امریکا کیا کرے گا

عبدالقادر حسن  جمعرات 9 جنوری 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وقت نے ایک مرتبہ پاکستان کو پھر ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے ایک ایسے دوراہے پر جس پر ماضی میں ہم کئی مرتبہ پہلے بھی کھڑے ہو چکے ہیں یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم دوراہوں پرچلنے کے عادی ہیں فیصلہ صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سی راہ پر چلنا ہمارے حق میں بہتر ہے لیکن بد قسمتی سے ہم بہتر راستہ منتخب کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں اور اپنے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا جو مشکلات کا راستہ تھا۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے وقت ہم امریکا کے ساتھ کھڑے ہو گئے امریکا کے افغانستان پر حملے کے وقت ہم نے ایک مرتبہ پھر امریکا کا اتحادی بننے کو ترجیح دی ۔

اس بات پر بہت بحث ہو چکی ہے کہ ہماری قیادت کے فیصلے درست تھے یا غلط لیکن ایک بات ہم سب کو معلوم ہے کہ پرائی جنگ میں ہم نے جب بھی اپنے آپ کو جھونکا تواس کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنے ملک میں ایک ایسی آگ بھڑکائی جس کے شعلوں کی تپش ابھی ماند نہیں پڑی کہ ہمیں ایک اور آگ میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ آئے دن کی بد امنی میں گو کہ کسی حد تک کمی آچکی ہے لیکن اس کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا اور اس بدامنی میں کمی کے لیے ہم نے بلا مبالغہ لاکھوں پاکستانیوں کی قربانیاں دی ہیں عام شہری جہاں پر اس بد امنی کا شکار ہوئے ہیں وہیں پر ہماری افواج نے بھی ناقابل تلافی نقصانات برداشت کیے ہیں ۔

امریکا کی ایران کے خلاف جارحیت کے بعد پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ایک مرتبہ پھریہ خدشہ بڑی شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان تنارعہ شدت اختیار کرتا ہے تو اس میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔ایک طویل مدت کے بعد پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں امریکا ایران کشیدگی کی تشویشناک صورتحال نے پاکستان کو پھر ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا اورطالبان کے درمیان افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا معاملہ ابھی درمیان میں ہی ہے کہ یکایک امریکا نے پاکستان کی ایک اور سرحد پر جنگ چھیڑنے کی منصوبہ بندی مکمل کر لی ہے جس کے بادل یقیناً پاکستان پر بھی منڈلا رہے ہیں۔

امریکا نے دھاندلی کرتے ہوئے عراق میں جو تباہی مچائی اور بعد میں غلط اطلاعات کا عذر پیش کر کے اس پر معذرت کر لی مگر عراق میں امریکی جارحیت اپنی بے مثال تباہیوں کے ساتھ بظاہر ختم مگر مدتوں جاری رہے گی اسی طرح جیسی افغانستان میں اب تک جاری ہے، بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکا کا بہت جانی نقصان ہوا ہے اور افغانستان میں امریکا بربریت کی المناک مثالیں قائم کر کے بھی کوئی حکومت قائم نہیں کر سکا سوائے کابل کے ایک حصے تک۔ باقی ملک آزاد ہے اور بے حکومت ہے یہی حال فی الحال عراق کا بھی ہے جہاں پر امریکی فوج آزادی کے ساتھ کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے ۔

ایک بات نہایت تشویشناک صورتحال پیدا کر رہی ہے امریکا جو سرکاری سطح پر پاکستان کو اپنا دوست کہتا ہے لیکن بات وہی ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کے بعد دنیا بھر میں یہ بحث جاری رہی ہے کہ عراق کے بعد کس کی باری آنے والی ہے کیونکہ امریکا تو امریکا ہے جو برا عظم امریکا سے سات سمندر پار کسی بھی ملک میں کارروائی کرسکتا ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی تنہا سپر فوجی طاقت ہے جو بہانہ امریکا نے عراق پر حملے کا بنایا تھا اسی سے ملتا جلتا بہانہ اس وقت وہ ایران پر حملے کا بنا رہا ہے ۔

جہاں تک پاکستان کی باری آنے کی بات ہے تو اس کو آسانی سے ٹالا نہیں جا سکتا کیونکہ پاکستان کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جو امریکا کی برداشت سے باہر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے عام تباہی والا اسلحہ اور امریکی اعلیٰ حکمران پاکستان کے ایٹم بم سے نفرت کو چھپاتے بھی نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو ایک امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کا بم ہماری برداشت سے باہر ہے۔ بہانہ کوئی بھی بنایا جا سکتا ہے ایک مسلمان ملک کے ایٹم بم کو بہرحال برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

امریکا نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر مخالف قوتوں کو دہشت گرد کا نام دے رکھا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے سے لے کر عراق پر حملے کی کارروائیاں دہشت گردی نہیں ہیں مگر کوئی مظلوم اگر تنگ آکر بندوق اٹھا لیتا ہے تو وہ دہشت گرد بن جاتا ہے ۔ ایٹم بم اور دہشت گردی کے علاوہ بھی کئی ایسے جرائم ہیں جو امریکا کو پسند نہیں ہیں اس لیے اگر حقیقت میں کسی کی باری آسکتی ہے تو وہ پاکستان کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ۔

ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے پیچھے بھی امریکا کی طویل منصوبہ بندی شامل ہے ایران کے پاس تیل ضرور ہے لیکن امریکی ڈکشنری کے مطابق پاکستان کے پاس جو خطرناک اسباب اور آلات موجود ہیں یہ اسے ایران پر سبقت دیتے ہیں اسی لیے میں ڈر رہا ہوں کہ امریکا ہماری ایک سرحد پر تو پہلے سے ہی موجود ہے اب ایران کے خلاف جارحیت کے بہانے وہ ہماری دوسری سرحد پر بھی اپنا مورچہ بنانے کی کوشش کرے گا گو کہ ہمارے فوجی ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن امریکا کے ساتھ ہمارے ماضی کے تعلقات کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

پاکستان ایک بار پھر ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے امریکا کی نہ دوستی اچھی ہے، اوردشمنی ہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امریکا کیا کرے گا یہ کہنا قبل از وقت ہو گا ہمیں امریکا کے دوستانہ بلکہ مکارانہ طرز عمل سے بچنے کے لیے فہم و فراست اور تدبرسے کام لینے کی اشد ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔