اخلاقیات (دوسرا اورآخری حصہ)

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 3 جنوری 2020
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

مختلف حالات میں دو اخلاقی ذمے داریوں کی ادائیگی میں ترجیحات کا سوال پیدا ہونا بھی ابدی صداقت کی ہی ایک شکل ہے۔ مثلاً وعدہ نبھانا اور بیمارکی مدد کرنا۔ حالات کے پیش نظر ایک صداقت کی خاطر دوسری صداقت کو ترجیح دینا بھی اخلاقی فیصلہ ہی کہلائے گا اور رہے گا۔

مثلاً میں نے اپنے دوست سے فلاں مقام پر ملنے کا وعدہ کیا لیکن ابھی میں کار میں بیٹھا ہی تھا کہ پڑوسی کی نازک حالت کی اطلاع مجھے ملتی ہے جو میری مدد اور ہمدردی کا مستحق ہے دونوں اخلاقی قدروں کی تکمیل عقلی جواز رکھتی ہیں۔ ان دو میں سے جو اخلاقی قدر میری عقل کو زیادہ متاثر کرتی ہے اس پر عمل ہوجائے گا۔ اس لیے اس مکتب فکر کی نظر میں یہ کہنا کہ اخلاقیات matter of feeling ہے صحیح نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اخلاقیات matter of reason ہے۔

اخلاقی نظریات: 18 ویں صدی میں اخلاقی تصورات (moral ideas) کے اس سوال پرکافی گرما گرم اور پر زور دلائل کے ساتھ بحث ہوتی رہی کہ اخلاقی تصورات کا ماخذ origin انسان کا ضمیر اور اس کے احساسات ہیں یعنی ethics is a matter of feelings یا انسانی شعور اور اس کا ذاتی مفاد یعنی ethics is a matter of reason & self interest ہے۔

وہ مکتب فکر جو احساسات کو اخلاقی تصورات کا ماخذ قرار دیتے ہیں ان کو Naturalist اور ان کی اخلاقی فکر کو eithical naturalism کہتے ہیں اور جو عقل وشعور اور حکمت (reason) کو اخلاقی تصورات کا سرچشمہ سمجھتے ہیں ان کو Rationalist اور ان کی اخلاقی فکر کو Etihical Rationalism کہتے ہیں۔ اخلاقی فیصلوں Moral Judgment کی یہ دونوں تشریحات Inter pre tations کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔

Naturalism

اس مکتب فکر کا مرکزی نقطہ خیال یہ ہے کہ :

یعنی اخلاقیات کا تمام تر دار و مدار انسانی نفسیات ، فطری احساسات اور خواہشات پر ہے۔ خیر و شر، اچھائی اور برائی، اوامر اور نواہی کے رجحانات انسانی فطرت میں موجود ہیں۔ تقریباً ہر انسان خوشی کا آرزو مند ہوتا ہے۔ سکھ کو پسند اور دکھ کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی فطری رجحان کی وجہ سے ہر فرد ایسے دوسرے افراد کی تعریف و توصیف بیان کرتا ہے اور ان کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو خوشی اور سکھ کی باتیں کرتا اور عملی طور پر ان کی پیدائش کے اسباب مہیا کرتا ہے اور ایسے افراد کی تکذیب اور مذمت کرتا ہے اور ان کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دکھ کے سامان دوسروں کے لیے کرتا ہے۔

کسی فرد اور اس کے کام کی اخلاقی حمایت کا احساس فطری جذبہ ہمدردی کا نتیجہ ہے۔ ہمدردی ایک طرح سے قلبی طور پر دوسروں کی خوشی میں شرکت کا نام ہے۔ ہیوم اور آدم اسمتھ کی نگاہ میں انسانی فطرت کی اصل ہمدردی، خلوص اور خیر خواہی ہے یہی اخلاق کا نقطہ کمال ہے۔

اخلاقیات، اصول و اقدار، معیار حق و باطل، تصورات خیر و شر اور اوامر و نواہی کی فلسفیانہ تحقیق اور جستجو کا نام ہے۔

افلاطون کی نظر میں اخلاقیات ’’ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے‘‘ کے جواب کی تلاش کا نام ہے۔ اخلاقیات انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنے کا درس دیتی ہے۔

اخلاقیات کا بنیادی مقصد اصول و اقدار کے تصورات اور معیارات کا ناقدانہ انداز میں قدر و قیمت کا تعین کرنا ہے۔

اور اس کا ثانوی مقصد Clarifying Concepts یعنی تصورات کی واضح اور تسلی بخش روشن تصویر پیش کرنا ہے تاکہ فرد کو اعتماد اور یقین کے ساتھ عملی قدم اٹھانے میں مدد مل سکے۔

اخلاقیات کے دائرہ عمل میں نہایت وسعت ہے۔ اس میں ہمہ گیریت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ اس کا دائرہ عمل ذات سے لے کر کائنات تک ، انفرادیت سے لے کر اجتماعیت تک پھیلا ہوا ہے۔ اخلاقیات زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کی تعمیر اور صورت گری کرتی ہے۔ اس کی حکمرانی ہر شعبہ زندگی پر ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا عائلی، معاشرتی ہو یا تمدنی، معاشی ہو یا سیاسی، قانونی ہو یا روحانی، قومی ہو یا بین الاقوامی۔ زندگی کا ہر شعبہ اخلاقیات کے مرکز و محور پرگردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اخلاقیات وہ نور ہے جس سے نشان راہ کا تو پتا چل سکتا ہے لیکن منزل تک پہنچانا اس کے بس میں نہیں۔ وہ انسان کے اپنے بس میں ہے۔ اخلاقیات کا اصل کام یہ ہے کہ وہ انسان کے سامنے خیر وشر اور نیکی و بدی کو واضح کردیتی ہے اور اس طرح نیکی راہ کو آسان واضح اور روشن کردیتی ہے۔

اس کا کام جبری طور پر نیک بنانا نہیں، نیکی کی راہ دکھانا ہے جس پر چلنے یا نہ چلنے کا انحصار فرد کے ارادے پر ہے۔ یہ علم ایک حکیم کی طرح انسان کو اچھے اور برے میں امتیاز کرا دیتا ہے اور اس کی چشم عبرت و بصیرت کو کھول دیتا ہے تاکہ انسان خیر وشر اور اس کے نتائج اور اثرات سے بخوبی واقف ہوجائے اب آگے اس کی قوت ارادی کا کام ہے جو خیرکے اختیار اور شر سے پرہیز پر آمادہ کرسکے۔ مسائل زندگی کا عملی حل اخلاقیات کے پاس نہیں۔ اس کا حل انسان کی قوت ارادی کے پاس ہے جو اصل میں قوت نافذہ اور قوت محرکہ ہے اور اس کے لیے ضرورت ہے کہ انسان اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو۔ خود سوچے سمجھے تولے اور پرکھے اور پھر عملی قدم اٹھائے اپنی راہ عمل کا تعین کرے۔

جو علم بھلائی اور برائی کی حقیقت کو ظاہرکرے انسانوں کو آپس میں کس طرح معاملہ کرنا چاہیے، اس کو بیان کرے انسانی عمل کی نیت کو واضح کرے مختصر الفاظ میں جو فضائل و رذائل کا علم بخشے اور یہ بتائے کہ انسان کس طرح فضائل سے مزین اور رذائل سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔