2020 سے متعلق نوسٹراڈیمس کی خوفناک پیش گوئیاں

سید عاصم محمود  اتوار 5 جنوری 2020
رواں برس کیا تیسری جنگ عظیم کے شعلے کراچی تا خیبر کو اپنی لپیٹ میں لے سکیں گے؟

رواں برس کیا تیسری جنگ عظیم کے شعلے کراچی تا خیبر کو اپنی لپیٹ میں لے سکیں گے؟

ہمارے ایک پڑوسی کافی توہم پرست ہیں۔ بلّی کی خرخراہٹ‘ پہیوں کی چرچراہٹ‘موزہ الٹا ہونے اور کتا بھونکنے سے اندازہ لگاتے ہیں کہ مستقبل میں کوئی آفت آنے والی ہے یا خوش خبری۔

حالیہ دسمبر کے آخری ہفتے ان سے ملاقات ہوئی تو گھبرائے سے لگے۔ بولے ’’میاں ‘ نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ خدا خیر کرے۔‘‘ چونک کر پوچھا ’’انکل کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟‘‘

کہنے لگے: ’’لو تمہیں کچھ پتا ہی نہیں۔ ارے نوسٹراڈیمس کی خوفناک پیشن گوئی پڑھو۔ 2020ء جنگ و تباہی کا سال ہے۔ اسی برس تیسری جنگ عظیم شروع ہو گی۔ میں تو جنگ کے لیے تیار ہوں۔ تم اپنی خیر مناؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے اور ہمیں حیران پریشان چھوڑ گئے۔

ماضی میں معلومات کاسب سے بڑا ماخذ کتابیں تھیں تو اب نیٹ بھی بڑا ذریعہ بن چکا۔ مارے تجسس کے ہم نے گوگل پر نوسٹراڈیمس لکھا تاکہ جان سکیں، اس مغربی نجومی نے آخر سال رواں کے متعلق کیا پیش گوئیاں فرمائی ہیں۔ آخر ہر انسان مستقبل کی پنہائیوں میں جھانکنے کا شوق رکھتا ہے۔ لیجیے  میاں گوگل واقعی 2020ء کے بارے میں نوسٹرا ڈیمس کی خوفناک پیش گوئیاں سامنے لے آئے۔ انہیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ خدانخواستہ سال رواں ہماری زندگی کا آخری برس ہو سکتا ہے۔ ہائے‘ ابھی تو ہم صحیح طرح دنیا کی بہاروں سے بھی لطف اندوز نہیں ہوئے!

جعلی ڈاکٹر

رواں برس اپنی قسمت اور اپنے ستاروں کی چال جاننے سے قبل نوسٹراڈیمس کے بارے میں جان لیجیے۔ وہ دسمبر 1503ء میں فرانس میں پیدا ہوا۔ باپ یہودی تھا مگر بعدازاں کیتھولک عیسائی بن گیا ۔  غلے کا تاجر اور بنیا تھا۔ سود پر رقم دیتا۔ نوسٹراڈیمس چودہ سال کا تھا کہ تعلیم کی خاطر یونیورسٹی اوینیون میں داخلہ لیا۔ مگر طاعون کے حملے نے ایک سال بعد ہی درسگاہ کو بند کر ڈالا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ پھر گھر جانے کے بجائے دیہات میں گھومنے پھرنے لگا۔ موصوف نے اپنی تحریروں میں دعوی کیا ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرتا تھا۔اس نے پھر جڑی بوٹیوں سے ادویہ بنائیں اور گھوم پھر کر انھیں فروخت کرنے لگا۔

1529ء میں نوسٹراڈیمس نے ڈاکٹر بننے کے لیے یونیورسٹی مونٹی پلر میں داخلہ لیا۔ تاہم جلد اساتذہ کو پتا چل گیا کہ وہ دوا فروش رہا ہے۔تب دوا فروش یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔ اسی بنا پر اسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ وہ پھر دوا فروشی کر کے گزر بسر کرنے لگا۔ دور جدید میں اس کے معتقد مگر اسے’’ڈاکٹر‘‘ ہی کہتے ہیں۔

اس جعلی ڈاکٹر نے گلاب کی پتیوں سے طاعون کا علاج کرنے کے لیے ایک گولی بنائی تھی۔ مگر وہ 1534ء میں اپنی بیگم اور دو بچوں کو طاعون سے محفوظ نہ رکھ سکا۔اہل خانہ کی موت نے اسے دل شکستہ کر دیا۔ وہ پھر اٹلی چلا گیا اور وہاں دس گیارہ سال مقیم رہا۔ اٹلی میں قیام کے دوران ہی نوسٹراڈیمس شاید اپنا غم غلط کرنے کے لیے روحانیت اور پراسرار علوم میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ نجومیوں‘ کاہنوں‘ دست شناسوں ‘ پیروں وغیرہ کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور خود بھی ’’روحانی عالم‘‘ بن بیٹھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے خوابوں میں مستقبل کے حالات اور واقعات دکھائی دینے لگے۔1574ء میں نوسٹراڈیمس نے ایک امیر بیوہ سے شادی کر لی۔ فکر معاش سے آزاد ہو کر اب اس کا بیشتر  وقت روحانی دنیا میں گزرنے لگا۔

نام نہاد روحانی عالم

اس زمانے میں توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔لوگ نجومیوں سے مشورے کر کے اہم منصوبے بناتے تھے۔ اس لیے نوسٹراڈیمس کو کئی پیروکار مل گئے۔ وہ اس سے اپنی قسمت یا مستقبل کا حال پوچھنے آتے۔ چند بار اتفاقیہ طور پر اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہو گئیں۔ بس پھر کیا تھا‘ وہ ایک ماہر نجوم کی حیثیت سے مشہور ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اسے احساس ہوا کہ اپنی شہرت سے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ 1550ء سے ایک سالانہ کتاب (المانک ) شائع کرنے لگا۔اس میں زائچوں ‘ آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں‘ موسمی حالات وغیرہ کے علاوہ مستقبل کی پیش گوئیاں کا بھی ذکر موجود ہوتا۔

اس دور میں جادوگری کو کفر سمجھا جاتا تھا۔ کیتھولک کلیسا جادوگروں کو واجب القتل قرار دے چکا تھا۔ ٹوسٹراڈیمس کو خطرہ تھا کہ پیش گوئیاں کرنے پر کہیں اسے بھی جادوگر نہ سمجھ لیا جائے۔ اس واسطے اس نے شاعرانہ انداز اپنایا اور رباعی میں ایک پیش گوئی بیان کرنے لگا۔ ہر رباعی میں فرانسیسی کے علاوہ لاطینی‘ یونانی اور مقامی بولیوں کے الفاظ بھی شامل  ہوئے۔ تلمیحیں ‘ استعارے اور اصطلاحیں بھی برتی گئیں۔ دیومالا اور تاریخی واقعات کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ اس ساری چکر بازی کا مقصد یہ تھا کہ کلیسا کی مذہبی پولیس رباعیوں میں پوشیدہ پیش گوئیوں کو آسانی سے دریافت نہیں کر سکے۔یوں وہ جادوگر قرار نہ پاتا۔

فرانس میں نوسٹراڈیمس کی مرتب کردہ سالانہ کتب کو کافی پذیرائی ملی ا ور وہ اس کی موت تک شائع ہوتی رہیں ۔ ماہرین کی رو سے ان کتب میں کم ازکم 6338پیش گوئیاں محفوظ ہیں۔ 1555ء میں اس نے پیش گوئیوں کی باقاعدہ کتاب شائع کرائی جس کا نام ’’لے پروفیٹی‘‘(Les Propheties) ہے۔

یہ 942 رباعیوں پر مشتمل ہے۔اس کی تمام کتب میں اسی کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ 1555ء ہی میں فرانس کی ملکہ کیتھرائن نے اس سے اپنا اور اپنے بچوں کازائچہ بنوایا۔ شاہی دربار تک رسائی نے اسے مزید مشہور بنا دیا۔وہ جولائی 1566ء میں چل بسا۔ کہا جاتا ہے، اس نے اپنے ڈاکٹر کو موت سے ایک دن قبل ہی بتا دیا تھا کہ وہ اگلے روز کا سورج نہیں دیکھے گا۔اس کی پیش گوئیوں کا ’’گیرائی و گہرائی‘‘ سے مطالعہ کرنے والے مغربی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس کی یہ پیش گوئیاں عملی جامہ پہن چکیں:۔فرانسیسی بادشاہ ہنری کی موت‘ لندن کی عظیم آگ‘ فرانسیسی انقلاب‘ نپولین بونا پارٹ کا عروج‘ ہٹلر کی آمد‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم‘ جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرانا‘ چاند پر اپالو کا اترنا‘ شہزادی ڈائنا کی موت اور حادثہ نائن الیون۔

توہم پرستی کا شاخسانہ

دلچسپ بات یہ کہ نوسٹراڈیمس کو بطور غیب داں اور نجومی مشہور کرنے والے مغربی ماہرین کا وتیرہ یہ ہے کہ وہ پہلے اس کی رباعیوں میں کسی واقعے کے اشارے ڈھونڈتے ہیں۔ جب ایسی رباعی مل جائے تو اعلان کر دیتے ہیں کہ اس نے پہلے ہی واقعے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ یہ سارا فراڈ بلکہ کھڑاگ اسی لیے اپنایا گیا تاکہ اس کی پیش گوئیوں پر مبنی کتب دنیا بھر میں فروخت ہو سکیں۔

دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کا دور عروج پر ہے۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں بظاہر تعلیم یافتہ لاکھوں لوگ اس کی پیش گوئیوں پر مبنی کتب خریدتے اور ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ سچ ہے‘ تو ہم پرستی مرتے دم تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

درج بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ کلیسا کی پولیس سے بچنے کے لیے نوسٹرا ڈیمس رباعیوں کی شکل میں اور الفاظ کے ہیرپھیر سے اپنی پیش گوئیاں بیان کرتا رہا۔ وہ عموماً ماضی کے واقعات کو مستقبل پر منطبق کردیتا۔ لیکن لاکھوں سادہ لوح اس کی پیش گوئیوں کو سچ جان کر ان پر اعتبار کرنے لگے۔

اپنے اعتقاد کے باعث وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کی کسی پیش گوئی کا پورا ہوجانا محض اتفاق ہے۔ حقیقت میں اس فرانسیسی نجومی نے انسان کی وہم پرستی سے فائدہ اٹھایا اور نام نہاد پیش گوئیوں کی کتابیں بیچ کر دولت، شہرت اور عزت پانے میں کامیاب رہا۔مضحکہ خیز بات یہ کہ اب دنیائے نیٹ میں اس کی جعلی پیش گوئیاں بھی زیر گردش ہیںمگر ہمارے پڑوسی انکل جیسے توہم پرست انھیں سچ مان کر خود پریشان ہوتے اور دوسروں کا سکون بھی برباد کرتے ہیں۔اب ’’عظیم‘‘غیب داں کی سال رواں میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جانے کی پیش گوئی ہی کو دیکھئے جو دنیائے نیٹ میں بہت مشہور ہے۔ انگریزی میں وہ کچھ یوں ہے:

“In the city of God, there will be a great thunder

Two brothers torn apart by Chaos while the fortress endures

The great leader will succumb

The third big war will begin when the big city is burning.”

(ترجمہ: خدا کے شہر میں زبردست کڑک پیدا ہوگی

انتشار دو بھائیوں کو جدا کردے گا جب قلعہ حملہ سہے گا

عظیم لیڈر شکست کھائے گا

جب بڑا شہر جلے گا تو تیسری بڑی جنگ شروع ہوگی۔)

اسی پیش گوئی کی بنیاد پر بہت سے توہم پرست پاکستانی سمجھتے ہیں کہ سال 2020ء میں تیسری عالمگیر جنگ چھڑسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ درج بالا پیش گوئی نوسٹرا ڈیمس نے لکھی ہی نہیں، یہ تو بیسویں صدی کے ایک نوجوان طالب علم، نیل مارشل کی تخلیق ہے۔ یہ کینیڈا کی بروک یونیورسٹی کا طالب علم تھا، انسانوں کی توہم پرستی پر بہت کڑھتا تھا۔ خصوصاً اسے یہ دیکھ کر تاؤ آتا کہ لوگ نوسٹرا ڈیمس اور دیگر نجومیوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرلیتے ہیں۔

1997ء میں نیل مارشل نے نوسٹراڈیمس پر ایک تنقیدی مضمون قلمبند کیا۔ اس میں نیل نے لکھا کہ کوئی بھی شخص نوسٹراڈیمس جیسی پیش گوئی لکھ سکتا ہے۔ توہم پرست رباعی کو نوسٹراڈیمس کی تخلیق ہی سمجھے گا۔تبھی اس نے درج بالا پیش گوئی لکھ ڈالی۔ نیل کا خیال تین سال بعد درست ثابت ہوا۔ ستمبر 2001ء میں نائن الیون حادثہ پیش آیا۔ جلد ہی دنیائے نیٹ میں نیل مارشل کی تخلیق کردہ رباعی نوسٹرا ڈیمس کی پیش گوئی بن کر مشہور ہوگئی۔ یہ کہا جانے لگا کہ ممتاز فرانسیسی نجومی نے پہلے ہی حادثہ نائن الیون کی پیش گوئی کردی تھی۔

ہٹلر کا عروج

مزے دار بات یہ کہ نیل مارشل کی رباعی میں آخری سطر نہیں تھی۔بعد میں کسی انٹرنیٹئے نے رباعی میں شامل کردی۔ بس تب سے یہ رباعی تیسری جنگ عظیم کی آمد کا اعلان بن چکی۔ جب بھی نیا سال شروع ہو، تو نیٹ پر اس کا چرچا ہوتا ہے۔ چناں چہ ہمارے پڑوسی انکل کی طرح دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں توہم پرست سمجھتے ہیں کہ نئے برس میں تیسری جنگ عظیم دنیا تباہ کرسکتی ہے۔ کسی سیانے نے درست کہا ہے کہ سوجھ بوجھ اور عقل کی سب سے بڑی دشمن توہم پرستی ہے۔اسی طرح مشہور ہے کہ نوسٹراڈیمس نے درج ذیل رباعی میں جرمنی کے ایڈلف ہٹلر کے عروج کی پیش گوئی کی ہے۔

” The major battle shall be close by the Hister

He shall cause the great one

in an iron cage to be dragged

while the Germans shall be looking at the infant Rhine.”

اس پیش گوئی میں جرمنی، جنگ اور ہسٹر کا ذکر ہے جو ہٹلر سے ملتا جلتا نام ہے۔ مگر یہ کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ فرانسیسی میں دریائے ڈینوب کا ایک حصہ ہسٹر کہلاتا ہے۔ لیکن نوسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں سے بیسویں صدی میں مالی فوائد حاصل کرنے والے جعلی دانش وروں نے اسے ہٹلر سے تشبیہ دے دی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کی ایک بھی ایسی پیش گوئی نہیں جس کی بنیاد کوئی دانشور یہ اعلان کرسکے کہ مستقبل میں اس میں بیان کردہ واقعہ ظہور پذیر ہو گا۔ جیسا کہ بتایا گیا، جب کوئی نمایاں واقعہ جنم لے، تو نوسٹرا ڈیمس کی پیش گوئیوں سے منسلک دانشور کسی پیش گوئی کو اس سے جوڑ دیتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ پیش گوئی کی تشریح کرتے ہوئے دور کی کوڑی لاتے اور بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔

میاں نوسٹراڈیمس کیا کم تھے کہ بیسویں صدی میں توہم پرستوں نے ایک نابینا نجومی خاتون ،بابا ونگا ایجاد کرلی۔ بلغاریہ کی یہ خاتون 1911ء میں پیدا ہوئی اور 1996ء میں چل بسی۔ بلغاروی زبان میں ’’گرینڈ مدر‘‘ کو بابا کہا جاتا ہے۔ اسی لیے وہ بابا ونگا کے عرف سے مشہور ہوئی۔

اس کا اصل نام وینگیلیا پاندیف دیمتیروا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مستقبل میں جھانکنے کی قدرت رکھتی تھی اور اس کی بعض پیش گوئیاں درست ثابت ہوچکیں۔ مثلاً سویت یونین کا ٹوٹنا، سانحہ چرنوبل، سٹالن کی موت، واقعہ نائن الیون وغیرہ۔دلچسپ بات یہ کہ بابا ونگا نے بھی تیسری جنگ عظیم چھیڑنے کی پیش گوئی کررکھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ 2010ء سے شروع ہوکر 2014ء تک جاری رہے گی۔ تاہم یہ پیش گوئی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ بابا ونگا سے منسوب جھوٹی پیش گوئی تھی۔بہرحال دنیا کے حالات خراب ہیں مگر اتنے نہیں کہ عالمی جنگ چھڑ جائے۔

قرآن پاک میں آیا کہ غیب کی باتوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ان کے بارے میں کوئی انسان کچھ نہیں جانتا۔ (سورہ نمل آیت 65)۔اسی طرح نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے: ’’جو کسی نجومی کے پاس گیا اور اس سے کچھ پوچھا، تو اس کی نماز چالیس دن رات تک قبول نہیں ہوگی۔‘‘ (مسلم شریف) شریعت سے عیاں ہے کہ کسی انسان سے مستقبل کی پیش گوئیاں پوچھنا گناہ کے مانند ہے۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں جابجا ایسے نام نہاد نجومی اور کالے جادو کے ماہر پائے جاتے ہیں جو مستقبل میں جھانکنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ فراڈیئے سادہ لوح شہریوں سے مال اینٹھ کر اپنا الو سیدھا کرنے میں ماہر ہیں۔ ان سے دور رہیے اور توہم پرستی کے بجائے عمل صالح کی راہ اپنائیے۔ اسی میں سکون و سلامتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔