جیبیں بھرنا بند ہو جائیں کیونکہ مقدمے میں تاخیر کمائی کا ذریعہ بنتی ہے اور جلد فیصلے ملزمان کے مفاد میں تو ہوتے ہیں باقی متعلقہ افراد کے مفاد میں نہیں ہوتے۔ نچلی عدالتوں سے ضمانت نہ ملنے پر مالی وسائل رکھنے والے ملزم یا اس کے اہل خانہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر پاتے ہیں کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کے وکیلوں کی فیس بھی نچلی عدالتوں سے زیادہ ہوتی ہے جو غریب قیدی افورڈ نہیں کر پاتے اور نچلی عدالتوں سے ہی اپنے فیصلے کے انتظار میں مجبوری میں قید رہتے ہیں اور کوئی دوسرا راستہ ان کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی عدالتوں میں ضمانتوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔

عدالتوں میں موسم گرما اور سرما کی چھٹیاں ضرور ہوتی ہیں اور اب تو نچلی عدالتوں کے سوا اعلیٰ عدلیہ میں بھی مقدمات کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے مقدمات جلد نمٹائے جانے کے لیے ماڈل کورٹس قائم کرائی تھیں مقدمات کے جلد فیصلے بھی ہوئے مگر مقدمات کا بوجھ زیادہ اور عدالتوں میں ججوں کی تعداد بھی مقدمات کے حساب سے بہت کم ہے اور عدالتیں ہفتے میں دو کی بجائے ایک چھٹی کر رہی ہیں مگر حکومتوں کو فکر نہیں کہ عدالتوں کی تعداد بڑھائے بلکہ اس کے برعکس جیلوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔

جیلیں کرپشن کا گڑھ بنی ہوئی ہیں کیونکہ جیلیں حکومت تعمیر کرکے وہاں عملہ مقرر کرتی ہیں اور جیلوں سے عدلیہ کا زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ اعلیٰ عدالتوں اور سیشن کورٹس کے ججز جیلوں کے دورے ضرور کرتے ہیں مگر جیلوں کے انتظامی معاملات اور جیلوں میں ہونے والی کرپشن سے ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ جیلوں میں کرپشن انتہا پر ہے۔ایک سابق وزیر جیل خانہ جات مظفر شجرہ کا بیان تھا کہ مجھے ایک کروڑ روپے کی ماہانہ پیش کش کی تھی جو انھوں نے قبول کرلی ہوتی تو وزیر جیل بھی رہتے اور انھیں اپنی پیپلز پارٹی بھی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل نہ ہونا پڑتا۔

حکومتوں کا کام کمائی کے لیے جیلیں بنانا، عدالتوں کا کام مقدمے نمٹا کر عدالتوں سے بوجھ کم کرنا، قیدیوں کی مجبوری جیلوں اور عدالتی عملے کو رشوت دے کر اپنے مقدمات کا فیصلہ لینا ہوتا ہے اور یہ کام سالوں سے جاری ہے۔ مقدمات کی تعداد کم ہو رہی ہے نہ عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ اور سزائیں قیدی بھگت رہے ہیں جو ابھی مجرم نہیں قرار پائے مگر فیصلوں میں تاخیر کے باعث وہ اپنے کردہ جرم کی مقررہ سزا سے بھی زیادہ سزا جیلوں میں رہ کر بھگت رہے ہیں۔ اگر جیلوں میں قید قیدیوں کی قید کے کوائف دیکھ لیے جائیں اور ان کے فیصلوں کی مدت ماڈل کورٹس کی طرح مقرر ہوجائے تو ان کے فیصلے جلد ہوسکتے ہیں۔

ایسا بھی ہوتا آرہا ہے کہ جیلوں کے اندرونی حالات سے متاثر ہوکر قیدی بیمار ہو جاتے ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کے چیک اپ کے لیے ڈسپنسری اور ڈاکٹر تو ہیں مگر وہاں تشخیص کی کوئی اچھی لیبارٹری و آلات نہیں ہوتے اور زیادہ بیمار ہو جانے والوں کو جیل انتظامیہ انسانی ہمدردی پر نہیں بلکہ رشوت یا سفارش پر سرکاری اسپتالوں میں بھیجتی ہے جہاں ان کا مکمل علاج کم اور طبی معائنہ کرکے واپس جیل بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ اکثر اسپتالوں میں قیدیوں کے مخصوص وارڈ نہیں ہوتے۔

بڑے لوگوں کو تو ملک کے مختلف اسپتالوں میں اپنے علاج کی سہولت میسر آجاتی ہے ملک میں بڑے لوگوں کو تو اکثر سزا ہوتی نہیں اور صرف سیاسی رہنماؤں کو سزا ہوتی تو ہے مگر کم کیونکہ انھیں سیاسی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔

حکومتی اداروں کی دلچسپی حکومتی ایما پر انھیں حراست میں رکھنا اور ریمانڈ پر ریمانڈ لینا ہوتا ہے اور بڑے لوگوں جو سیاسی رہنما یا سابق حکمران ہوتے ہیں سزا بھی سیاسی بنیاد پر ہوتی ہے اور اب تو سزا یافتہ سابق حکمرانوں کو بھی ضمانت اور بیرون ملک علاج کی سہولت انسانی بنیاد پر ملنے لگی ہے اور موجودہ حکمرانوں نے بھی مستقبل میں اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ہے اس لیے راہ کھل گئی ہے اور فیصلہ عدالت کا ہے۔ حکومت نے 8 لاکھ لوگوں کے بی آئی ایس پی وظائف منسوخ کرکے جرائم بڑھانے کی راہ ہموار کردی ہے کچھ نہ ملنے پر جرائم مجبوری بن جاتے ہیں جس سے جیلوں میں ملزموں کی تعداد بڑھے گی۔ بے روزگاری تو پہلے ہی سنگین نہیں بلکہ جرائم بڑھانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔