نمبروں کی مسابقت میں

اقبال حسین اقبال  بدھ 8 جنوری 2020
فرسودہ نظام تعلیم میں طلبا کو محض زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگادیا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فرسودہ نظام تعلیم میں طلبا کو محض زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگادیا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس کے نظامِ تعلیم پر ہوتا ہے۔ نظامِ تعلیم جس قدر مضبوط اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ترقی یافتہ اقوام اپنے بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تعلیم اور قوم کے نونہالوں پر صرف کرتی ہیں۔ اور نہایت ہی باریک بینی سے طویل المدتی تعلیمی منصوبہ بندی مرتب کرتی ہیں۔ جس کی بدولت وہاں کی شرح خواندگی میں بھی اضافہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی خاطر خواہ انقلاب رونما ہوتا ہے۔

وطنِ عزیز میں نافذ صدیوں پرانے ناقص اور فرسودہ نظامِ تعلیم کے ذریعے ذہین طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا کر انہیں محض کلرک اور معمولی سی ملازمت تک محدود کردیا گیا ہے۔ مخصوص کورس، محدود سلیبس، خلاصہ جات، حل شدہ پیپرز اور چند نوٹس کے ذریعے ان کو نمبروں کی دوڑ میں لگادیا گیا ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف امتحان پاس کرنا، ڈگری کا حصول اور ملازمت تک رسائی رہ گیا ہے اور نقل جیسی علمی بددیانتی کا رجحان بڑھنے کے ساتھ محنتی و باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کررہی تھی کہ ایک طالبہ نے انگریزی مضمون میں 100 میں سے 100 نمبر حاصل کرکے پورے پاکستان میں اول درجہ حاصل کرلیا۔ شاید یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو، مگر ایسے طلبا عملی زندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپاتے اور سیدھے سادے منطقی سوالات بھی حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ سو نمبروں کا عملی زندگی میں 20 فیصد بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ نمبروں کی اس مسابقت میں ہم علم و تحقیق سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ ہر درجے میں ریسرچ کا فقدان ہے۔ متعلقہ کورس سے ہٹ کر غیر نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کسی جگہ ایک اسکول کا ذکر ہورہا تھا کہ ایک استانی صاحبہ پھول کی پتیاں توڑ کر لے گئی تاکہ وہ تجربے کے ذریعے طلبا کو کچھ سمجھا سکے۔ مگر انتظامیہ کی طرف سے اسے منع کیا گیا کہ یہ کورس کا حصہ نہیں ہے، لہٰذا اسے پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ راقم کو طلبا میں سوچنے، سمجھنے، غور و فکر، تحقیق و تجسس کی حِس مات پڑتی نظر آئی تو قلم اٹھایا اور دل کی بھڑاس قرطاس پر اتارنے بیٹھ گیا۔ گویا تعلیمی ادارے نمبر بانٹنے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، جہاں سے محض فارمولے رٹنے اور اچھی یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا ہوتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔ ہم امتحان میں ناکامی کو زندگی کی بڑی ناکامی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ زندگی میں کامیابی، امتحانات میں کامیابی پر منحصر نہیں اور نہ ہی یہ زندگی کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ جس بچے کے کم نمبر آتے ہیں، اسے دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کرکے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس سے وہ احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیگر صلاحیتیں بھی دب جاتی ہیں۔ کبھی بھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی بچے کی ناکامی پر اس کے والدین، رشتے دار یا خود اساتذہ نے انہیں دلاسہ دیا ہو، یا اگلے سال بہترین کامیابی کی امید دلائی ہو۔

یقیناً آپ نے مشہور سائنس دان تھامس ایڈیسن کا نام سن رکھا ہوگا، جو اپنے بچپن میں نہایت ہی کُند ذہن، سستی، نالائقی اور بے وقوفی جیسی منفی صفات کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے صرف تین مہینے اسکول میں گزارے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن اسکول ماسٹر نے ان کی والدہ کو خط بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’آپ کا بیٹا انتہائی غبی اور ذہنی طور پر ناکارہ ہے، ہم اسے مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘ اور یوں اسے اسکول سے نکالا گیا۔ لوگ اسے کم عقل سمجھتے تھے، مگر ایک عظیم ماں کے مشفقانہ رویے کے سبب ہمیشہ سیکھنے اور کچھ نیا کرنے کے جتن میں لگا رہتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں ایک ہزار سے زائد سائنسی ایجادات تخلیق کرکے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ گویا ایک ماں نے اسے اپنی صدی کا عظیم سائنس دان بنادیا۔

ہمارے اداروں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ماہرینِ نفسیات کی نگرانی میں طلبا کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے بجائے لعن طعن کے ذریعے ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ والدین کی امیدوں پر پورا نہ اترنے کے باعث طلبا میں خودکشی کا رجحان بھی جنم لیتا ہے۔ جس کی بہترین منظرکشی بالی ووڈ کے مشہور اداکار عامر خان کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ میں نظر آتی ہے۔

کسی کالم میں جنوبی افریقہ کے مشہور سائنس دان ’’ایلن مسک‘‘ کے متعلق بتایا جارہا تھا، جو اپنے مصمم اور پختہ ارادوں اور بغیر کسی ڈگری کے امریکا کے خلائی ادارے NASA سے دو قدم آگے نکل چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اسکول بچوں میں قائدانہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھاتے ہیں۔ یہاں صرف نمبرز اور گریڈ کا کھیل ہوتا ہے‘‘۔ اسی لیے ’’ایلن مسک‘‘ نے اپنا ایک اسکول بنا رکھا ہے، جس میں بچوں کو ان کے شوق کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی بھرپور رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ اپنے ٹیلنٹ کے بل بوتے پر کچھ کر دکھائیں۔ علامہ اقبالؒ بھی ایسی ہی تعلیم کے خواہاں تھے جو محض درسی کتب اور کمرہ جماعت تک محدود نہ ہو، بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ یعنی علم برائے تسخیرِ کائنات ہو۔

راقم الحروف جو ایک نجی تعلیمی ادارے میں بطور معلم کئی سال سے خدمات انجام دے رہا ہے، کی ذاتی رائے یہ ہے کہ جس طرح ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہیں، اسی طرح انسان کی صلاحیتیں بھی یکساں نہیں ہوتیں۔ اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کو مختلف صلاحیتوں اور کمالات سے نوازا ہے۔ اسی لیے امتحان کو بچوں کےلیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے اور تمام بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے ان کی فطرت کو جان کر تحقیق و تجسس پر مبنی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ طلبا نمبروں کی دوڑ سے نکل کر آزادانہ طور پر اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں۔ اور اس ملک کو حقیقی معنوں میں قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر بناسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔