ریت کا ٹیلہ اور چمبے دی بوٹی

طارق محمود میاں  بدھ 6 نومبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

جولائی اور اگست کی چھٹیوں میں لاہور کے ہاسٹل سے لوٹتے تو سرور چاچا جو ہم سے چند جماعتیں آگے تھا ہمیں اپنے گاؤں کے دورے کی دعوت دیتا۔ ریت کے اونچے اونچے چولستانی ٹیلوں کے درمیان گھرا ہوا اس کا گھر۔ گرمی ایسی کہ روٹیاں تنور کے بجائے مٹی کے کوٹھے کی دیوار پر پکالو۔ کمرے میں خس کی ٹٹیوں سے مہکتا ہوا ڈیزرٹ کولر ہوتا۔ بان کی چارپائیوں پر بچھی دریاں، گھنگرو بندھے گاؤ تکیے اور چادریں۔ سیکڑوں برس پرانا لکڑی کا ایک فولڈنگ صوفہ اور ہم چار چھ دوست۔

کھلا ڈلا عوامی دور تھا۔ خون کے علاوہ سب کچھ پینے کی آزادی تھی۔ سو دوپہر کے کھانے کے بعد پوری آزادی سے لسی کے جگوں کے جگ خالی کر دیے جاتے۔ سوتے نہیں تھے، نیم غنودگی کے عالم میں سرور چاچا کے نہ جانے کہاں کہاں سے جمع کیے ہوئے ’’بیسویں صدی‘‘ اور ’’شمع دہلی‘‘ کے لاتعداد شماروں کی ورق گردانی کرتے جاتے اور چاچا کونے میں پڑے ہوئے سات تووں والے گرامو فون پر بیتھوون کی سمفنی پر سوئی رکھ دیتا۔ اس کی نو کی نو سمفنیاں ہم نے وہیں سنیں اور وہیں سے یہ لت لگی۔ ایسی کہ یہ نشہ آج بھی اسی شدت سے طاری ہو جاتا ہے۔ ’’بیسویں صدی‘‘ میں ہر افسانے کے ساتھ اس کے مطالعے کا دورانیہ بھی لکھا ہوتا تھا۔ 15 منٹ … 18 منٹ … وغیرہ۔ اسے ہم ہمیشہ اس سے کم وقت میں عبور کر لیتے۔ جب دو جنے پڑھ لیتے تو اس کے محاسن پر گفتگو کرتے۔ برائی پر بات کرنا اس عمر کے ایجنڈے میں تھا ہی نہیں۔

سرور چاچا کے شوق بھی خوب تھے۔ روی شنکر کا ستار سناتا تو کہتا کہ اس کے بعد جارج ہیریسن کا ستار سناؤں گا جو بیٹلز کو چھوڑ کے ستار نوازی کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب ہم خود کو بڑا معتبر سمجھتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ ہم گیارہویں اور بارہویں کے اسٹوڈنٹ تھے اور چاچا ایم اے کا۔ عمر میں دو تین برس کا فرق ہو گا لیکن وہ ہم سے یوں پیش آتا تھا جیسے ہم اس کے بچے ہوں۔ اس نے ہمیں کیا کچھ نہیں سنایا۔ وہ سبھی کچھ جو روح کو سیراب کر دے … اور ہم شاید پیاسے بھی بہت تھے۔ طلب کے مارے ہوئے۔ لوگ کہتے کہ چھری کانٹے سے کھانا کھانے والے یہ لڑکے اس بستی میں آتے ہیں تو گنوار ہو جاتے ہیں اور بوڑھے ہو جاتے ہیں۔

فلم مغل اعظم کے سبھی گیت لوگوں نے سن رکھے تھے اور سنتے رہتے تھے۔ لیکن ہم وہاں کیا سنتے، استاد بڑے غلام علی خان کا ’’پریم جوگن بن کے…‘‘ تان سین کے اس الاپ کے لیے خان صاحب نے کے آصف سے 25 ہزار روپے لیے تھے جب کہ ان دنوں لتا اور رفیع کی فی گانا فیس پانچ سو روپے سے کم تھی… پھر ہم ان کا ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ سنتے۔ یہ راگ درباری میں تھا۔ پورا ریکارڈ ختم ہو جاتا اور بڑے غلام علی آخر تک بس انھی چھ لفظوں سے کھیلتے رہتے… اور ہم تھے کہ جیسے ایک نشے میں ڈوبے ہوئے ہوں۔ پھر راگ ملہار میں ان کا گایا ہوا ’’بجلی چمکے…‘‘

ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم جیسی آواز نہ کبھی سننے میں آئی اور نہ ایسا لوچ کہیں پایا۔ ان کی ٹھمریاں، دادرے اور پھر ’’من ڈولے… ہولے ہولے‘‘ آج بھی سن لوں تو سوچتا ہوں کہ اتنے عرصے میں کوئی ایک بھی آواز فن کی اس بلندی کو چھو کر بھی نہ گزر سکی۔

انھی دنوں ہم نے ایک بنگالی آواز دریافت کی اور پھر اس کے دیوانے ہو گئے۔ یہ مشرقی پاکستان کی رہنے والی فیروزہ بیگم تھیں۔ غالباً فرید پور کی رہنے والی تھی۔ موسیقی کی کوئی تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ بس شوقیہ گاتی تھیں اور کیا خوب گاتی تھیں۔ نذر الاسلام کے لاتعداد گیت گائے اور پھر اردو کی غزلیں بھی ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ ان کی غزل کو بیگم اختر نے بھی گایا ہے لیکن فیروزہ بیگم نے تو قیامت ڈھا دی۔ میں اسے اتنی بار سنتا کہ میرے دوست تنگ آ جاتے۔ میں ان کی بات مان جاتا تو ایک اور ریکارڈ پر سوئی رکھ دیتا۔ ’’تم بھلائے نہ گئے‘‘ یہ بھی فیروزہ بیگم نے گایا تھا۔

رات کو ریت ٹھنڈی ہو جاتی تو ہم اٹھ کر دور ریت کے ٹیلوں پر جا بیٹھتے۔ وہاں چاندنی نہ ہوتی تو چاروں اور پھیلا اداسی کا سجیلا نور ہوتا۔ ریت بھرے ٹیلے سے آگے ایک اور ٹیلہ اور پھر ایک اور… تب ہم فلمی اسٹائل میں زور سے چلاتے اور دیکھتے کہ صحرا کیا جواب دیتا ہے۔ وہاں سے کبھی کوئی جواب نہیں آیا۔

اس رات کا آخری آئٹم عامر کا گیت ہوتا۔ وہ ڈھنگ سے بس ایک ہی گانا گا سکتا تھا۔ اور اس نے اس کی اتنی مشق کی ہوئی تھی کہ اس کے باریک سے باریک اور نازک سے نازک مراحل سے بھی بخوبی گزر جاتا۔ یہ ہمیں اتنا پسند تھا کہ ہم سب نے اسے فلمی تاریخ کا سب سے فیورٹ گانا قرار دے رکھا تھا۔ نوعمر نورجہاں کی آواز اور فیروز نظامی کی موسیقی… ’’قول الفت کا جو ہنستے ہوئے تاروں نے سنا… بند گلیوں نے سنا مست بہاروں نے سنا… سب سے چھپ کر اسے دو درد کے ماروں نے سنا… آج کی رات ساز دل پر درد نہ چھیڑ‘‘

ہم اداس ہوتے، خاموش ہوتے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بستی کی طرف لوٹ آتے۔

وقت کا پہیہ گھوما تو حیران ہوئے کہ جانے ہم لوگوں کا خمیر کہاں سے اٹھا تھا۔ وہاں سے نکلے، بکھرے اور پھر کیا سے کیا ہو گئے۔ کوئی سیاست میں، کوئی کاروبار میں، کوئی فوج میں اور کوئی اگلے جہان میں… جو بچ گئے کبھی ملتے تو دیر تک خاموش بیٹھے رہتے۔ پھر ایک سرد سانس کی آواز آتی اور گلے میں پھنس پھنس کے نکلتی ہوئی ایک سرگوشی…. ’’ یار اس دنیا نے حرام خور بنا دیا۔‘‘

کہاں کے راگ، کہاں کی موسیقی اور کیسا ادب۔ پہیے کے ساتھ سبھی کچھ گھوم گیا۔ تھما تو ان میں سے ایک روز ایک کا فون آیا۔ اس نے کہا ’’تم نے عارف لوہار کی جگنی سنی ہے، چمبے دی بوٹی؟… اور تمہیں سرور چاچا یاد ہے… اور اس کا گاؤں اور ٹیلے؟ مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ پھر میں نے ’’الف اﷲ چمبے دی بوٹی …‘‘ خاص طور پر سنا۔ موسیقی کی دنیا مسلسل سفر میں ہے۔ نئے ساز، آواز کے زاویے، ریکارڈنگ کا معیار، صوفیانہ کلام، عارف لوہار کی خداداد لے اور میشا شفیع، ہمارے حمید اختر صاحب کی نواسی کا ساتھ۔ یہ گانا نہیں ایک ماسٹر پیس تھا۔ جتنی بار سنا ’’دم گھٹ کوں‘‘ کا ایک نئی جہت سے آشنائی ہوئی۔ یہ موسیقی کی طرف واپسی کا سفر ہے، ہمارے مزاج بدل گئے ہیں یا ہم صوفی ہو گئے ہیں ’’ونگاں چڑھا لو کڑیو، مرے داتا دے دربار دیاں‘‘ سن کے بھی وہی نشہ طاری ہوا جس سے ریت کے ٹیلوں میں گھرے اس گاؤں نے آشنا کیا تھا۔

مجھے بیتھوون کی پانچویں سمفنی آج بھی پسند ہے اور میں کبھی جلدی بیدار ہو جاؤں تو روی شنکر کی بیٹی انوشکا کا ستار بھی سنتا ہوں لیکن یہ دل میں لگائی جانے والی محبت کی بوٹی، یہ استعارے، یہ سوال اور اعمال۔ بندوں سے کچھ نہیں ملنا، بس ایک ’’دم گھٹ کوں‘‘ اور ختم دنیا کے جنجال۔ اچھی موسیقی اور بول دل میں اترتے جاتے ہیں … اور سفر تو ابھی جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔