معاملہ صرف نیت کا ہے

نصرت جاوید  جمعـء 8 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1990ء کی دہائی میں ضرورت سے زیادہ پرجوش رپورٹر ہونے کی وجہ سے میں نے نواز شریف صاحب کی شخصیت اور سیاست کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ میاں صاحب بظاہر بڑے سادہ، نرم خو اور مہذب انسان ہیں مگر سیاست اور وہ بھی اقتدار والی آپ کو بہت سارے مشکل اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت میں وہ ایسے فیصلے کرنے سے نہ ٹلے اور ان کی وجہ سے کافی سزا بھی بھگتی۔ ان کے مداحین کی اکثریت پوری شدت سے ان دنوں یہ محسوس کرتی ہے کہ جنرل مشرف کے زمانے میں اپنے حصے آنے والی پریشانیوں اور طویل جلاوطنی کے بعد نواز شریف صاحب ’’بدل‘‘ گئے ہیں۔ عرصہ ہوا میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ’’سینئر صحافی‘‘ ہوتا تو شاید ان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد جو سرکاری بریفنگ کے لیے اجلاس ہوئے ان میں شرکت کے لیے بلایا جاتا تو پتہ چل جاتا کہ ان میں کیا ’’تبدیلی‘‘ آئی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وہ شرکت نہیں کرتے۔ ورنہ پریس گیلری میں بیٹھ کر ان کی ’’بدن بولی‘‘ پر غور کرتے ہوئے کوئی نتائج اخذ کر لیتا۔ ان کی سیاست اور اندازِ حکومت کے بارے میں اب محض قیاس آرائی ہی کر سکتا ہوں۔

اپنی بے خبری کے ایماندارانہ اعتراف کے باوجود مجھے ہرگز حیرت نہ ہوئی جب خواجہ سعد رفیق جیسا وفادار جمعرات کو قومی اسمبلی میں کھڑا ہو گیا اور خود پر کافی جبر کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں کے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں کیے گئے چند فیصلوں کے بارے میں ’’احتراماً ‘‘ شکوے شکایات کرتا رہا۔ خواجہ صاحب کافی ’’خود مختار‘‘ آدمی ہیں۔ مگر میں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں ہوں کہ ان کے شکوے بے ساختگی کے ساتھ ان کی زبان پر آ گئے۔ مرکزی حکومت کے تقریباً تمام وزراء کافی دنوں سے اپنی نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرنا شروع ہو چکے ہیں کہ اس بار انھیں ’’حکومت کرنے‘‘ میں کوئی خاص مزا نہیں آ رہا۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ وہ اکثر یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ عدالتوں نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی عدالتوں میں جا کر کم از کم  Stay حاصل نہ کر لے۔

چند ٹھوس حوالوں سے اگر غیر جانبداری کے ساتھ آج کل کے وزراء کی پریشانی اور بے بسی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کچھ شکایات جائز اور منصفانہ محسوس ہوتی ہیں۔ سچی بات مگر یہ بھی ہے کہ سیاست کو اتنے عرصے سے بہت قریب سے دیکھنے کے بعد میرا پتھر ہوا دل ان وزراء کے بارے میں کوئی ہمدردی محسوس نہیں کرتا۔ ایک ناقابل علاج Sadist کی طرح بلکہ اکثر میں ان کی پریشانی سے حظ اٹھاتا ہوں۔ اکثر ’’اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے‘‘ والے خیالات بھی ذہن میں آ جاتے ہیں۔

ایک جدید ریاست میں جمہوریت یقینی طور پر تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ میں سے کوئی ستون بھی اپنا دائرہ پھیلائے تو توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سوال مگر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہماری پارلیمان اور انتظامیہ نے پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے اختیارات کو اچھی طرح پہچان کر برتا اور لوگوں کو اچھی حکومت مہیا کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دیا یا نہیں۔ 1985ء سے میں قومی اسمبلی کے ہر اجلاس کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھتا ہوں۔ نواز شریف صاحب 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو ہماری قومی اسمبلی بے جان ہو گئی۔ جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کر ڈالا تو اس کی آمریت کو اصل طاقت اور قوت نواز شریف کے ان ’’ساتھیوں‘‘ نے فراہم کی جو 1980ء کی دہائی سے ان کے ساتھ وابستہ چلے آ رہے تھے مگر بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ نے انھیں اسمبلیوں اور کابینہ میں بے وقعت و بے اختیار بنا دیا۔

جنرل مشرف نے بڑی منصوبہ سازی کے بعد جو قومی اسمبلی 2002ء کے انتخابات کے ذریعے منتخب کرائی وہ خود کے لیے وہ جوش اور قوت بھی حاصل نہ کر پائی جو سید فخر امام جیسے لوگوں نے جنرل ضیاء کی بنائی اسمبلی کے لیے بڑی ذہانت اور جرأت کے ساتھ چھین لی تھی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں بیٹھی اپوزیشن کے پاس ایک تاریخی موقعہ تھا کہ وہ اسے جاندار اور با اختیار بناتی۔ بجائے اپنے لیے مخصوص میدان میں سیاسی کھیل کھیلنے کے اس وقت کی اپوزیشن والے خالصتاً یاسی مسائل پر فیصلہ سازی کرانے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا شروع ہو گئے۔ میڈیا نے ان کی اس روش کا بھرپور ساتھ دیا اور بالآخر عوام کو اس بات پر قائل کر دیا کہ ان کے مسائل کا مداوا صرف اور صرف ایک متحرک اور بااختیار عدلیہ ہی کے پاس ہے۔ ہمارے سیاستدان تو بس ’’دیہاڑیاں‘‘ لگانے حکومت میں آتے ہیں۔ اپنی راحت دیکھتے ہیں۔ ملکی مسائل کا حل تو دور کی بات ہے، ان کا احساس تک نہیں کر پاتے۔ فطری طور پر نااہل ہیں۔ فوج اب سیاسی فیصلے کرنا نہیں چاہتی۔ عدالتوں کی طرف نہ دیکھیں تو کس سے فریاد کریں۔

نواز شریف اور ان کے حامیوں کی یہ خوش فہمی تھی کہ جب وہ منتخب ہو کر حکومت بنا لیں گے تو لوگ خود بخود ان کی طرف لوٹ آئیں گے۔ تخت، شاہ حسین نے کہا ہے، مانگنے سے نہیں ملا کرتے۔ انھیں بڑی محنت اور لگن سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یہ حکومت لوگوں کا اعتبار حاصل کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے صرف اور صرف سچ بولنا شروع کرے۔ عوام کے سامنے پوری طرح بیان کر دے کہ جنرل مشرف پر غداری وغیرہ کے سنگین الزامات کے تحت مقدمہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکا کے ساتھ معاملات میں حقیقی مشکلات کہاں ہیں۔ IMF کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرنا کیوں ضروری تھا۔ ڈرون طیارے کیوں نہیں گرائے جا سکتے اور قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل میں کیا رکاوٹیں ہیں۔

بلدیاتی انتخابات یقینا ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس کے لیے وسیع بنیادوں پر منصفانہ نظر آنے والی حلقہ بندیاں بہت ضروری ہیں۔ ان کے بغیر غیر سرکاری پرنٹنگ پریسوں سے بیلٹ پیپرز چھپوا کر جلدی میں انتخابات کروا دیے گئے تو ان کے نتائج لوگ تسلیم نہیں کریں گے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے خدشات اس ضمن میں سو فیصد درست ہیں۔ مگر ایمانداری سے ذرا اس سوال کا جواب بھی تو عنایت فرما دیجیے کہ کیا شہباز شریف صاحب جنھیں صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے جانا بھی کارگراں نظر آتا ہے ’’اپنے صوبے‘‘ میں مقامی طور پر منتخب بااختیار حکومتیں لانے کو واقعی تیار ہیں۔ معاملہ صرف نیت کا ہے۔ ایک مرتبہ پورے خلوص کے ساتھ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل ہونے پر تیار ہو جائیے پھر ساری مشکلات خود بخود آسان ہونا شروع ہو جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔