کیا جماعت اسلامی آج بھی قاضی حسین احمد کی کمی محسوس کر رہی ہے

مزمل سہروردی  اتوار 5 جنوری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی آج چھٹی برسی ہے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں ہی امارت سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی کی یہ اچھی بات ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا لیڈر کیوں نہ بن جائے، اسے تا حیات امارت نہیں مل سکتی۔ آپ کو ہر چار سال ووٹ کی طاقت کے سامنے سرنگوں رہنا ہے۔

اور پھر  یہ کہنے کی روایت بھی قابل تحسین ہے کہ بس اب میری اننگ پوری ہو گئی ہے، مجھے جانے دیا جائے۔ 22 سال جماعت اسلامی کے ایک طاقتور امیر رہنے کے بعد قاضی حسین احمد کو بھی یہ کہنا تھا کہ اب میری اننگ پوری ہو گئی ہے۔ اب مجھے گھر جانے دیے جائے۔ اور میری جگہ ووٹ کی طاقت سے کسی اور کو امیر منتخب کر لیا جائے۔

جو لوگ جماعت اسلامی کو جانتے ہیں انھیں علم ہے کہ سید منور حسن بے شک قاضی حسین احمد کے ساتھ سیکریٹری جنرل تھے۔ اور جماعت اسلامی میں  یہ روایت بھی تھی کہ سیکریٹری جنرل ہی اگلا امیر بنتا تھا۔ آپ دیکھیں میاں طفیل مولانا مودودی کے سیکریٹری جنرل تھے اور وہ مولانا کے بعد امیر بن گئے۔ قاضی حسین احمد میاں طفیل  محمد کے سیکریٹری جنرل تھے اوران کے بعد سیکریٹری جنرل بن گئے۔ اس لیے عام تاثر تھا کہ قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن امیر جماعت ا سلامی بن جائیں گے اور وہ بن بھی گئے۔ تاہم قاضی حسین احمد سید منور حسن کو  اپنے متبادل کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔

انھوں  نے کئی مواقعے پر اس بات کا اظہار بھی کیا کہ ان کے بعد لیاقت بلوچ ہوںگے۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ امیر جماعت اسلامی کے انتخاب کے موقع پر اراکین جماعت اسلامی کی رہنمائی کے لیے تین نام تجویز کرتی  ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو امیر کے لیے ووٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ تجویز حتمی نہیں ہوتی، ارکان ان تین نا موں سے ہٹ کر بھی کسی کو منتخب کر سکتے ہیں۔ قاضی حسین احمد کے بعد جو تین نام  تجویز کیے گئے، ان میں لیاقت بلوچ کا نام تھا۔ تاہم ارکان نے سید منور حسن کو منتخب کیا۔

سید منور حسن صرف ایک مدت کے لیے امیر منتخب ہوئے۔ اور اگلی مدت کے لیے  سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔ سراج الحق کا انتخاب سرپرائز تھا بھی اور نہیں۔ سید منور حسن کے انتخاب کے موقع پر سراج الحق کی جماعت اسلامی کے ارکان میں مقبولیت نمایاں ہو چکی تھی۔ وہ ووٹوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھے۔ یہ سب کے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ ایک عموی رائے لیاقت بلوچ کے حق میں تھی۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ قاضی حسین احمد کی سیاسی جانشینی کی وجہ سے لیاقت بلوچ  منتخب ہو جائیں گے۔ تا ہم سید منور حسن کے منتخب ہو نے کے بارے میں بھی رائے موجود تھی۔ البتہ یہ طے تھا کہ مقابلہ سید منور حسن اور لیاقت بلوچ کے درمیان ہی ہو گا۔ تا ہم جب نتائج آئے تو گو کہ سید منور حسن بے شک امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گئے۔ لیکن سراج الحق اور ان کے ووٹوں کا فرق بہت کم تھا۔ لیاقت بلوچ تیسرے نمبر پر تھے۔ یہ حیران کن نتائج تھے۔

سراج الحق کا اس طرح منظر پر آنا حیران کن تھا۔ کیونکہ سراج الحق کے پاس جماعت اسلامی کا مرکزی سطح کا کوئی عہدہ بھی نہیں تھا۔ وہ کوئی نائب امیر نہیں تھے۔ سیکریٹری جنرل نہیں تھے۔ ایک صوبے میں عہدیدار تھے۔ بے شک متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں سنیئر وزیر تھے۔ لیکن جماعت اسلامی میں سرکاری عہدہ نہیں تنظیمی عہدہ اور کام اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں سراج الحق جونیئر تھے۔ لیکن ارکان ان کو اگلا امیر دیکھ رہے تھے۔

سید منور حسن امیر العظیم کو اپنا سیکریٹری جنرل بنانا چاہتے تھے۔ لیکن امیر العظیم نے شوریٰ میں اپنی نامزدگی کے بعد معذرت کر لی۔ ایسا بھی صرف جماعت اسلامی میں ہی ہوتا ہے کہ آپ کو عہدہ دیا جاتا ہے اور آپ معذرت کر لیتے ہیں۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ امیر العظیم نے معذرت کر کے اپنے اور جماعت اسلامی دونوں کے ساتھ ظلم کیا۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے سید منور حسن کے ساتھ بھی ظلم کیا۔ سراج الحق نے اپنی دوسری مدت کا انتخاب بہت آسا نی سے جیت لیا۔ ابھی جماعت اسلامی میں ان کا متبادل نہیں ہے۔ اس لیے یہ رائے بھی موجود ہے کہ سراج الحق بھی قاضی حسین کی طرح امیر جماعت اسلامی کے طور پر ایک لمبی اننگ کھیلیں گے۔ سراج الحق نے اپنی پہلی مدت میں تو نہیں لیکن دوسری مدت میں امیر العظیم کو سیکریٹری جنرل بنا دیا ہے۔ اس بار امیر العظیم نے معذرت نہیں کی۔

کیا آج بھی جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی تلاش میں ہے۔ کیا جماعت اسلامی کا مربوط تنظیمی نظام قاضی حسین احمد کا متبادل نہیں تیار کر سکا۔ کیوں آج بھی جماعت اسلامی میں قاضی حسین احمد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو کوئی بہت بڑی سیاسی جماعت بنا دیا تھا۔ بلکہ اگر آج دیکھا جائے تو قاضی حسین احمد کی انتخابی بائیکاٹ کی سیاست نے جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے اتحادوں کی سیاست بھی کی۔ سولو فلاٗئٹ بھی کی۔ اور پھر کھیل سے باہر رہنے کا فیصلہ بھی کیا۔ کیا کوئی کبھی سیاسی کھیل سے باہر بھی رہ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی قاضی حسین احمد کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔

اگر آج کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو آج جماعت اسلامی نے آرمی ایکٹ کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ شائد قاضی حسین احمد بھی ہوتے تو یہی کرتے۔ کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ لیکن شائد تبدیلی موجود ہے۔ قاضی حسین احمد کی للکار کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ امیر العظیم بھی نرم گفتار ہیں۔ جماعت اسلامی آج بھی قاضی حسین احمد کی للکار کی کمی محسوس کر رہی ہے۔ بات وہی ہو رہی ہے لیکن نرم لہجے میں ہو رہی ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے پاس پارلیمانی طاقت نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں قاضی حسین احمد کے پاس بھی پارلیمانی طاقت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وہ گیم بنا لیتے تھے۔ وہ مزاحمت کو اس سطح پر لیجاتے تھے کہ منظر نامہ ان کے گرد گھوم جاتا تھا۔ انھیں سیاسی منظر نامہ کو اپنے گرد گھمانے کا فن آتا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ قاضی حسین احمد کی میڈیا مینجمنٹ بہت بہترین تھی۔ امیر العظیم  جوان تھا۔ قاضی حسین احمد کو قاضی حسین احمد بنانے میں امیر العظیم کی خاموش محنت کا بہت اثر تھا۔ جس کا شائد کسی کو احساس نہیں ۔ لیکن سراج الحق اس کو جانتے ہیں۔

سراج الحق آج جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد کے نقش قدم پر لے کر چل رہے ہیں۔ بلکہ جو نقصان ہو گیا ہوا ہے وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نا راض ووٹ بینک کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سراج الحق کے لہجہ کی نرمی بات بننے نہیں دے رہے۔ وہ اختلا ف کر رہے ہیں۔ لیکن قاضی حسین احمد کی طرح مزاحمت نہیں کر رہے۔ وہ سیاسی درجہ حرارت کو ایک خاص حد سے آگے نہیں لے کر جا رہے۔ اختلا ف کو مزاحمت کی سطح پر لے کر جانا ہی قاضی حسین احمد کی پہچان تھی۔ روایت شکنی ان کی پہچان تھی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے بند دروازوں کوکھولا۔ جماعت اسلامی کے سنیئر ان کی روایت شکنی کے سخت مخالف تھے۔

1993میں اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدگی کے بعد انھوں نے پاسبان اور اسلامی فرنٹ بنایا، قاضی حسین احمد ایک عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ قاضی آ رہا ہے کا نعرہ لگایا گیا۔ تو سب سے زیادہ مخالفت جماعت اسلامی کے اندر سے قدامت پسندوں نے کی۔ میاں طفیل نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا قاضی حسین بھٹو سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ہم منصورہ میں کسی کو بھٹو نہیں بننے دیں گے۔ لیکن قاضی حسین احمد کی للکار میں جان تھی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے قدامت پسندوں کو بھی شکست دی۔ یہی ان کی پہچان تھی۔ جس کی کمی آج بھی محسوس کی جا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔