کچھ کتابی دکھ سکھ

نادر شاہ عادل  اتوار 5 جنوری 2020

دسویں جماعت کا طالب علم تھا توکلاس ٹیچر جناب امیر عباس نے ایک انگریزی کتاب خرید کر پڑھنے کی نصیحت کی۔ کتاب کا نام تھا English idioms And How to use them کتاب کے مصنفW. Macmordi   تھے۔ یہ انگلش گریمر رین اینڈ مارٹن کے مقابلے کی کتاب تھی اور اسے علی عباس صاحب نے مجھے پہاڑے کے انداز میں دل سے یاد کرنے کی تلقین کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ غلطی سے پاک انگریزی لکھنے کے لیے یہ بنیادی کتاب ہے۔ پھر ماسٹر کیا تو پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مختار رانا لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کالج کی تدریس اور سربراہی سے سبکدوش ہو کر سیاست کی دشوار راہوں پر جا نکلے۔ میری چھوٹی سی ذاتی لائبریری کی الماری میں کتابیں دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب کسی گریمر بک کی تمہیں ضرورت نہیں، تم اردو میں مضامین لکھ رہے ہو لیکن یہ بتاؤکیا تمیں ماضی استمراری یا ماضی مجہول یاد ہے؟ میں شرمندہ سا ہوا ، خاموش رہا، رانا صاحب  بہت خلیق اور انسان دوست سیاسی رہنما تھے،  مجھے بتایا کہ اردو کتابوں کے مطالعہ سے تمہارا علم بڑھا ہے، لیاری کے بلوچ ہو، بیٹے کا آگے کا سفر کٹھن ہے۔

گریمر کی ضرورت میٹرک کلاس تک ٹھیک ہے مگر اب صرف اردو شاعری، کلاسیکی ادب، تنقیدی لٹریچر اور انگریزی فکشن اور عالمی شہرت یافتہ مصنفین کو پڑھیں، آپ کی فکر زرخیز، نگاہ بلند اور تحریر میں نفاست، تنوع اور اسلوب میں دل کشی آ جائے گی۔ ان کی یہ بھی ہدایت تھی کہ 75 فیصد وقت مطالعہ کی نذر کرو25 فیصد لکھنے کی کوشش کرو۔ رانا صاحب  نے درحقیقت مجھے لکھنے پڑھنے کی ایک روشنی عطا کی۔ اس کام میں والد صاحب اسرار عارفی نے بھرپور مدد کی جو خود بھی ایک صحافی، مترجم، شاعر اور سماجی کارکن تھے۔ میں نے طالب علمی کا دور گزارا تو دشت صحافت میں اگلا قدم رکھ دیا۔ مجھے بالکل احساس نہیں تھا کہ غالبؔ نے اس موضوع پر ایک عہد آفریں شعر کیوں کہا ہے کہ

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

میں نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

اعترافاً کہتا ہوں کہ اپنی اب تک کی بے منزل صحافتی خجل خواری میں مجھے سدا بہار کتابوں نے سہارا نہ دیا ہوتا، معتبر اخبارات کے کالموں سے میری فکری ہم آہنگی مستحکم نہ ہوتی، عصری شعور پختہ نہ ہوتا تو میری زندگی کا سفر لیاری کے ایک بے نام فٹ بالرکی گمنام قبر پر ہی تمام ہوتا۔ میں ختم ہو چکا ہوتا صرف اس قابوس نما خیال اور ناقدری کے زخموں سے جس سے نڈھال و بے جان ہمارے باکمال فٹبالر، ہاکی اور دوسرے دیسی کھیلوں کے پلیئرز رہے ہیں۔ اس میں کوئی شاعرانہ تعلی نہیں کیونکہ ملک کے جتنے  ماضی کے مشہور و معروف فٹ بالر تھے ان کے نصیب میں گوشہ گمنامی ہی لکھا گیا، عبدالغفور مجنا جیسا بے مثال دفاعی کھلاڑی کو ہم نے سسکتے ہوئے آغوش لحد میں جاتے دیکھا مجھے تو ان کی تدفین میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ اپنی تو وہ حالت ہے کہ

زخموں سے چور چور ہیں اشجارکے بدن

ہے پھر ہوا کے ہاتھ میں خنجر کھلا ہوا

بہر حال ملک جس سیاسی آوارگی کا شکار ہے، اس میں کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ وہ پرانی کتابیں نکال کر پڑھ لی جائیں جن کے لفظ بھی زمانے کی ستم گری کے ہاتھوں ذہنوں سے کھرچے جا چکے۔ چنانچہ جوکتابیں ہاتھ لگیں ان میں ماضی کے دریچے کھل گئے، ایسی حقیقتیں سامنے آئیں کہ ہم اہل وطن کے آج سارے غم بھول گئے۔

ہمارے وطن کے ایک نابغہ روزگار آڈیو wizar  محمد لطف اللہ خان نے اپنی ایک کتاب تماشائے اہل قلم میں انکشاف کیا کہ ’’جوش صاحب1935  میں حیدرآباد سے ریاست بدر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب میر عثمان علی خان فرمانروائے دکن کے ملاحظہ کے لیے جوش کی ایک غزل گزری یا گزاری گئی تو غیظ سلطانی سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ ’’جوش بھٹیاروں کی زبان بولتا ہے‘‘ کتاب کے مطابق جوش کی شخصیت صرف متنازع ہی نہیں بلکہ بد قسمت بھی رہی، ایسا قادرالکلام شاعر، جسے نے اپنی بے پناہ قابلیت کی بنا پر شعری دنیا میں صف اول کی جگہ پائی، اسے متضاد بیانات اور مبتذل حرکات کی وجہ سے ایک وسیع ادبی حلقے میں ذلیل و رسوا ہو۔ عصمت چغتائی کا یہ جملہ پسند آیا کہ ’’جوش بہت ذلیل ہیں مگر بہت پیارے ہیں‘‘ ملک راج آنندکے مطابق ’’جوش اردو میںبہت چیختے چنگھاڑتے ہیں لیکن انگریزی میںان کی نظموں کے ترجمے کیے جائیں توگھاس معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

اسی طرح قومی ترانے کے بانی ابولاثرحفیظ جالندھری کے بارے میں کتاب کے اوراق عجیب حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں، لکھا ہے کہ ’’ ان کی نظم ’’رقاصہ‘‘ میں میر آف خیر پورکی عیاشیوں کا تفصیل سے ذکر نہیں ملتا۔ البتہ لاہور کی ایک طوائف اقبال بیگم عرف بالی جو میر خیر پور کی منکوحہ بن کر ریاست کی لوٹ کھسوٹ میں لگی ہوئی تھی، اور ارد گرد میں میراثیوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا۔

اس کے بارے میں قدرے تفصیل سے واقعات بیان کیے گئے تھے۔ حفیظ صاحب ریاست خیرپور میں تین سو روپے ماہوار مشاہرے پر ملازم ہو گئے تھے، حفیظ صاحب سے سالگرہ کے جشن پر ان سے کچھ سنانے کی پیشگی فرمائش کی گئی، حفیظ صاحب نے نظم رقاصہ لکھ کر دی جس میں بالی کا کردار ہدف ملامت بنایا گیا تھا۔ دوسرے دن بھرے دربار میں براہ راست میر ریاست اور بالی کو مخاطب کر کے سنا بھی دیا۔

ظاہر ہے نواب کا مشتعل ہو کر پابند سلاسل کر دینا منطقی عمل تھا، وہ تین دن تک جیل میں رہے، پھر ریاست کے کارندے انھیں ٹرک میں ڈال کر کسی لق ودق علاقے میں بھوکا پیاسا اور بے یار و مددگار چھوڑ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظم رقاصہ طویل مگر چھوٹی بحرکی نظم تھی، اس کے ابتدائی بول تھے، اٹھی ہے مغرب سے گھٹا، پینے کا موسم آ گیا،  قوم اب جفا پیشہ ہوئی، عزت گدا پیشہ ہوئی۔ یہ نظم ’’ابھی تو میںجوان ہوں‘‘ کی لے اور ردھم کی تھی۔ بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔

نثری نظم کے ممتاز شاعر ن م راشد کے حوالے سے  کہا گیا کہ حیات اللہ انصافی نے نفسیاتی تحلیل اور جنسیاتی تجزیے میں لکھا کہ راشد غیر متوازن جنسی رجحان میں مبتلا ہیں۔ فلم اسٹار نرگس کی فلم رومیو جولیٹ کی شوٹنگ کا دلچسپ واقعہ بیان کیا گیا کہ فلم کے آخر میں جولیٹ کے مرنے کا سین فلمایا جا رہا تھا۔ نرگس کو مردہ لٹا کر فلم اتاری جا رہی تھی، ایسے میں جدن بھائی فلور پر داخل ہوئی، چہیتی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر اسٹوڈیو سر پر اٹھا لیا، ’’ہائے ظالمو تم نے میری بیٹی کو مار ڈالا۔‘‘ حالانکہ فلمی تیکنیک اور ضروریات سے وہ واقف تھیں۔

ایک جگہ لکھا گیا کہ فیض صاحب جس اسپاٹ طور سے اور عجلت سے اپنا کلام سنانے کا فرض ادا کرتے رہے ایک خلقت اس سے واقف ہے لیکن ایک بات میں وثوق سے اور دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا کلام چاہے مہدی حسن گائے، برکت علی خان گائے یا  فریدہ خانم، اقبال بانو، فیض صاحب کے بے ربط اور پھیکے انداز میں پڑھنے سے کلام کا مفہوم اور اس کا اثر جس گہرائی سے سننے والے کے دل پر مرتب ہوتا ہے اتنا کسی گانے اور سنانے سے پیدا نہیں ہوتا۔

اردو کے ممتاز ادیب و نقاد اختر حسین رائے پوری لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے اکثر افسانہ نگاروں میں ایک بڑا عیب یہ ہے کہ وہ اپنے ناظرکی سوجھ بوجھ پر بھروسہ نہیں کرتے، بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو صاف صاف کہی جاتی ہیں، کچھ اشاروں اور کچھ خاموشی میں۔ الفاظ کی زبان بہت سطحی ہوتی ہے۔ وہ دور رس نہیں۔ افق پر جو دھند لے دھندلے درخت نظر آتے ہیں ان کی تصویر بہت مبہم خطوں میں بنائی جاتی ہے۔

اس زمانے کی حقیقت صرف ظلم اور مظلومیت کی کشاکش میں پنہاں ہے۔ آج دنیا کا ذرہ ذرہ دو خانوں میں بٹا ہوا ہے، جان بوجھ کر یا انجان پن سے، دانستہ یا نادانستہ ہر ادیب یا تو ظالم کا طرف دار ہوتا ہے یا مظلوم کا ہمدم۔ جب میںاپنے آس پاس اندھے بھکاریوں، ننگی طوائفوں اور فاقہ کش مزدوروں کا انبوہ دیکھتا ہوں اور جب ان کی فریاد کو اخلاق کی بلند اذان سرمایہ داری کے پیروں تلے روندنے لگتی ہے تو میں چپ نہیں رہ سکتا۔ گورکی کی آپ بیتی کی جلد سوم میں لکھا ہے کہ ’’اقلیدس الّو کا پٹھا تھا۔ میں بات کرونگا کہ خدا اس یونانی کے بچے سے زیادہ عاقل ہے۔

میں کہتا ہوں کہ یہ قید خانہ ہے، جیومیٹری کی حیثیت ایک چوہے دان اور پنجرے  سے زیادہ نہیں۔ میں نے بعد میں سنا کہ وہ ریاضیات کے اصول پر خدا کا وجود ثابت کرنے کی کوشش میں ہے لیکن اس سے پہلے ہی وہ مر گیا۔‘‘ مجنوں گھورکھپوری لکھتے ہیں کہ ’’میر اور غالب اپنے اپنے وقت سے پہلے یا بعد میں پیدا نہیں ہوئے۔ ولی کی شاعری اپنے دور کے بعد لکھنو میںرواج نہ پا سکی، یا لکھنوی شاعری اپنے وقت سے پہلے دلی میں جنم نہ لے سکی۔ یہ سب اتفاقی امور نہیںہیں بلکہ تاریخی تقدیریں ہیں۔‘‘

ہندوستان کے مشہور ادیب و نقاد پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں، ’’کوئی نقاد اپنے عہد سے اتنا بلند نہیں ہو سکتا کہ وہ شعر و ادب کی تمام مروجہ روایتوں سے رشتہ توڑ دے اور بالکل نئی روایتیں پیش کر دے۔ یہ کسی حد تک ممکن ہے جب سماج کا کوئی اہم حصہ عصری روایات سے بیزار ہو جائے اور تاریخ اس بیزاری کا جواز بھی مہیا کرے۔‘‘

قارئین کرام ! میں ڈھیر ساری کتابوں کے سامنے لمحہ موجود کا شرمندہ سا جاہل آن لائن ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جتنی اہم تحریریں ہمارے اسلاف ادب تقسیم ہند سے قبل لکھ چکے، افکار و تخیل کے جو شہ پارے ہماری نذر کر چکے، ہم علم کی اس بے بہا روایت سے عملاً کٹ چکے ہیں، لائبریریوںسے دور بھاگتے ہیں۔ کہتے ہیں الیکٹرانک میڈیا کا گلیشئر گرنے والا ہے۔ ہمیں پرنٹ میڈیا کی موت کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ یارب!کوئی میر انیس عطا کر جو کہے۔

آگاہ کر آغاز تکلم سے زباں کو

عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔