موت کا کھیل

نسیم انجم  بدھ 6 نومبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج کل حالات اس طرح کے ہیں کہ لمحہ بھر میں اچھا خاصا جیتا جاگتا، ہنستا کھیلتا انسان موت کو گلے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور مفت میں موت حاصل کر لیتا ہے۔ ورنہ تو موت بھی اکثر اوقات بڑی مہنگی پڑ جاتی ہے۔ بیمار انسان اسپتال میں داخل ہوتا ہے، اس کے ایکسرے اور ٹیسٹ اگر ضروری ہیں تو کیے جاتے ہیں، بعض اوقات آمدنی میں اضافے کے لیے بھی یہ ٹیسٹ ضروری ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ معمولی سی تکلیف بھی آپریشن کا باعث بنا دی جاتی ہے۔ چونکہ آپریشن کرنے کے دہرے فائدے ہیں ایک تو آپریشن کی فیس، ادویات کی فروخت، چونکہ میڈیکل اسٹور اسپتال میں ہی واقع ہوتا ہے اس کا منافع الگ، دوسرا بڑا فائدہ کمرے کا کرایہ، جتنے دن مریض داخل رہے گا اتنے ہی دن رقم بڑھتی رہے گی اور جاتے وقت لاکھوں کا بل لواحقین کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور تحفتاً ڈیڈ باڈی علیحدہ۔

ہم نے ایسے کتنے ہی لوگوں کو دیکھا ہے کہ خوشی خوشی اپنے پیروں پر گئے اور واپسی میں دوسروں کے کاندھوں یا اسٹریچر پر آئے چونکہ عموماً اس طرح کی خبریں بھی منظر عام پر آتی ہیں کہ غلط انجکشن لگا دیا، آپریشن کرنا تھا سیدھے پیر کا اور کر دیا الٹے پیر کا، زہر پھیلنے کی وجہ سے ہاتھ یا ٹانگ کو جسم سے علیحدہ کرنا تھا، لیکن علیحدہ ہو گیا جسم کا صحت مند عضو، آنکھ کے آپریشن میں بھی ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں، ٹھیک ٹھاک نور چشم کو چھیڑ دیا جاتا ہے، اس صورت میں بے چارہ مریض دونوں آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے لیکن اس قسم کے سانحات کے بعد مریضوں اور ان کے اپنوں کو فیس بھی دینی پڑتی ہے۔

چونکہ ہر شخص کیس کرنے کے حق میں نہیں ہوتا اور کیس کرنا کون سا آسان کام ہے، بلکہ مشکل ترین کام، عدالتوں اور اسپتالوں کے چکر سے اﷲ رب العزت سب کو محفوظ رکھے اور جو ان حادثات کی زد میں آیا اس کی اچھی خاصی زندگی ہوگئی برباد۔ ویسے اچھے اسپتالوں اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، ہیں تو ضرور آٹے میں نمک کے برابر، اور نمک کے بغیر کسی بھی نمکین چیز کا مزہ ہی کرکرا ہو جاتا ہے، بے سواد کھانا کھانا کوئی پسند نہیں کرتا ہے اور سواد تو اچھے ڈاکٹروں سے علاج کرانے میں آتا ہے، یہ عظیم لوگ طمع و لالچ سے آزاد ہوتے ہیں۔ بس صبح و شام انسانیت کی خدمت کیے جاتے ہیں۔

مفت کی موت کے بھی بڑے چرچے ہیں، پہلے لاہور میں یہ اجل بٹا کرتی تھی اور اب یہ ہوا کے ساتھ سفر کرتی ہوئی کراچی میں بھی آ گئی ہے اور بھلے چنگے انسان کو لمحہ بھر میں لے اڑتی ہے۔ نہ اسپتالوں کا خرچ اور نہ والدین و عزیز و اقارب کی تیمارداری۔ اس طرح کی اموات ناگہانی آفات سے بڑھ کر ہوتی ہیں کہ ماں باپ کلیجہ مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ دو روز قبل کی بات ہے جب دو بھائی اپنے نانا کی عیادت کو نکلے تھے کہ ظالم ڈور نے جو کسی برچھی اور تیز دھار آلے سے کم نہیں تھی 4 سالہ بچے کی شہ رگ کو کاٹ ڈالا۔

بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو موت سے چھڑانے کی کوشش کی تو اس کا بھی ہاتھ کٹ گیا ، وہ بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔ سیکنڈری جماعت کا طالب علم اور چھوٹے بھائی کو حال میں ہی اسکول میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس واقعے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا۔ اس سے قبل بھی پتنگ کی ڈور نے کئی لوگوں کی جان لے لی اور آئے دن پتنگ کی ڈور بچوں اور بڑوں کو موت کی دلدل میں دھکیلتی رہتی ہے اور خونیں واقعات ظہور پذیر ہونے کے باوجود حکومت کی طرف سے پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ اب ایسی پابندی سے کیا فائدہ کہ سامنے آتے بھی نہیں اور صاف چھپتے بھی نہیں والی بات ہے کہ پابندی ہونے کے باوجود پابندی نہیں ہے، بالکل اسی طرح جب شب برأت میں بچے پٹاخے چھوڑنے سے باز نہیں آتے، باز کیونکر آئیں وہ کہ انھیں بے حد آسانی کے ساتھ نہایت کم قیمت میں پٹاخے میسر آ جاتے ہیں۔

یہ پٹاخے بھی بڑے خطرناک قسم کے ہوتے ہیں کہ چلتے ہوئے لوگ اچھلنے کودنے لگتے ہیں، بغیر کسی تکلیف یا گناہ کے اپنے کانوں کو پکڑ لیتے ہیں، شب برأت کا پورا مہینہ یہ اچھل کود جاری رہتی ہے۔ راہ گیروں کا سڑکوں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آتش بازی کے نقصانات بھی خوب ہوتے ہیں۔ غریبوں کی جھونپڑیاں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں۔ کبھی ان جھونپڑیوں میں سوئے ہوئے شیر خوار بچے جھلس جاتے ہیں، ایک غریب انسان کی تو کل کائنات ہی ختم ہو جاتی ہے، اب وہ رہ جاتا ہے اور کھلا آسمان، بھوکا پیٹ اور غم زدہ دل و جان، ایسی صورت میں سرکار نہ اسے سر چھپانے کے لیے جگہ دیتی ہے اور نہ تن کے لیے ضروریات زندگی کی چیزیں مہیا کرتی ہے، صدمے سے دل اس کا سلگتا ہے، پہننے، اوڑھنے کے کپڑے گھر کی اشیاء، سب ہی کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ وہی لوگ بچ پاتے ہیں جو گھر سے باہر ہوتے ہیں یا جو فوراً گھر سے باہر نکل آتے ہیں اور جب انھیں اپنے لخت جگر یاد آتے ہیں تب وہ دوبارہ آگ میں کود جاتے ہیں لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا ہے۔ جھونپڑی میں راکھ کے سوا رہ ہی کیا جاتا ہے۔

پچھلی اور موجودہ حکومتوں کو اس سنگین مسئلے پر توجہ دینا چاہیے، اس ضمن میں گورنر صاحب کا بیان چھپا تو ہے کہ پتنگ بازی پر پابندی لگائی جائے۔ پتنگ بازی کے شوق نے بہت سے نوجوانوں اور چھوٹے لڑکوں کو چھتوں سے نیچے گرا دیا ہے۔ پتنگ اڑانے اور اپنے حریف کی پتنگ کاٹنے کے چکر میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور ’’بو کاٹا‘‘ کے نعرے انھیں مست و بے خود کر دیتے ہیں، لیکن انجام برا ہی ہوتا ہے۔ فضاؤں میں اڑتی ہوئی رنگ برنگی اور اونچی نیچی پتنگوں سے آسمان گلرنگ سا نظر آتا ہے لیکن جب یہ موج مستی دوسرے کی جان لے لیتی ہے تو سوگ کا رنگ مرنے والے کے گھر اور محلے میں بہت گہرا نظر آتا ہے۔

پتنگ اڑانا کوئی اچھا شوق نہیں ہے۔ قائداعظم نے جب بچوں کو کانچ کے کنچے کھیلتے ہوئے دیکھا تو آپؒ نے فرمایا کہ اس کھیل سے کپڑے بھی گندے ہوتے ہیں لہٰذا کرکٹ کھیلنے کی طرف متوجہ کیا تھا۔ لیکن اب تو معاملہ برعکس ہے، بات کپڑوں کے گندے ہونے تک محدود رہتی تو بھی بہتر تھا لیکن افسوس یہاں تو جانیں جا رہی ہیں وہ بھی معصوم بچوں کی ، تاجر پٹاخوں اور پتنگ اور اس کا مانجھا بنانے اور فروخت کرنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کر سکتے ہیں، خرید و فروخت کے لیے ہزاروں چیزیں مارکیٹ میں موجود ہیں، ضروری تو نہیں ہے کہ موت کا کھیل کھلانے کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔