آرمی ایکٹ بل کی طرح دیگر قومی امور پر بھی ہم آہنگی ضروری

ارشاد انصاری  بدھ 8 جنوری 2020
فیٹف کے حوالے سے اہم قانون سازی ہونے جارہی ہے کیونکہ فیٹف آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کو تسلیم نہیں کرتا۔

فیٹف کے حوالے سے اہم قانون سازی ہونے جارہی ہے کیونکہ فیٹف آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کو تسلیم نہیں کرتا۔

 اسلام آباد: قومی اسمبلی میں پاک آرمی، بحریہ اور فضائیہ کے ایکٹس میں ترمیمی بلوں کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔

البتہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور سابق فاٹا ارکان نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ بل کی منظوری کے بعد وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر سکتے ہیں جبکہ ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا، اس کے علاوہ  ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

اس اہم بل کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ سے لمبی غیرحاضری کے بعد وزیراعظم عمران خان کی منگل کو اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایوان میں آمد پر اراکین نے وزیراعظم سے ان کی نشست پر آکر مصافحہ کیا اور اس دوران مختلف امور پر مختصر گفتگو بھی کی، اسمبلی کے اس انتہائی مختصر اجلاس کی کارروائی شروع ہونے پر چیئرمین قائمہ کمیٹی دفاع امجد علی خان نے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کی رپورٹ پیش کی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی درخواست پر پیپلزپارٹی نے  اپنی سفارشات واپس لے لیں ۔وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاک آرمی، ائیرفورس اور بحریہ کے ایکٹس میں ترمیم کے بل پیش کیے جس کے بعد تینوں بلوں کی شق وار منظوری لی گئی۔

اسمبلی سے منظوری کے بعد  حکومت نے آرمی ترمیمی ایکٹ سینیٹ میں بھی پیش کردیا جسے سینیٹ کی معمول کی کارروائی معطل کرکے پیش کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے اعظم سواتی نے بل پیش کیا اور اس موقع پر نیشنل پارٹی، عثمان کاکڑ اور جمعیت علمائے اسلام ف نے مخالفت کی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی دفاع کو بھیج کر اجلاس آج سہ پہر تک بجے تک ملتوی کردیا، غالب امکان ہے کہ آج سینٹ سے بھی ترمیمی ایکٹ منظور ہوجائے گا اور اسکے بعد ایکٹ کی صورت میں لاگو ہوجائے گا جس سے یہ اہم معاملہ تو خوشگوار انداز میں حل ہوجائیگا لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس معاملے پر حکومت کے ساتھ جس تعاون کا مظاہرہ کیا گیا ہے یہی تعاون اب ملک کو درپیش دوسرے قومی و عوامی ایشوز کے حل کیلئے بھی جاری رہنا چاہئے اور اس کیلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ پارلیمانی رواداری کی روایت کو برقرار رکھے اور اپوزیشن کے پارلیمانی کردار و حق کو تسلیم کرے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ملک میں قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے  تاکہ ملک میں آئین سازی ہوسکے اور ملک کیلئے بہتر ہو سکے۔

اب حکومت کی طرف سے قومی احتساب بیورو آرڈیننس میں بھی ترامیم کی جا رہی ہیں اس کیلئے بھی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئیے اور اپوزیشن اس معاملے میں اپنی تجاویز دے اور جو بہتری ہو سکتی ہے وہ لائی جائے۔ اب اگر نیب کے قانون میں ترامیم کا جائزہ لیا جا رہا ہے توضروری ہے کہ اس قانون کے تحت ادارے کے سربراہ کو حاصل وارنٹ گرفتاری و گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کے صوابدیدی اختیار کو اگر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم سے کم کیا جائے کیونکہ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وزیراعظم کے خفیہ فنڈ کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ ہو صوابدیدی اختیارات  جہاں بھی ہوتے ہیں خرابی پیدا کرتے ہیں۔

اس کیلئے ضروری ہے کہ نیب،ایف بی آر،ایس ای  سی پی،ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جائے اور یہ کمیٹی وارنٹ گرفتاری کے معاملات دیکھے، اسی طرح ملزم کے نوے روز تک ریمانڈ کی مدت کو بھی کم کرنے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے تاکہ ملک میں خوف و ہراس کی فضاء کا خاتمہ ہو سکے اور اعتماد کی فضاء قائم ہو سکے تاکہ اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے، یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے اور اس میں بڑا کردار حکومت کو ادا کرنا ہوگا  اور اپوزیشن کو اسی طرح ساتھ لے کر چلنا ہوگا کیونکہ ابھی آگے بھی حکومت کو اپوزیشن کی بہت سے معاملات مین ضرورت پیش آنا ہے۔

فیٹف کے حوالے سے اہم قانون سازی ہونے جارہی ہے کیونکہ فیٹف آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کو تسلیم نہیں کرتا اور اسے عارضی اقدام گردانتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسداد منی لانڈرنگ سمیت دیگر ٹیکس قوانین میں ترامیم کے آرڈیننس بھی پارلیمنٹ میں پیش ہو چکے ہیں اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے منگل کو انسداد منی لانڈرنگ ترمیمی ایکٹ کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت قائمہ کمیٹی خزانہ نے ملک کے اندر 10 ہزار ڈالرز کی نقل و حرکت پر پابندی کی ترمیم مسترد کردی ہے، البتہ فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ کے تحت مجرمان کی سزائیں بڑھانے کی سزائیں منظور کر لی ہیں۔

اس قانون کی منظوری کیلئے بھی اپوزیشن کی ضرورت پڑے گی  اور یہی وہ بات ہے جو ایک عرصہ سے مختلف طبقوں کی جانب سے حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ حکومت اپوزیشن کے احتساب کو الگ  رکھے اور ضرور احتساب کرے اس کیلئے ادارے موجود ہیں مگر اس پر سیاسی انتقام کا رنگ نہ چڑھنے دیا جائے تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضاء کا راستہ روکا جا سکے اور ایک کڑی آزمائش اور عوامی تنقید کے باوجود سخت فیصلوں کے جو بہتر نتائج سامنے آنا شروع ہوئے اور جو اب اقتصادی اعشاریوں میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے اور سٹاک مارکیٹ بہتر ہونا شروع ہوئی ہے، انہیں  پائیدار بنایا جا سکے اور معاشی ترقی کو مزید ثمر آور بنایا جائے تاکہ عوام کی اجیرن ہوتی زندگیوں میں سہولت و ریلیف کے رنگ بھرے جا سکیں اور عوام کچھ سکھ کا سانس لے سکے  اور حکومت عوام میں گرتا ہوا مقبولیت کا گراف بہتر بنا سکے۔

دوسری طرف امریکہ کی طرف سے ایرانی جنرل کو ڈراؤن حملے میں مارنے کے بعد سے جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس میں اس قومی یکجہتی کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ طاغوتی طاقتیں کافی عرصے سے پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور حالیہ صورتحال بھی اسی کی ایک کڑی ہے، پہلے افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ تھا جس سے پاکستان بڑی دانشمندی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگا اور پھر بھارت کو ہلا شیری دے کر خطے کو جنگ سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی اور اب ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کو لپیٹ میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اب  یہی کہا جا رہا ہے کہ ایران بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے، اس میں پاکستان کو انتہائی محتاط ہوکر چلنا ہوگا اور ایک بار پھر سے طاغوتی طاقتوں کو مات دینا ہوگی۔

پاکستان میں وزیراعظم کے بجائے مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کال کی اور اس معاملے کے متعلق آگاہ کیا اور اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان بھی سامنے آیا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا اور پاکستان اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونیکی اجازت نہیں دے گا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد اپنے ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ شاہ محمود قریشی نے جواد ظریف سے گفتگو میں خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خطے کے دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔