زندگی گزری کرچیاں چنتے چنتے

شاہد سردار  اتوار 5 جنوری 2020

پاکستان کے بیشتر ماہرین طب کے مطابق ہمارے ہاں زیادہ تر دفاعی اور نفسیاتی امراض کی بنیادی وجہ غربت اور اس سے جڑے مسائل ہیں اور تمام تر خوشنما دعوؤں اور وعدوں کے باوجود وطن عزیز میں دالوں کے حوالے سے 100 فیصد اور سبزیوں کی قیمتوں میں 200 فیصد سے بھی زائد کا اضافہ ہوا ہے۔

ایک ایسا ملک جس کی مجموعی آبادی کا بیشتر حصہ خط غربت کے نیچے زندگی گھسیٹ رہا ہے، اس ملک میں مہنگائی کی ایسی بے لگامی بے حد تشویش ناک ہے کہ دوسری جانب بے روزگاری بھی بہت تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا جس سے صارفین پر 17 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا اور یہی نہیں سوئی گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس سے لوگوں پر 71 ارب روپے کا بوجھ لادا جائے گا۔ یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے کہ معاشرے میں بے یقینی اور اضطراب کو جنم دے کر اس کے تاروپود بکھیرنے میں بنیادی کردار ہمیشہ بھوک اور بے روزگاری کا رہا۔ غیرت، عزت اور اخلاقی اقدار توکیا ایسے سماج سے انسانیت بھی رخصت ہوجاتی ہے۔

والدین کا اپنے بچوں سمیت محض بھوک کی وجہ سے خودکشی کرلینا ہمارے معاشرے کی سلگتی ہوئی حقیقت بن گیا ہے۔ غربت، بے روزگاری غیر قانونی کاموں یا جرائم کے فروغ کا سبب بنتی ہے اور بن بھی چکی ہے۔ ہمارے گرد و پیش چوری، ڈکیتی، لوٹ مار کے درجنوں واقعات روزمرہ کے معمول بن گئے ہیں۔ ایسے حالات اور واقعات ہمارے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں کہ وطن عزیز میں زندگی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ طبقاتی خلیج بڑھنے سے لوگوں کے مزاج اور تیور بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ مایوسی، فرسٹریشن یا ڈپریشن ، بد دل اور غصہ یا غیض و غضب چہار سُو دیکھنے میں آ رہا ہے۔

کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ تنخواہوں میں کسی کی اضافہ نہیں کیا جاتا بالخصوص غیر سرکاری کام کرنے والے لوگوں یا کمپنی فیکٹریوں کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی نہیں لیکن روز مرہ کی اشیا میں ہر ہفتے یا ہر مہینے اضافہ کردیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں محض 10 فیصد گزشتہ سال کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا، لیکن عام ملازمین یا مزدوروں کی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی بنا پر ان کی مالی حالت بہت ہی زیادہ دگرگوں ہے جو بتدریج بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بھنور میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ سنبھلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

یوں تو ہمارے ملک میں ہر دور حکومت میں عوام دوست اور ٹھوس طویل المدت معاشی پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی کے سبب مہنگائی کا مسئلہ کسی نہ کسی صورت موجود رہا جس کا تمام تر بوجھ ہمیشہ سے صرف مڈل کلاس اور غریب طبقے نے ہی برداشت کیا۔ تاہم آج گزشتہ ادوارکی نسبت زیادہ کڑے معاشی چیلنجزکا سامنا ہے جن میں سر فہرست افراط زرکی شرح میں مسلسل ہونے والا اضافہ ہے جو حکومتی اقدامات کے بعد بھی کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ملک کے طول و عرض میں پچھلے سال سوا سال سے مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے، معاشی بہتری کے تمام حکومتی دعوؤں کے باوجود اس کی شدت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آٹا ، چینی، دال، چائے، گھی، تیل، گوشت، انڈے، پھل کم آمدنی والے طبقات تو درکنار متوسط گھرانوں کی پہنچ سے بھی دور ہوگئی ہیں۔

گزشتہ سوا سال قبل سبزیاں انتہائی غریب یا عام آدمیوں کے لیے سب سے سستی اشیا میں شمار ہوتی تھیں جن میں اس قدر ہوش ربا اضافہ کیا گیا کہ وہ عوام الناس کی دسترس سے باہر ہوگئیں۔ حالانکہ پاکستان ایسے خطے میں ہے کہ اگر اور علاقوں میں کسی مخصوص سبزی کا سیزن نہیں بھی ہے توکوئی دوسرا علاقہ اس سیزن میں بھی وہ سبزیاں مہیا کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ کوئی پلاننگ ، کوئی طریقہ کار یا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں لہٰذا سبھی کچھ زمینداروں ، کاشتکاروں ، آڑھتیوں اور اسٹوریج کے مالکان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ محکمہ زراعت و خوراک، زرعی توسیع کے نظام جوکہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہیں ان کو عوامی ضروریات سے کوئی غرض ہی نہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں جانوروں کی قیمت انسانوں سے زیادہ ہے۔ ارباب اختیارکے جانوروں کی پرورش یا ان کا ایک دن کا خرچہ غریب کے دو وقت کی روٹی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ حد تو یہ کہ جانوروں کا علاج معالجہ ایسا کیا جاتا ہے جوکسی انسان کے خواب میں بھی نہیں آسکتا۔ ہمارا معاشرہ واقعی بہت سی وجوہات کی بنا پر جانوروں کا معاشرہ بن چکا ہے اور یہاں انسان اور انسانیت دونوں جرم کہلائی جا رہی ہیں۔

یہی نہیں بڑے بڑے سیاست دان یا بیوروکریٹس کرپشن یا لوٹ مارکے کیس میں جیل میں جوکچھ کھا پی رہے ہوتے ہیں وہ اس ملک کے 95 فیصد آزاد لوگوں کو بھی نصیب نہیں۔ تازہ بریڈ ، مکھن ، دودھ ، دہی ، شہد ، انڈے ، جوس ، فروٹ ، چائے، کیک، پکوڑے، مچھلی، چکن، مٹن، برگر، پیزا، کافی سبھی کچھ انھیں مہیا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف غربت کی لکیر سے انتہائی نیچی سطح پر مہنگائی، غربت اور افلاس کی چکی پیستے ہوئے ہمارے عوام کی غالب اکثریت کو کوشش کے باوجود یہ نعمتیں میسر نہیں ہیں ، ان سے دال سبزی تک دور کردی یا چھین لی گئی ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حکمران ہر فعل کے لیے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر اقتدارکا تاج پہننے سے قبل بھی اس نے اگر کوئی غلط کام کیا ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد اس کا بھی احتساب کیا جاتا ہے۔

کیونکہ حکمران یا لیڈر قوم کا رول ماڈل ہوتا ہے اور اس کی ہر حرکت، ہر پالیسی اور ہر اقدام قوم کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتا ہے۔ اور حکمران وہی کامیاب ہوتا ہے جو ذمے داری اور پوری دیانت سے وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ حالات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتا ہے، قوم کو اعتماد میں لیتا ہے۔ بدقسمتی سے اس معیار پر پاکستان کی تاریخ میں صرف دو تین ہی مشکل سے لوگ تھے جو پورے اترے بقیہ تمام حکمرانوں نے ترجیحات کا درست تعین نہیں کیا اس لیے تاریخ ہمیں جھٹکے لگا رہی ہے، جغرافیہ ہم سے انتقام لے رہا ہے۔ جتنے لانگ مارچ کرلیں، جتنے دھرنے دے لیں، جتنے نعرے لگا لیں، جتنی ریلیاں نکال لیں جب تک ہمارا معاشی اشاریہ اوپر نہیں جائے گا ہم اسی طرح ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے۔

نظام کی خرابی، لا اینڈ آرڈرکی عدم موجودگی یا حد درجہ مہنگائی ان سبھی چیزوں کی وجہ سے رواداری اور برداشت کی روایات تیزی سے دم توڑ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کا گریبان پکڑنے نہیں بلکہ پھاڑنے کے لیے تیارکھڑا ہے اور موقع ملنے پر اس کو عدم تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔ معمولی اخلاقی اقدار تک معدوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وقت حاضر میں ہونے والی اس شکست و ریخت کو روکنا ضروری ہے۔ ہمارے ارباب اختیارکو اب بھی ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں۔ ویسے بھی ہر نصیحت کی ایک عمر ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔