دنیا کا ساتواں عجوبہ؛ گرینڈ کینین نیشنل پارک

ڈاکٹر ثاقب ریاض  اتوار 5 جنوری 2020
زمین کے اندر پڑنے والی یہ عظیم الشان دراڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین پھٹنے کے سبب وجود میں آئی

زمین کے اندر پڑنے والی یہ عظیم الشان دراڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین پھٹنے کے سبب وجود میں آئی

امریکی ریاست ایریزونا میں واقع عظیم الشان وادی Grand Canyon کو دنیا کے سات قدرتی عجوبوں Seven natural wonders of the world میں شمار کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں اور قدرت کے اس عظیم شاہ کار کو دیکھتے ہیں۔

گذشتہ سال 2018 میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 60 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جن میں ایک بڑی تعداد امریکی شہریوں کی تھی۔ دنیا کے مختلف حصوں اور ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں اور یہاں کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قدرت کا یہ شاہ کار در اصل زمین کے اندر پڑنے والی ایک دراڑ ہے جس نے زمین کے سینے کو چیر کر رکھ دیا۔ یہ دراڑ ڈیڑھ کلو میٹر گہرائی تک چلی گئی۔

اس کی تہہ میں امریکا کا بڑا دریا دریائے کولو راڈو (Colorado River) بہتا ہے۔ ماہرین ارضیات کے اندازے کے مطابق زمین پھٹنے کا یہ واقعہ 60 لاکھ سال پہلے رونما ہوا۔ یہ دراڑ پڑتے ہی دریا نے اپنا راستہ اس کے اندر سے بنالیا۔ دریائے کولوراڈو کا امریکی معیشت میں اہم کردار ہے کیوںکہ یہ امریکا کے بڑے حصے کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ریاست کیلیفورنیا سے ایریزونا میں داخل ہوتے ہوئے یہ دریا بذریعہ پل عبور کرنا پڑتا ہے۔

2012-13ء میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی میں قیام کے دوران مجھے امریکا کی22 ریاستیں دیکھنے کا موقع ملا، نیویارک اور واشنگٹن DC سے لے کر لاس اینجلس تک اور بحر اوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل تک کے پانیوں کو چھونے کا موقع ملا۔ گرینڈ کینین نیشنل پارک دیکھنے کی خواہش تو عرصہ دراز سے تھی لیکن موقع نہیں مل رہا تھا۔ جولائی2013 ء میں کیلی فورنیا میں مقیم ماموں ڈاکٹر احسان الحق قاضی نے مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا۔ اگرچہ امریکا میں یہ میرے قیام کے آخری ایام تھے لیکن اس پُرکشش دعوت کو قبول کیا اور ان کی فیملی کے ہمراہ ریاست کیلی فورنیا سے ریاست ایریزونا کی طرف روانہ ہوئے۔

اگرچہ یہ سفر صبح سویرے شروع ہوا لیکن گرینڈ کینین پہنچتے ہوئے شام ہوچکی تھی۔ تاحدنظر پھیلے وسیع و عریض امریکی ریگستانوں سے گزرنے کا تجربہ بہت دل کش تھا۔ ہوٹل میں مختصر قیام کے بعد ہم اصل منزل کی طرف گام زن ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قدرت کا یہ عظیم الشان شاہ کار ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ڈھلتے سورج کی شعاعیں اور حرکت کرتے ہوئے سائے رنگ برنگی چٹانوں پر پڑ کر ان کی دل کشی میں اور بھی اضافہ کر رہے تھے۔

دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں سیاح قدرت کا یہ کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ 26فروری 1919ء کو اس علاقے کو امریکا کے نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہوا جس کے بعد امریکی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے کر سیاحوں کے لیے بہت سی سہولیات کا اہتمام کیا۔ یہاں پر وسیع و عریض پارکنگ، ریستورانوں کے علاوہ رہائشی ہوٹل موجود ہیں۔ عظیم الشان وادی کے قدرتی مناظر دیکھنے کے لیے بہت سے ویو پوائنٹ بنائے گئے ہیں جہاں سے سیاح اس خوب صورت وادی کے مناظر کا نظارہ کرتے ہیں۔

بعض مقامات سے بہتا ہوا دریا بھی نظر آتا ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ کوہ پیمائی کے شوقین بہت سے لوگ پیدل راستوں کے ذریعے پہنچ جاتے ہیں اور پھر شام تک واپس آجاتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اوپر سے ہی قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ سطح زمین سے دریا کی گہرائی تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے۔ رنگ برنگی چٹانیں زمین کے اندر کا خوب صورت منظر پیش کرتی ہیں۔ کسی نے زمین کے اندر کا منظر دیکھنا ہو تو یہ بہترین جگہ ہے۔

دونوں طرف چٹانوں کے اندر بے شمار چھوٹی بڑی غاریں ہیں جن میں بہت سے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ علاقہ امریکا کے قدیم ریڈ انڈین قبائل کی آماج گاہ رہا ہے۔ ان قبیلوں کی نسل آج بھی موجود ہے اور انہیں قانونی طور پر بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ پورے امریکا میں جوا خانوں (Casinos) کا کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ امریکی سرزمین کے اصل مالک وہ ہیں۔ بہت سی فلموں میں پرانے زمانے کے ریڈانڈین قبیلوں کے بودوباش کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ قبیلے گرینڈ کینین کی غاروں میں رہتے تھے۔ نایاب جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بہت سی نسلیں آج بھی اس دل کش وادی کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ ہزاروں قسم کے نایاب پودے اور درخت بھی ان وادیوں میں موجود ہیں۔

ماہرین ارضیات کے لیے گرینڈ کینین خصوصی دل چسپی کی جگہ ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق پھٹی ہوئی زمین میں سب سے نیچے کی تہہ زیادہ تر معدنیات بالخصوص گرینائیٹ پر مشتمل ہے جو آج سے اڑھائی کھرب سال (2.5 billion years) پہلے وجود میں آئیں۔ اس کے اوپر کی تہیں لائم سٹون (Limestone) کی ہیں جن کی عمر540 ملین سال ہے۔ سب سے اوپر والی تہیں آج سے تین سو ملین سال پہلے وجود میں آئیں اور یہ بھی زیادہ تر لائم سٹون پر مشتمل ہیں۔ گرینڈ کینین کی چٹانوں کی تہیں ارضیاتی تاریخ کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ آج بھی ہزاروں جیالوجسٹ یہاں پر اپنی تحقیق کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔

بعض مقامات پر گذشتہ ایک ہزار سال میں نکلنے والے سیاہ رنگ کے لاوے کی تہیں بھی موجود ہیں۔ زمین پھٹنے کا واقعہ آج سے چھ ملین سال پہلے رونما ہوا جس کے نتیجے میں دنیا کا یہ قدرتی عجوبہ معرض وجود میں آیا۔ اس کی کل لمبائی450کلو میٹر ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ چوڑائی 29کلو میٹر ہے۔ کم سے کم چوڑائی چھ کلو میٹر ہے۔ یہاں پر دونوں موسم اپنی شدت کے ساتھ آتے ہیں۔ موسم سرما میں برف پڑتی ہے اور درجۂ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں کا درجۂ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ ہرن (Deer)اور نیل گائے یہاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ہر قسم کا شکار منع ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بڑی شاہراہوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے ہیں اور سیاحوں کو تصویریں بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔

گرینڈ کینین کی چٹانیں بہت سے رنگوں پر مشتمل ہونے کی بدولت دل کش منظر پیش کرتی ہیں۔ زیادہ تر چٹانیں گہرے سرخ رنگ کی مٹی اور پتھروں پر مشتمل ہیں۔ اپنے قدرتی حسن اور دل کشی کے باعث یہ وادی ہالی وُڈ کے فلم سازوں کے لیے خصوصی توجہ کا باعث رہی ہے۔ بہت سی موویز کے مناظر یہاں فلم بند کیے گئے جس کی بدولت یہ قدرتی عجوبہ دنیا بھر میں مقبول ہوا اور لاکھوں سیاح یہاں آنا شروع ہوئے۔

بعض فضائی کمپنیوں نے گرینڈ کینین کی فضائی سیر کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر وادی کے اندر سے گزرتے ہیں اور ان پر بیٹھے سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں پر رہائش اور کھانے پینے کے بہت سے ہوٹلز اور ریستوراں موجود ہیں۔ کمرشلائزیشن کا ہر طرف راج ہے۔ انٹری فیس اور پارکنگ فیس سے لے کر بہت سے دوسرے اخراجات بھی سیاحوں کو کرنا پڑتے ہیں۔

غروب آفتاب کا منظر یہاں پر بہت ہی دل کش ہوتا ہے جب سورج کی کرنوں کے ساتھ حرکت کرتے سائے چٹانوں کی رنگت میں نور بھر دیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے ہزاروں سیاح اپنے گلوں میں کیمرے لٹکائے کافی دیر پہلے ہی بیٹھ جاتے ہیں اور پھر غروب آفتاب کا سارا منظر اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے ہیں۔

شام کے سائے ڈھلنے لگے اور میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ایک چٹان کے ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ قدرت کا یہ حسین و جمیل شاہ کار میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ایک خوب صورت پرندہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے لمبی اڑان لی اور چہکتا ہوا گہری نیلگوں وادیوں میں گم ہوگیا۔ مجھے اس پرندے کی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ پھر اچانک سورج کی روشنی مدھم پڑنے لگی۔

میں سوچ رہا تھا قدرت کا یہ شاہ کار کتنا عظیم ہے تو اس کا بنانے والا کتنا بڑا ہوگا۔ وہ کتنا عظیم اور برتر ہوگا جس نے یہ ساری کائنات بنائی، زمین، آسمان، چاند، ستارے اور سیارے بنائے۔ کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جو صناّع کی صناّعی تو دیکھنے آتے ہیں لیکن صناّع کے بارے میں نہیں سوچتے۔ خدا پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان یہاں آکر اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے کیوںکہ یہ ان کا ایمان ہے کہ یہ سب ان کے رب نے بنایا ہے قدرت کا یہ حسین و جمیل نمونہ دراصل رب کی کبریائی ظاہر کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ زمین و آسمان کے خالق و مالک نے اپنی زمین کا تھوڑا سا حصہ چیر کر نسل انسانی کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

گرینڈ کینین کوہ پیماؤں کے لیے اِنتہائی پُرکشش مقام ہے۔ اگرچہ بہت سے صاحب حیثیت سیاح ہیلی کاپٹر یا چھوٹے جہاز کے ذریعے پہاڑ کے اندر کے مناظر دیکھتے ہیں لیکن کوہ پیمائی کے شوقین خواتین و حضرات اِنتہائی پُرخطر راستوں سے گزر کر نیچے بہتے ہوئے دریا تک جاتے ہیں اور پانی کو ہاتھ لگا کر واپس آتے ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں میں قدیم امریکی باشندوں کے بنائے ہوئے غار بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

امریکا کی دریافت سے پہلے یہ پورا علاقہ قدیم قبائلی باشندوں کی ملکیت تھا جنہیں انڈین کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی انڈین قبیلوں کا ہمارے پڑوسی ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قدیم امریکی باشندے جنگلی جانوروں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا شکار کرکے کھاتے تھے اور اِنتہائی وحشیانہ زندگی گزارتے تھے۔

1556ء میں سپین سے امریکا جانے والے تین فوجیوں نے پہلی بار یہ جگہ دیکھی تو حیران رہ گئے۔ اپنے ملک واپس جا کر اپنی رپورٹ میں اُنہوں نے اس جگہ کا ذکر کیا۔ یوں دنیا کو اس قدرتی عجوبے کے وجود سے آگاہی ہوئی۔ سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے اور بہت سے ہالی وڈ والے یہاں فلمیں بنانے آجاتے ہیں۔

امریکا کے سابق صدر روز ویلٹ کو اس جگہ سے عشق تھا۔ وہ کئی بار یہاں شکار کرنے آئے۔ ان کے دور میں گرینڈ کینین کو امریکا کے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ پارک کے مشرقی حصے میں ایک بہت بڑا واچ ٹاور ہے، جہاں سیڑھیوں سے چڑھ کر لوگ بلندی سے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قدیم امریکی قبائلی باشندوں کا ایک گاؤں بھی اس علاقے میں موجود ہے۔ برائے نام سے لباس میں ملبوس یہ قبائلی لوگ سیاحوں کا راستہ دیکھتے ہیں، اِنہیں خوش آمدید کہتے ہیں، اِنہیں خچروں پر بٹھا کر پہاڑوں کی سیر کراتے ہیں اور بالآخر ان کی جیب خالی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھ تصویر بنانے والوں سے بھی پیسے وصول کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان قاضی نے ہمیں بتایا کہ وہ عالم شباب میں گرینڈ کینین کی کوہ پیمائی کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ قدرت کا یہ شاہ کار دیکھنے کے لیے ہم دوروز گرینڈ کینین ہوٹل میں مقیم رہے کئی بار جنگلی جانوروں سے آمنا سامنا ہوا، جن میں زیادہ تر ہرن اور بارہ سنگھے جیسے جانور تھے۔

ہماری اگلی منزل ریاست اریزونا اور یوٹا کی سرحد پر واقع عجائبات کی وادی (monument Valley) تھی۔ گہری سرخ مٹی اور پتھروں سے بنے قدرتی شاہ کار اس پارک کی خصوصیت ہیں۔ ہالی وڈ کی بہت سی فلموں کے علاوہ اشتہاروں اور کیلنڈروں پر ان قدرتی شاہ کاروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ یہ پارک قدیم امریکی باشندوں کے قبیلے ’’نواہو‘‘ کی ملکیت ہے اور اس کی تمام آمدن بھی اسی قبیلے کو جاتی ہے۔

پارک کے اندر تقریباً 27 کلومیٹر کا سفر سرخ مٹی سے بنے کچے راستے پر طے کرنا پڑتا ہے۔ نواہو قبیلے کے لوگ اس وادی کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق مقدس وادی قرار دیتے ہیں کیوںکہ ان کے آباؤ اجداد ان قدرتی شاہ کاروں کو دیوتا سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ قبیلے کی موجودہ نسل بھی کم و بیش اسی طرح کے خیالات رکھتی ہے۔ عجائبات کی اس وادی میں 27 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے دو گھنٹے میں طے کیا۔ شدید گرد کے باعث ہماری گاڑی اپنا رنگ تبدیل کر چکی تھی۔ ہم نے قریب جا کر عجیب و غریب شکلوں کے حامل مٹی کے ان تو دوں کا مشاہدہ کیا جو لاکھوں سال پہلے معرض وجود میں آئے اور زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ان کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی رہیں۔

نواہو پارک کے دورے سے فارغ ہوئے تو شدید تھکاوٹ ہوچکی تھی لہٰذا واپسی کا ارادہ کیا۔ ریاست نیومیکسیکو پہنچ کر ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اس روز اتفاق سے چارجولائی کا دن تھا جو امریکا کا یوم آزادی ہے۔ امریکی لوگ ہر شہر اور قصبے میں آتش بازی کے ذریعے اپنے ملک سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔

اس روز جہاں سے بھی گزر ہوا رات کی تاریکی میں امریکی لوگوں کو جشن مناتے دیکھا۔ اگلے روز کا سفر بھی اِنتہائی طویل تھا۔ ایک بار پھر ریاست نیو میکسیکو سے ریاست اریزونا میں داخل ہوئے ہماری اگلی منزل پیٹریفائیڈ فارسٹ نیشنل پارک تھا۔ وسیع رقبے پر پھیلالق ووق صحرا ظہور انسانیت سے کروڑوں سال پہلے جنگل ہوا کرتا تھا، پھر کسی زلزلے یا ارضیاتی تبدیلی کے نتیجے میں یہ جنگل زمین کے اندر دھنس گیا۔

380 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا یہ نیشنل پارک اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں درختوں کے فوسلز عقل انسانی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ کروڑوں سال پہلے زمین کے سینے میں دفن ہو جانے والے انتہائی لمبے اور موٹے درختوں کے تنے فوسل بن کر پتھروں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ فوسل پورے پارک میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔

ہر سال لاکھوں سیاح یہاں آتے ہیں اور قدرت کی صناعی کے یہ عظیم الشان نمونے شوق سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگ تو چھوٹے چھوٹے پتھر چرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پارک کے گیٹ پر موجود سیکیوریٹی سسٹم اس چوری کو پکڑ لیتا ہے اور پھر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ پارک کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی موجود ہے جہاں فوسلز کے نمونوں کے علاوہ ڈائنو سارز کے ڈھانچے اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ پانچ سے10 فٹ قطر پر محیط انتہائی جسیم درختوں کے تنے پتھر سے بھی زیادہ سخت بن چکے ہیں۔ کروڑوں سال زمین کے سینے میں مدفون رہنے والے یہ درخت دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کئے ہوئے ہیں۔

پتھریلے درختوں کے اس جنگل میں انواع و اقسام کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔ قریب ہی واقع صحرا کو پینٹڈ ڈیزرٹ یعنی رنگ شدہ صحرا کہا جاتا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے اس صحرا کی چٹانوں کو رنگ برنگے روغن سے نہلا دیا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ چٹانیں قدرتی طور پر مختلف رنگوں کی حامل ہیں۔ ان کی مختلف تہیں سرخ، سفید، سیاہ اور بادامی رنگوں کی مٹی اور پتھروں کی وجہ سے ایسا دل کش منظر پیش کرتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کائنات کے خالق نے کتنی خوب صورت کائنات بنائی ہے اس کا ایک ایک ذرہ اپنے خالق کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔

پینٹڈ ڈیزرٹ سے گزرتے ہوئے ہماری گاڑی ایک اور بڑی شاہراہ پر گام زن تھی جو تفریحی علاقے سیڈونا جا رہی تھی۔ یہ ریاست اریزونا کا پہاڑی علاقہ ہے جو قدرتی خوب صورتی اور گہرے سرخ رنگ کی مٹی کی وجہ سے مشہور ہے۔ دور دور تک سرخ مٹی کے بڑے بڑے تودے سیڈونا کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔