اطلاعات ومشورہ جات

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 4 جنوری 2020
barq@email.com

[email protected]

آج کل ہم بہت خوش اتنے خوش کہ پھولے نہیں سمارہے ہیں کیونکہ بہت پھولی پھولی اطلاعات آرہی ہیں بلکہ اتنے خوش ہیں کہ سارے ناخوش بھی خوش دکھائی دے رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ صبح اخبار کھولتے ہی خوشیوں اور خوش خبریوں کا گویا دبستان کھل جاتاہے، ایسا لگتاہے جیسے وہ’’دن‘‘آگیا ہو جس کی اطلاع فیض احمدفیض نے صوفے میں دھنس کر صوفے کی تصوف کرتے ہوئے دی تھی کہ ہم دیکھیں گے۔

’’وہ دن جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘وہ تو سالک تھے اس لیے ذرا پہلے ہی’’گے‘‘لگاکر خوشخبری سنائی تھی لیکن ہم تو وہ دن دیکھ رہے ہیں۔ظلم وستم کے کوہ گراں بھی روئی کی طرح’’اڑ‘‘چکے ہیں اور ارض خداکے کعبے بلکہ اب تو ریاست مدینہ سے بھی سارے بت اٹھواکر پھینکے جاچکے ہیں اور یہ اطلاعات بھی نہایت ثقہ بذریعہ اطلاعات محترمہ ڈاکٹرفردوس عاشق سے زیادہ ثقہ راوی اورکون ہوسکتاہے۔

اس لیے ہمیں مان لینا چاہیے۔کہ ’’اہل حکم‘‘کے سروں پر بجلی بھی کھڑکھڑ چلی  ہوگی اور خلق خدا کے پیروں تلے دھرتی بھی دھڑک دھڑک چکی ہوگی تخت بھی گرائے جاچکے ہیں تاج بھی اچھالے جاچکے کہ رہے نام صرف اللہ کا۔اب راج کرے گی خلق خدا۔جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔

اور اٹھے گا یہاں اناالحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔یہاں پر ’’اناالحق‘‘کے نعرے کا مفہوم ہم کچھ زیادہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کیونکہ اناالحق کے نعرے کا انجام تو ہنگ ٹیل ڈیتھ ہوتاہے اور ہم اگر اناالحق کا نعرہ لگائیں گے تو کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے ویسے یہ بھی سننے میں آیاہے کہ ’’انا الحق‘‘کا نعرہ لگانے کی اب وہ پرانی سزا یعنی ہنگ ٹیل’’ڈیتھ ‘‘  اور سنگ باری نہیں ہے بلکہ مہنگائی کی پھانسی دی جاتی اور وہ تو ہم اب بھی لے ہی رہے ہیں اس لیے لگا ہی دیتے ہیں۔

جب فیض احمدفیض نے صرف صوفے کے تصوف سے مسئلہ نکالا ہوا ہے باقی تو سب کچھ ٹھیک راوی اور مشیرائے وزرائے اطلاعات چین ہی چین لکھتے ہیں اگرچہ ہم کہیں شہروں وغیرہ کو آتے جاتے نہیں ہیں اور فصلوں درختوں اور پرندوں کی صحبت میں خوش ہیں لیکن جب اتنے اخبارات وچینلات اور خاص طور پر محترمہ مشیرہ وزیراعظم برائے اطلاعات جیسا ثقہ ذریعہ اطلاعات دے رہی ہیں تو سب سچ ہی ہوگا

بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھاہے

کہ اب سحر ترے رخ پربکھر گئی ہوگی

چمک اٹھے جو سلاسل تو ہم نے جاناہے

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھرگئی ہوگی

یقیناً نئے پاکستان کی تعمیر پرکام تیزی سے چل رہاہوگا معیشت کوٹریک پرڈال دیاہوگا کرپشن وغیرہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔لیکن ایک بات جو ہمیں کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ اطلاعات اور خوشخبریوں کی یہ گنگا کچھ الٹی سی بہہ رہی ہے مثلاً یہ جو ’’اطلاعات‘‘کے ثقہ ذرایع ہیں ان کا عہدہ اور فرض منصبی مشیر یا مشیرہ کا ہوتاہے، مشیر یا مشیرہ وزیراعظم برائے اطلاعات یا وزیر کی مشیر یا مشیرہ اطلاعات اور جہاں تک ہمیں علم ہے مشیر کا مطلب ہوتا ہے مشورہ دینے والا یا مشورہ دینے والی۔جن امور کی وہ مشیر یا مشیرہ ہوتی ہے۔

ان امور کے بارے میں وزیراعظم کو  ’’اطلاع‘‘یا مشورہ دینا مشیربرائے امور خارجہ،مشیر برائے امور داخلہ،مشیر برائے اطلاعات،مشیر برائے صحت وتعلیم،مشیر ’’برائے این وآن‘‘۔اور یہ اصولی طور پر درست بھی ہے کہ وزیراعظم ایک ہوتاہے اور ’’امور‘‘بہت سارے اس لیے الگ الگ امور کے ’’مشیر‘‘رکھے جاتے ہیں اور ان کو خزانہ عامرہ سے ان مشیری اور مشورت کا مشاہرہ اور مراعات بھی ملتی ہیں، عوام جو کالانعام ہوتے ہیں انھوں نے نہ تو یہ مشیر رکھے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس امور ہوتے ہیں نہ کچھ اور۔البتہ ’’پالتے‘‘ ان سب کو ہیں۔ایسے میں مشیر حضرات وخواتین کی ڈیوٹی وزیراعظم کو مشورے اور اطلاعات دینا چاہیے مگر یہاں مشوروں اور اطلاعات کا رخ الٹی طرف ہوتا ہے اور اتنا تابڑتوڑ کہ

مگرلکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

اخبار اٹھاؤ چینل لگاؤ تو مشورے ہی مشورے اطلاعات ہی اطلاعات جو کالانعاموں پر ’’فائز‘‘کیے جاتے ہیںبلکہ خدا نظر بد سے بچائے، ہماری کرنٹ مشیرہ اطلاعات تو اتنی مستعد ہیں کہ کبھی کبھی تو ایک ہی اخبار میں دو دو تین تین باتصویر اطلاعات اور مشورے ہوتے ہیں۔اور پھر عوام کالانعام کو اطلاعات کی ضرورت ہی کیا ہے، اتنا عرصہ ہوگیا ان کو طرح طرح کی اطلاعات بلکہ خوشخبریاں سناتے ہوئے لیکن ان کا کچھ سنورا تو نہیں بلکہ بگڑا ہی بگڑاہے جو پہلے ہی سے بگڑا تھا بگڑاہے اور بگڑتا رہے گا۔جس بیچارے جانور کی قسمت میں صرف چاٹنا لکھاہوتا ہے۔

اس کے ارد گرد دریا بہانے سے فائدہ کیا؟ مانیں گے ہم اس وقت جب یہ لوگ اپنی اطلاعات کو اباوٹ ٹرن یا یو ٹرن دے کر وہاں پہنچا دیں جہاں سے اطلاعات… کبھی تو یہ بھی سننے میں آیا، آج فلاں مشیر یا مشیرہ اطلاعات نے وزیراعظم کو اطلاع دی کہ مہنگائی نے عوام کا کچومرنکال دیاہے بیچارا روپیہ جو ڈالر کی مارکھاکھا کر ادھ موا ہورہاہے اس کے حلق میں گھنگرو بولنے لگا ہے اور آج مرے کل دوسرا دن، ایسے میں کہیں سے ’’دوا دارو‘‘لائیں ورنہ اس کی وفات اور انتقال پرملال ہوجائے گا۔اور اس اطلاع پر وزیراعظم عام نوٹس یا سخت نوٹس لے کر چین سعودی عرب یا عازم امریکا ہوجائیں۔

عوام کو تو کسی اطلاع کی ضرورت ہی نہیں کہ بیچارے وہاں ہیں جہاں ان کو اپنی خبر آتی ہے۔ اطلاعات اور مشورے ان لوگوں کو دینا ضروری ہیں کہ رہتے اس زمانے میں ہو جب اونٹ ایک پیسے کا ہوتا تھا غلہ ڈھائی پیسے من ہوتاتھا اور ایک روپیہ سے مہینے بھرکا خرچہ چلتاتھا۔تب انصاف بھی تھا،حکمران بھی جواب دہ تھا،غریب بھوکا نہیں رہتا تھا،مہنگائی نہیں تھی، مگر آج کیا ہو رہا ہے۔ ان کو اطلاع دینا چاہیے کہ ٹائم مشین سے نکل آیئے آپ2020میں پہنچ چکے ہیں، 1947 بہت دور رہ چکاہے۔ آخری بات ایک مرتبہ پھر کہ جنھوں نے اسی کام کے لیے رکھاہے ان ہی کے ساتھ وہ کام کریں مرے ہوؤں کو درے ماررہے ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔