شہباز شریف کے فلسفہ مفاہمت کی جیت

مزمل سہروردی  منگل 7 جنوری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کے خلاف ایک شور مچ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سول بالادستی کے حامی اس کو ایک یو ٹرن قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلم لیگ (ن) نے ووٹ کو عزت دو سے غداری کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان ہے۔ یہ طوفان ہمارے تجزیہ نگاروں کے تبصروں اور رائے میں بھی نظر آرہا ہے۔ تا ہم میں اس ساری صورتحال کو ایک دوسری نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف پہلے دن سے قومی اداروں کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ چلنے کے حامی رہے ہیں۔ ان کی یہ سوچ کوئی خفیہ نہیں رہی ہے بلکہ جب مزاحمت اپنے عروج پر تھی اور لڑائی اپنے جوبن پر تھی، تب بھی میاں شہباز شریف نے مفاہمت کا پرچم بلند کیا ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی بات مانی نہیں جا رہی تھی لیکن وہ تسلسل سے اپنی بات کرتے رہے ہیں۔

اس دوران انھیں کمزور اور پارٹی کا غدار ہونے کا طعنہ بھی دیا جا تا رہا ۔ لیکن وہ مفاہمت کی پالیسی کی وکالت کرتے رہے۔ ماضی قریب میں جب مریم نواز نے ایک لمبی خاموشی کے بعد دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کیں۔ جب انھوں نے جج اسکینڈل والی ویڈیو کے بعد شہر شہر ریلیاں کرنی شروع کیں۔

تب بھی شہباز شریف اس بات کے حامی نظر آئے کہ اس ساری محاذ آرائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی نقصان ہوگا۔ ان کا اختلاف بند کمرے میں ضرور تھا لیکن واضح تھا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر ہونے کے باوجود کسی ریلی میں شریک نہیں تھے ۔ بلکہ جیسے آج مریم نواز نے خاموش ہیں، ویسے تب شہباز شریف خاموش تھے۔

شہباز شریف اپنی گرفتاری کے موقعے پر بھی مفا ہمت کے حامی تھے۔ گرفتاری کے بعد بھی مفاہمت کے حامی تھے اور جیل میں بھی مفاہمت کے حامی رہے۔ ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کی مفاہمت کا کیا فائدہ ،آپ بھی گرفتار ہو گئے تو انھوں مسکراتے ہوئے جواب دیا، مفاہمت ایک نظر یہ ہے اور اس نظر یہ کی پاسداری میں فائدہ نہیں نقصان بھی قبول کرنے ہوںگے۔ آج بھی دیکھا جائے تو نواز شریف اور مریم نواز جیل سے باہر ہیں لیکن حمزہ شہباز جیل میں ہیں۔

دوست یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ آج پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کا فلسفہ مفاہمت غالب آچکا ہے۔ یہ درست ہے کہ آج سے دو سال پہلے جب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر مزاحمت شروع کی گئی تھی تو مزاحمتی گروپ غالب تھا۔ مزاحمت کی بات بہادری سمجھا جا رہا تھا۔ نئی نئی اصطلاحیں ایجاد کی جا رہی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مفاہمت نے اپنی جگہ بنائی ہے۔

مزاحمتی خود ہی تھک گئے ہیں۔ ان کی باتوں میں بھی وہ کاٹ نہیں رہی ہے۔ آپ دیکھیں رانا ثنا ء اللہ کتنے جوش اور جذبہ کے ساتھ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت کر رہے ہیں۔ دو سال پہلے مفاہمت کی بات کرنے والے اقلیت میں تھے آج مزاحمت کی بات کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ ہم شاید اس بات کا احساس نہیں کر رہے کہ وقت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں سوچ کی ایک تبدیلی آچکی ہے۔ انھوں نے سبق سیکھ لیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جلدی سیکھ لیا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیکھ لیا ہے۔

آج مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں اگر رائے شماری کرا لی جائے تو اکثریت مفاہمت کی نکلے گی۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ ووٹ بینک ، ووٹ کو عزت دو کے نعرہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ نعرہ جب نہیں لگا یا تھا کیا تب ووٹ بینک نہیں تھا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) میں فیصلہ سازی میں شریک لوگ اور الیکشن لڑنے والے اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت سے مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بینک کو کوئی فرق پڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک جیسے ووٹ کو عزت دو کے نعرہ سے پہلے موجود تھا۔ ویسے ہی اب بھی موجود رہے گا۔

اس بات پر بھی شدید اختلاف ہے کہ کیا ووٹ کو عزت دو کے نعرہ سے ووٹ بینک میں کوئی اضافہ ہوا کہ نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ شور زیادہ ہے ووٹ بینک میں حقیقی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پنجاب مسلم لیگ (ن ) کا قلعہ پہلے بھی تھا اب بھی ہے۔ لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ تو مشرف کے دور میں بھی جیت لیتے تھے آج بھی جیت لیتے ہیں۔

یہ ووٹ کو عزت دو اور سول بالادستی کے نعرے کا کوئی اثر سندھ ، بلوچستان اور کے پی میں نظر کیوں نہیں آتا؟ کیا وہاں کے لوگ سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے نعر ہ پر یقین نہیں رکھتے ہیں؟ کیا کراچی میں اسٹبلشمنٹ کے خلاف رائے موجود نہیں ہے۔ یہ شمالی وزیر ستان اور دیگر قبائل کے لوگ سول بالادستی کے اتنے حمایتی نظر آتے ہیں وہ مسلم لیگ(ن) کو ووٹ کیوں نہیں ڈالتے۔ کوئٹہ کے لوگ تو سول بالادستی کے حق میں ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن ) کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ اس لیے یہ بات کہ ووٹ کو عزت دو اور سول بالادستی کے نعروں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی بہت فائدہ ہوا ہے، نظر کے دھوکے کے سواکچھ نہیں۔ یہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق بس دل خوش کرنے کی بات ہے۔

میں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا کہ مریم نواز موجودہ فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے کوئی استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے۔ ایسا نہیں ہے جب تک مریم نواز متفق نہیں تھیں، شہباز شریف کے فلسفہ مفاہمت کی نوازشریف کے پاس کوئی قبولیت نہیں تھی۔ تب تک اکبر الہ آبادی کے شعر پڑھے جا رہے تھے۔ شہباز شریف کو خط لکھے جا رہے تھے کہ مولانا کے دھرنے میں پہنچیں۔

حالانکہ شہباز شریف سمجھا رہے تھے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کچھ نہیں ہونے والا۔ لیکن تب فضا میں مزاحمت کی گونج تھی۔ آج نہیں ہے۔ آج سب کر کے دیکھ لیا ہے۔ سمجھ آگئی ہے۔ اس لیے شہباز شریف کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ آج مریم نواز شہباز شریف کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ ان کی خاموشی سب بیان کر رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اس نقصان کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایک آرمی ایکٹ پر ووٹ دینے سے کوئی بڑی تبدیلی آجائے گی۔ یہ مفاہمت کا نقطہ آغاز ہو گا۔ اس سے برف پگھلنی شروع ہوگی۔ لیکن راتوں رات تبدیلی نہیں آئے گی۔ دونوں طرف سے ایک سیز فائر تو ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی پکی دوستی کا ماحول نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ ایک ووٹ دینے کے بعد اقتدار کے ایوانوں کے دروازے دوبارہ کھل  جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن اس ووٹ سے بات چیت شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف بھی احساس ہو گا کہ مفاہمت مزاحمت پر حاوی ہو گئی ہے۔ لیکن کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مفاہمت کے لیے میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے اندر اور بالخصوص اپنے خاندان کے اندر ایک بڑی لڑائی لڑی ہے۔ طعنے سنے ہیں۔ لوگوں نے کہا ہے کہ بس شہباز شریف کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ ان کے کشتی سے اترنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن شہباز شریف نے یہ بھی دکھایا ہے کہ اندر بیٹھ کر لڑائی کیسے لڑی جاتی ہے۔

اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ چھوڑ کر الگ ہو جائیں۔ اپنی بات کہتے رہیں اگر بات میں وزن ہوگا تو ایک دن سب مان جائیں گے۔ آج کا مسلم لیگ (ن) کا بدلہ ہوا منظر نامہ شہباز شریف کی ایک لمبی اور تکلیف دہ جدو جہد کی کہانی بیان کر رہا ہے۔اس لیے یو ٹرن کا طعنہ دینے والے یہ  بھول رہے ہیں کہ شہباز شریف نے کوئی یوٹرن نہیں لیا ہے۔  باقی سب خیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔