سابق دارالحکومت، کراچی…!!

رئیس فاطمہ  بدھ 6 نومبر 2013

کاش آج کوئی میر تقی میرؔ یا سوداؔ ہوتا تو کراچی کا مرثیہ لکھتا یا اس کی شناخت کھو جانے پر کوئی قطعہ کہتا… آج وہ شہر کراچی کہاں گم ہوگیا جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ روشنیوں کا وہ شہر جس کی بتیاں دیکھنے سادہ لوح لوگ ٹرکوں کے پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ اسے خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ہر طرف کوڑے کے ڈھیر، پان اور گٹکے کی غلاظتوں سے اٹا پڑا ہے۔ مٹی، کوڑا کرکٹ، جانوروں کی آلائشیں اب اس شہر کی پہچان ہے۔ کیونکہ یہ شہر ہمیشہ سے غریب کی جورو رہا ہے جس کی قسمت صرف دوسروں کا پیٹ بھرنا ہے۔

لیکن اس کو اپنی اس خدمت کے بدلے میں کیا ملتاہے…؟ غلاظت کے ڈھیر، بندوقوں کی گولیاں، لٹیرے، اغواء کار اور نفرتیں پھیلانے والے سیاست دان اور مذہبی رہنما جنہوںنے اس کا چہرہ صرف مسخ ہی نہیں کیا بلکہ لہولہان بھی کردیاہے اور اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ اب یہ کسی بھی پلاسٹک سرجری سے ٹھیک نہیں ہوسکتا… کیونکہ ایسا کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے … سچ پوچھیے تو یہ شہر جو کبھی دارالحکومت ہوا کرتاتھا۔ ایک ڈکٹیٹر نے اس کو اپنی انا اور خود پسندی کی بھینٹ چڑھادیا۔ پتہ نہیں کیوں اس بد نصیب شہر کو کسی بھی حکمران جماعت نے اپنا نہیں سمجھا جنہوںنے ’’I OWN KARACHI‘‘ کا نعرہ لگایا وہ صرف دیواروں اور بینروں تک محدود رہا۔

اس کی سچائی تو کہیں بھی دکھائی نہیں دی … سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوں۔ گورنر ہوں، یا بلدیات سب نے اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور اس شہر کو جس میں کوئی بھی بھوکا آتا تو ہے لیکن بھوکا سوتا نہیں۔ اس شہر میں مولانا ایدھی، سیلانی ویلفیئر، عالمگیر ٹرسٹ اور دیگر اداروں کے سخی لوگوں کی بناء پر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر دسترخوان لگتے ہیں۔ میتیں اٹھتی ہیں، لاوارث بچے بلیوں اور کتوں کی خوراک بننے کے بجائے گھروں کے پالنوں اور گودوں میں پلتے ہیں … بھلا کوئی بتائے کہ کیا عبدالستار ایدھی سے پہلے کسی میں ہمت تھی کہ وہ بن بیاہی ماؤں کی کوکھ میں پلنے والے بد نصیب بچوں کو مارنے کے بجائے جھولوں میں ڈالنے کی استدعا کرے اور پھر ان کے معصوم وجود سے کسی کی گود ہری کردے…؟ چراغ سے چراغ جلتاہے۔ بعد میں رمضان چھیپا بھی اس کار خیر میں شریک ہوگئے اور آج تک ہیں …

یہ بد قسمت شہر جو کروڑ پتی، ارب پتی تاجروں اور غریب پتھارے داروں اور ٹھیلے والوں کو کماکر دیتاہے اور مالا مال کرتاہے اس کی فٹ پاتھوں، سڑکوں اور محلوں کے نصیب میں صرف دکانوں اور ٹھیلوں کا ہزاروں من کچرا اور غلاظت ہے۔ جس شہر سے کاروباری لوگوں کو روزی ملتی ہے اس کا صلہ یہ گندگی کی صورت میں لوٹاتے ہیں۔ بڑی بڑی مارکیٹوں کے باہر کا حال آپ دیکھ لیجیے۔ بن کباب، دہی بڑے، چاٹ چھولے، کولڈ ڈرنک، جوس کے خالی ڈبے، پلاسٹک کی تھیلیاں، فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ نظر آئیں گے۔ خواہ علاقہ کوئی بھی ہو، حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو نہ صرف اس گندگی کے بیچوں بیچ کرسیوں پر بیٹھ کر اپنی بھوک مٹاتے ہیں بلکہ گندگی میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے پیزا پوائنٹ جو اپنی آرائش پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔

ان کے سامنے کی جگہ دیکھیں تو قے ہوجائے۔ لیکن وہیں کھڑے ہوکر لوگ شوق سے کھاتے پیتے اور غلاظت میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں صرف یونیورسٹی روڈ پر N.E.Dیونیورسٹی کے سامنے والے فلائی اوور کے دونوں اطراف پل کے ساتھ ساتھ نظر دوڑایئے تو خوبصورت مارکیٹوں، پلازوں اور پیزا اور برگر شاپس کے ساتھ شہر بھر کا کوڑا آپ کو یہاں جمع نظر آئے گا۔ پوری یونیورسٹی روڈ کی گندگی یہیں خاکروب جمع کرتے ہیں۔ گویا جامعات کے عین مقابل اب ایک نئی کچرا کنڈی وجود میں آگئی ہے۔ سوئی گیس کمپنی سے N.E.Dتک مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی غلاظت آنے والوں کا خیر مقدم کرے گی۔ بقر عید کے بعد اب تک اس علاقے سے آلائشیں نہیں اٹھائی گئی ہیں … البتہ اخبارات

میں جعلی لیڈر جعلی بیانات کے ذریعے صفائی کے دعویدار ہیں۔ لیکن صفائی ہے کہاں …؟… شہرکے منتخب لیڈروں اور صوبائی حکومتوں کو آپسی جھگڑوں سے فرصت ملے تو شہر کی بھی خبر لیں۔ نام نہاد منتخب لیڈروں کا زیادہ تر تعلق اندرون سندھ سے ہے جو شادی بیاہ کے لیے اب اسمبلیوں کا استعمال بھی اپنا حق سمجھنے لگے ہیں لیکن خواہ لیاری ہو، گارڈن ہو، ناظم آباد ہو یا فیڈرل بی ایریا اور گلشن اقبال وہ کوڑے کرکٹ کی زیادتی کی وجہ سے بیماریوں کا گڑھ بن چکے ہوں۔ وہ ان کی بلاسے اس لیے کہ ان لیڈروں کے اصل گھر کہیں اور ہیں یہ جمعہ سے غائب ہوجاتے ہیں اور پیر کی دوپہر نازل ہوتے ہیں۔ جہاں پر آسائش بنگلے آہنی گرل اور تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ ڈینگی مچھر کی کیا مجال کہ ان کی خواب گاہوں میں داخل ہوسکیں۔

سندھ میں اقتدار میں رہنے والی دونوں پارٹیوں میں سے کسی نے بھی کبھی کراچی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اقتدار کی رسہ کشی نے اس شہر بے مثال کو صوبائی اور لسانی نفرتوں میں بدل دیا۔ یہ رکشہ چلاتے چلاتے اچانک منشیات کے سوداگر بن جانے والے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کے پرچم بلند کرنے والوں نے کراچی کو قتل گاہ بنادیاہے۔ لیکن ہم آج صرف صحت و صفائی کی بات کررہے ہیں۔ بد قسمتی نے ہم پر جھوٹوں کو مسلط کردیاہے۔ جو برسات سے پہلے صرف اخباری بیان کے ذریعے برساتی نالوں کی صفائی کی نوید دیتے ہیں۔

بقر عید سے پہلے جانوروں کی آلائشوں کو اٹھانے اور جراثیم کش اسپرے کی، ملیریا اور ڈینگی کے خاتمے کے لیے دھواں دار اسپرے کی … لیکن اہل کراچی ان احمقانہ بیانات کا مطلب خوب جانتے ہیں۔ یہاں سارے سرکاری فنڈز افسران کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ البتہ کبھی زور ڈال کر اور کبھی بند لفافوں کے عوض ایسی خبریں لگتی رہتی ہیں جن میں حکومت کی کارکردگی A ONE نظر آتی ہے لیکن کراچی کی سڑکیں۔ محلے اور گلیاں نوحہ کناں ہیں کہ ان کی تقدیر بدلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ البتہ دن بدن یہ شہر جو پورے پاکستان کو کماکر دیتاہے۔ تمام ٹی وی چینلز کو سب سے زیادہ اشتہارات بھی اسی شہر سے ملتے ہیں لیکن اس کے عوض دو فیصد بھی صفائی پر خرچ نہیں کیا جاتا۔

کراچی کی تقدیر خصوصاً صفائی کے حوالے سے بدلنے کے لیے پہلے لوگ ’’ایک شہباز شریف‘‘ کی تمنا کرتے تھے جو پوری نہ ہوسکی لیکن اگر کوئی بڑی کاروباری شخصیت کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی صفائی کے لیے کچھ عطیہ کردے تو یہ اس شہر پر ان کا احسان ہوگا۔

آخر میں قارئین کی توجہ اس جانب دلانا چاہوںگی کہ 31 اکتوبر کے کالم میں مصحفی ؔ کے اصل شعر میں پہلا مصرعہ کمپوزنگ کی غلطی سے یوں چھپ گیا

میں نے عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں

جوکہ غلط تھا۔ اصل مصرعہ میں ’’نے‘‘ نہیں ہے اور میں نے اسے یوں لکھا تھا۔

’’میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روز عید قرباں‘‘

جن احباب نے اس جانب توجہ دلائی کہ میں خود اس کا لکھ کر ازالہ کروں، ان کی شکر گزار ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔