ادب میری رگوں میں دوڑتا ہے،میرے رائٹر ہونے میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں، خلیل الرحمان قمر

تحریم قاضی  اتوار 12 جنوری 2020
سات برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ، معروف ڈرامہ رائٹر، شاعراور ڈائریکٹر خلیل الرحمان قمر سے مکالمہ ۔  فوٹو : وسیم نیاز

سات برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ، معروف ڈرامہ رائٹر، شاعراور ڈائریکٹر خلیل الرحمان قمر سے مکالمہ ۔ فوٹو : وسیم نیاز

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بہترین ڈراموں کا تحفہ دینے والے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمرکا تعلق لاہور سے ہے۔کم عمری سے لکھنے کا شوق رکھنے کے باعث ان کی تحریریں بچپن میں بھی بے حد مقبول رہیں۔

خلیل الرحمان قمر نہ صرف ایک ڈرامہ نگار ہیں بلکہ فلم رائٹر اورڈائریکٹر بھی ہیں۔ان کے لکھے ڈراموں میں بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، دستک اور دروازہ، چاند پور کا چندو،لنڈابازار، دل ہے کہ دیا،تم یہی کہنا، اس پار ، من جلی،بیوپار، تمہیںکچھ یاد ہے جاناں، میں مر گئی شوکت علی، بنٹی آئی لو یو،پیارے افضل، میاں بیوی مائینس لو، ان کی حقیقی کہانی پہ مبنی ڈرامہ صدقے تمھارے، میرا نام یوسف ہے،ان سنی، زرہ یادکر، محبت تم سے نفرت ہے، تودل کا کیا ہوا،لال عشق اور مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑتا ڈرامہ میرے پاس تم ہو شامل ہیں۔لالی ووڈمیں انکی دی فلموں میں قرض، کوئی تجھ سا کہاں، چناں سچی مچی، پنجاب نہیں جاؤں گئی اورکاف کنگنا شامل ہیں۔روزنامہ ایکسپریس سے ان کی نشست کا احوال کچھ یوں ہے؛

ایکسپریس: اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ کہاں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔

خلیل الرحمان قمر: میں لاہور کے علاقے شاد باغ میںبسنے والے ایک متوسط گھرانے میں پیداہوا۔ ننھیال سیالکوٹ میں واقعہ ہونے کے ناطے گاؤں دل میں بستہ ہے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایم سی پرائمری سکول شاد باغ گرلز ماڈل سکول شاد باغ، اسلام معاشرہ میں چار پانچ ماہ، گورنمنٹ ہائی سکول شاد باغ، اسلامیہ کالج سول لائن، جناح اسلامیہ کالج آف کامرس اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔

ایکسپریس:  بچپن کیسا گزرا، کیا ایک شراتی بچے تھے یا بچپن میں بھی اتنے ہی سنجیدہ مزاج تھے؟

خلیل الرحمان قمر: ہمیشہ سے ہی سنجیدہ تھا۔ شرارتی اور غصیلہ تھا، جس پہ گھر سے بہت مار پڑی مگر کبھی باہر سے مار کھا کر نہیں آیا الٹا باہر لوگوں کو مار کر آتا تھا۔ایک وقت میں ایک ہی کام کرتا ہوں۔ میں سمجھتاہوںFocus کا لفظ خلیل الرحمان کے لیے بہت چھوٹا ہے۔

ایکسپریس : کالج اور یونیورسٹی کی زندگی رنگیوں سے بھر پور ہوتی ہے، کیا اس دور میںآپ کی لائف بھی رنگین رہی؟

خلیل الرحمان قمر:اس دور میں زندگی ایک سیدھی ڈگر پہ چلنے کے سوا کچھ نہ تھی،Book Warm ذہن میں ایسی ویسی کوئی بات نہ تھی۔ صبح جانا، پڑھا اور واپس آنا ہی میری کل زندگی تھا۔ایک غریب بچہ تھا مگر فطری طور پر غریب نہ تھا۔اپنی فیملی کے لیے محنت کرتا گیا اور اللہ مجھ کو میری اوقات سے زیادہ نوازتا گیا۔B.Com بیس بائیں برس کی عمر میں کیا کیونکہ بیچ کے دو ڈھائی برس ابا کے ساتھ کام کیا۔ پڑھنے کے لیے پیسے نہ تھے۔ میں نے بہت کام کیا جناح باغ کو روغن کیا۔ وہاں کی بارہ دری کے باہر لگا جنگلہ میرے ہاتھ کا ویلڈ ہوا ہے۔ محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبرایا کیونکہ میرے نبیؐ بھی محنت کرتے تو میری کیا اوقات۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ محنت پر کامیابی کی کنجی ہے۔

ایکسپریس : کیسے سٹوڈنٹ تھے آپ؟اساتذہ کے ساتھ تعلق کیسا رہا؟

خلیل الرحمان قمر: میں ایک شاندارسٹوڈنٹ تھا،چنداساتذہ سے مثالی تعلق رہاوہ معصوم عزیز، علی حسین شاہ، ڈاکٹر اعزاز نقوی ہیں۔ ان کے علاوہ اگرکسی کو اپنا استاد مانتاہوںتووہ میرے والد کے سواء کوئی نہیں۔

ایکسپریس: والد کے ساتھ کیسا تعلق رہا؟

خلیل الرحمان قمر: وہ میں بہترین دوست تھے۔والد کے ساتھ بہترین تعلق کا اندازہ جماعت اول میں ہوا۔ علم تھا کہ میرے پاس اللہ کی عطا کردہ ایسی دولت ہے جیسے کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا۔ گھر میں اپنی چھوٹی بہنوں سے بہت قریب تھا اور سب سے بڑا ہونے کے ناطے ان کے ساتھ ماں والا سلوک کرتا، والدہ کی وفات کے بعد اپنی بہنوں اور بھائی کو ماں کی طرح ٹریٹ کیاجن کی اس وقت عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔

ایکسپریس : ادب سے دلچسپی کب اور کیسے پیدا ہوئی؟پہلی بار کب لکھا؟

خلیل الرحمان قمر: جب سے پیدا ہوا تو وقت سے پہلے ہی جوان تھا۔ پہلی مرتبہ قلم ہاتھ میں لیا تو مجھے یہ آگاہی ملی کے میں ایک لکھاری ہوں۔ 7 برس کی عمر میںسب سے پہلا شعر لکھا۔

خوش نہ رہ سکا جہاں ویرانیاں تو رہ گئیں

تم چلے گئے تو کیا کہانیاں تو رہ گئیں

میرے لکھے گانے تیری آنکھوں کے دریا کا بکھرنا بھی ضروری تھا کہ ابتدائی اشعارنویں جماعت میں لکھے تھے جوکہ کچھ یوں ہیں۔

لفظ کتنے ہی تیری پیروں سے لپٹے ہوں گے

تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا

تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے

دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا

مجھے لگتا ہے قارئین کو یہ جان کر خوش ہونا چاہیے کیونکہ اللہ جب عطا کرتا ہے تو وہ عمریں اور اوقات کہاں دیکھتا ہے۔ ادب کے لیے دلچسپی کو ایک چھوٹا لفظ گرانتا ہوں۔ ادب میری رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ادب سے لگاؤ تھا مگرادب سے متعلقہ کوئی کتاب نہیں پڑھی، مقامی اور زیادہ تر پنجابی ادب پڑھا۔میاں محمد بخش، وارث شاہ، خواجہ فرید، بلھے شاہ کو پڑھا۔اللہ کی کچھ ایسی عطاء رہی کہ کسی شاعر کی ایک غزل سن لیتا تو چار سال بعد اس کا دیوان اٹھا لائے کوئی اور پوچھ لے میں بتا دیتا کہ کس کی غزل ہے۔ لوگ اس پر اعتراز کرتے ہیں۔ مجھے اللہ کی عطاء پر بات کرنے والی یہ عادت پسند نہیں۔میرے رائٹر ہونے میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں، مجھے دے کر بھیجا گیا اور وہی لکھ رہا ہوں۔

ایکسپریس : زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ؟

خلیل الرحمان قمر: مسکرا کر کہنے لگے، ’’میری ساری زندگی ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے‘‘۔ اپنے پاس اردو کی کتاب نہیں رکھتا تھا یہ میری انا کا مسئلہ تھا۔ اللہ مجھے اس بات پر معاف کردے۔ سکول میں اس پر بہت مار پڑی۔ کالج گیا تو وہاں کچھ آزادی تھی۔ پہلے دن اردو کی کلاس تھی، ڈاکٹر اعزاز نقوی اردو کے استاد تھے۔ لکھنؤ سے پی ایچ ڈی کررکھی تھی اور جب مسکراتے تو ان کا سونے کا ایک دانت پیارا لگتا۔پہلے روز سب کا تعارف کروانے کے بعد چلے گئے۔

دوسرے روز حاضری لگانے کے بعد پوچھا کون صاحب ہیں جن کے پاس اردو کی کتاب نہیں۔ کل 20 بیس لڑکے کھڑے ہوئے اور میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ مسکرائے بولے تشریف لے جائیے یہ روزانہ کا معمول تھا۔ روز میں کھڑا ہوتا اورپھر ان کا جملہ تبدیل ہوگیا باہر تشریف لے جائیے۔ عام طور پر تو میں ایسی باتوں پر غصہ ہوتا مگر مجھے تعارف والے دن سے ہی ان کے لب لعن سے عشق ہوگیا تھا۔ جب انہوں نے میرتقی میر کی ایک غزل سنائی تھی۔جسکا مصرعہ کچھ یوں ہے؛

’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

ناز کی ان کے لب کی کیا کہیے

پنکھری اک گلاب کی سی ہے۔‘‘

تو میں ان پر مرمٹا اور دانستہ روزانہ ان کے ہاتھوں زلیل ہونے جاتا۔انکے خیال میں تو میں کلاس کا انتہائی ڈفر ٹرین لڑکا تھا۔ میرا کزن خالد بشیر ساتھ پڑتا تھا وہ مجھے کہنیاں مار کرکہتا کہ بتادو کہ تم لکھتے ہو مگر میں نے کہا وقت آئے گا اور اللہ کی دین ہے وہ خود دن لائے گا۔دو ماہ گزر گئے فری پریڈ میں والی بال کھیلتےہوئے میری کلاس کے ایک لڑکے نے کہا کہ رول نمبر 99 ایک فیور کردے کہ میری والدہ کا اپنڈیکس کا آپریشن ہے۔ میں آجاؤں گا تم میری کتابیں رکھ لو۔ میں نے بنچ پر رکھی کتابیں اٹھائیں تو ان میں اردو کی بھی کتاب تھی۔

اس روز میں کلاس میں گیا تو نقوی صاحب نے حاضری لگانے کے بعد میری جانب دیکھتے کہا ’’کون صاحب ہیں جن کے پاس اردو کی کتاب نہیں؟‘‘ میں بیٹھا رہا۔ تو انہوں نے جو جملے کہے وہ کچھ یوں تھے۔’’ارے میاں آپ کے پاس ہے کتاب! وہ کیونکر؟‘‘ میں نے سارا واقعہ سنا ڈالا تو کہنے لگے ’’سبحان اللہ، سبحان اللہ! تو حضور آج اس خوشی میں کچھ پڑھیں گے نہیں بلکہ کچھ لکھیں گے۔ آپ کے پاس چالیس (40) منٹ ہیں۔ ان میں آپ سب ایک ناقابل فراموش واقعہ تحریرکریں گے۔ اس کے بعد پیریڈ خالی ہے۔ اس میں آپ ہمیںسنائیں گے۔‘‘ میں نے اپنے کزن کی جانب دیکھ کر کہا دیکھا گا۔خالدالرشید آج وہ دن آگیا۔ مجھے اچھے سے یاد ہے جب میں نے لکھنا شروع کیا تو وہ تواتر سے میری جانب مسکراتی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھیں ظاہر کررہی تھیں کہ جب یہ لکھے گا پھر پڑھا جائے گا تو اس کا ایک ٹھٹھہ اٹھایا جائے گا اس سے لطف اٹھایا جائے گا۔

ٹھیک چالیس منٹ بعد لکھ چکا تو انہوں نے پوچھا،’’ بھئی آپ لکھ چکے؟‘‘ میں نے کہا’’ جی ہاں! ‘‘وہ کہنے لگے، ’’بھئی شرم کیجئے اب تو یہ بھی لکھ چکے‘‘۔ ’’چونکہ آپ نے سب سے پہلے لکھا تھا تو آپ ہی سنائیں‘‘ ابھی تک ان کے جملے میں طنز تھا۔ میں نے سنانا شروع کیا تو کہیں کہیں میری نظریں ان کے چہرے کی جانب اٹھتی،ان کے چہرے کی مسکراہٹ رفتہ رفتہ غائب ہوگئی۔ پھر اس کی جگہ متانت نے لے لی۔ پھر سرخ ہوگئے۔ اس وقت تک میں درمیان میں پہنچ چکا تھا۔ مجھے کہنے لگے ’’رک جاؤ‘‘ میں رکا۔ چل کر میرے پاس آئے قد میں مجھ سے چھوٹے تھے کہنے لگے،’’ میاں سر نیچے کرو‘‘ میںنے سر نیچے کیا تو میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہنے لگے ’’میاں آج سے تم کتاب کی قید سے آزاد ہو۔‘‘

مگر اردو کی کتاب پھر بھی اپنے پاس نہیں رکھی اب اس پر اللہ ہی مجھے معاف کرے۔

ایکسپریس : کیا کبھی محبت ہوئی؟ اور اگر ہوئی تو اسے حاصل کرپائے؟

خلیل الرحمان قمر: ہمارے ہاں ایک بڑا غلط نظریہ ہے لوگ سوچنے لگتے ہیں نہ ملنے سے محبت نہیں ملتی۔ سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہا، محبت جب ہوتی ہے تو اپنی پوری تکمیل کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس میں کھو دینے کا کوئی جواز نہیں ہوتا، کسی کے نہ ملنے سے محبت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محبت کے بغیر تو دو ٹکے کے ہیں ہم۔ جس کو محبت نہیں ہوئی اسے تو کسی جنگل میں جاکر جینا چاہیے۔ محبت ایک ولایت ہے جو خوش نصیبوں پر اترتی ہے وہ کن پر اتری اس کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ الحمد اللہ مجھ پر بھی اتری اور وہ خلیل الرحمان قمر کو خلیل رحمان قمر بناگئی۔ محبت کو ایک طاقت کے طور پر لیا۔ کبھی لگتا ہی نہیں تھا کہ محبت نہیں ملے گی۔ لڑکی تو نہ ملی محبت مل گئی۔ اس کے نہ ملنے کے پیچھے جو گھناؤنا واقعہ تھا اسے میں نے صدقے تمہارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ محبت تو انسان کے اندر ازل سے ہوتی ہے بس کس سے ہوتی ہے یہ پتہ چلنے میں دیر لگ جاتی ہے۔ ایک شبیہ سی بنتی ہے اور اس سے ملتا جلتا کوئی شخص آپ کے سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے محبت ہوئی۔

ایکسپریس: کوئی تشنہ آرزو؟

خلیل الرحمان قمر: مرنے سے پہلے دو خواہشات پوری کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ڈاکٹر اعزاز نقوی جیسی اردو بول کہ جاؤں اور ایک شانو جیسی کسی لڑکی سے ملوں۔ آج تک اس جیسی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔ شانو سے محبت کی بابت دریافت کیا تو کہنے لگے شانو بس ایک ہی تھی۔ وہ تین سال کی عمر سے جانتا تھا کہ میری شادی کس سے ہونی ہے۔شانو کی ایک سہیلی نے مجھے خط لکھ دیا جس پر وہ جان چھڑکی تھی۔ میں چونکہ اپنے زور بازو پر شانو سے روز سیالکوٹ ملنے جاتا تھا تو اس روز شانو سیڑھیوں سے اتر کر میرے پاس سے گزری۔ (ڈرامے میں اس کا نام حمیرا رکھا تھا)۔ اوپر گیا اور خط پڑھایا تو مسکردی۔ کہا تمہیں شرم نہیں آئی، آئندہ تم اس سے نہیں ملو گی۔ وہ کہنے لگی خلیل صاحب اگر کوئی آپ سے نفرت کرے گا تو اسے نفرت کروں گی کوئی آپ سے محبت کرے گا تو اس سے محبت کروں گی۔ بعد میں لڑکی نے معافی مانگ لی۔

ایکسپریس:  شادی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ خود لیا یا والدین کی مرضی سے؟اپنے بچوں کے حوالے سے کچھ بتائیے؟

خلیل الرحمان قمر: شادی اپنی مرضی سے کی اس وقت جب B.Com ون میں تھا۔ شادی اور محبت کے بارے میں کہنے لگے محبت بچپن کی باتیں تھیں۔ ماشاء اللہ میرے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اب ماشاء اللہ سے بڑے ہوگئے ہیں اور بالکل میرے دوستوںکی طرح ہیں۔ نانا کا لفظ بالکل پسند نہیں، میری نواسیوں کو یہ کہنا منع ہے بلکہ وہ کہتی ہیں کہ میری چھوٹی بہنیں ہیں۔ میں کہتا ہوں اتنی سی عمر میں مجھے نانا بنادیا۔ ابھی صرف نانا کے رتبے پر فائز ہوں۔ اپنی بیوی کو کھانا بنانا بھی میں نے سکھایا، اسے انڈہ تک ابالنا نہیں آتا تھا۔ اعتماد کرتا ہوں ہر شخص پر اس کے دغا دینے تک۔ الحمد اللہ اچھی ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں۔ مرد پہ بے تحاشہ شک اسے دور کردیتا ہے اور نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

ایکسپریس :  زندگی سے کیا سیکھا؟

خلیل الرحمان قمر: زندگی سے کچھ نہیں سیکھا زندگی کو سیکھا کر جاؤں گا۔ کیونکہ مجھے علم ہے زندگی موت کی طرف جانے والے راستے کے سوا کچھ نہیں۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ میرا جسم مرے گا مگر میرا نام زندہ رہے گا، میرا کام زندہ رہے گا۔

ایکسپریس : کیا آپ کے خیال میںتخلیق کار کی زندگی میں برا وقت آتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: تخلیق کار کی زندگی میں برا وقت آتا ہے۔ دراصل ان کے میرٹ ڈسیزن برے ہوتے ہیں۔ ان کو وہ لوگ نہیں مل پاتے جو ان کی بات سمجھ سکیں۔ جن سے وہ بات کرسکیں۔ تو ایک لاشعوری پیاس رہ جاتی ہے جو ہر جگہ مارتی ہے لیکن غم ہونا بھی آپ کے ہونے کی نشانی ہے۔ میں آئیڈیل پرست نہیں۔

ایکسپریس: نثر نگاری کے علاوہ کسی اور شعبہ میں اظہار کی کوشش کی۔

خلیل الرحمان قمر: 1986ء سے 1999ء تک بینکر رہا۔ وائس پریزیڈنٹ بینک آف پنجاب رہا۔ چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ اماں کا انتقال ہوچکا تھا اور ابا کا کنٹرول نہیں رہا تھا۔ اس لیے اپنے شوق لکھنے کو ہی اپنایا۔ ایک مشہور بنکر رہا۔ ایک بہترین بینکر کے ساتھ بہترین فیصلہ ساز تھا۔ ایک مزے کا واقعہ ہے۔ایک مرتبہ چیئرمین کا فون آیا کہ 10 کروڑ کا لان چاہیے ایک پارٹی فیصل آباد سے آئی ہے۔ انہوں نے 36 کروڑ لگا رکھے تھے اور بار بار کہتے تھے ’’سارے پیسے اسی آپے لائے نے‘‘ میں نے انہیں چائے کا کپ پیلایا، میں ایسا ہی تھا ایک چائے کے کپ پر لون دے دیتا تھا یا نہیں دیتا تھا اور ایک مرتبہ اگر انکار کردیتا تو پھرکسی کی سفارش پر بھی لون نہیں دیتا تھا۔ میں نے کہا حاجی صاحب آپ کو لون نہیں دوں گا وجہ پوچھی تو میں نے کہا آپ ڈیزرو نہیں کرتے جب وہاں پوچھا جائے گا تو بتادوں گا۔ وہ اچھا جی کہ ’’کر کرلینے آں کج‘‘کہہ کر چل دئے، عاصم جمشید صاحب پندرہ منٹ بعد آکر کہنے لگے آج میں آپ سے ایک نئی چیز سیکھوں گا۔ میں نے کہا ضرور اور آپ کو اپنے استاد کا نام بھی بتاؤں گا۔ اور وجہ اتنی سالڈ ہوگی کہ آپ بھی کہیں گے لون نہ دیں۔

میرا کیریئر نیشنل بینک سے شروع ہوا تھا اور آزد کشمیر میں پوسٹنگ تھی۔ جب دینہ سے لاہور آنے کے لیے پشاور سے چلنے والی خرکار بسیں ہوتی تو وہ ٹائم کو میچ کرکے چلتی اور ایک منٹ کی دیر سے بھی بس چھوٹ جاتی، اس دن میں اکیلا وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا چونکہ بس چھوٹ چکی تھی تو ساتھ پھل کی دکان تھی جہاں دو لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے تھے اور میرے کان ان کی باتوں پر لگے تھے۔ ایک آدمی کسی دوسرے کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ فلاں نے فلاں فلاں سے دو تین تین ہزار لے کر کام شروع کیا۔ بڑا گھٹیا ا ٓدمی ہے وہ۔ تو پھل والے نے کہا یہ تم اس کی تعریف کررہے ہو یا بدتعریفی؟ پوچھا کیسے؟کہنے لگا تعریف یوں کہ وہ اتنا قابل اعتبار ہے کہ لوگ اسے ادھار دے رہے۔ میں نے کہا حاجی صاحب پیسے آپ کو اس لیے نہیں دے رہا کہ سارے پیسے آپ نے خود لگائے ہیں۔ کسی نے آپ کو نہیں دیئے۔ آپ قابل اعتماد نہیں۔ حاجی صاحب سمجھ گئے۔

ایکسپریس:ایک وہ دور تھا جب پرائم ٹائم پر بازار گلیاں سنسان ملتے تھے۔ہمارے ڈرامہ انڈسٹری کے زوال کی وجہ کیا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: پرانے دور کے ڈرامے کا مقابلہ آج کے دور میں ڈراموں سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس وقت صرف ایک ڈرامہ ہوا کرتا تھا اور ہم تو ٹی وی اس ڈبے کو مبہوت ہوکر دیکھا کرتے تھے کہ آخر کیا ہے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹری اپنے Subjects کی وجہ تھوڑی مار کھائی ہے اور یہ انٹرنیشنل Conspirency ہے کہ ہمیں ہمارے اصل موضوعات سے ہٹادیاگیا ہے۔ ورنہ ڈرامہ انڈسٹری میرے نزدیک اپنی پیک پر ہے۔

ایکسپریس:ہماری فلموں اور ڈرامواں مین عورت کو مظلوم دکھانا ایک عمومی رحجان بن چکا ہے۔اس کے برعکس تصورات کو عکس بند کرنے پہ پروفیشنل سطح پر اور عمومی سطح پہ کیسے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا؟

خلیل الرحمان قمر: ہمارے ڈراموں میں ساس اور نند کو ڈائن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ جب لکھنے والی ایسا لکھ رہی ہوتی ہے وہ خود نند، ساس یا کسی کی بہو ہوتی ہے۔میرے ڈراموں میں ساس کا کردار کبھی ایسا نہیں دیکھایا گیا۔ اگر ماں کے ساتھ کمپرومائز کرسکتی ہیں تو ساس کے ساتھ کیوں نہیں جو یاد بھی رکھے گی۔ ہماری لڑکیوں کے دماغوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ وہ ڈائن سے ملنے جارہی ہیں تو ان کے پلان بھی ایسے ہوتے، بجائے یہ سوچنے کے دوسری ماں اور سہیلی سے ملنے جارہی ہیں وہ غلط سوچ لے کر جاتی ہیں۔ تو ان کے پلان بھی اس کے حساب سے ہوتے ہیں۔

ایکسپریس : کسی کہانی کی تخلیق کے دوران اولیت تفریح کو حاصل ہوتی ہے یا مقصدیت کو؟

خلیل الرحمان قمر:میں نے آج تک جتنے بھی پلے لکھے وہ مقصدیت پہ مبنی تھے اور میرے پاس تم ہو اس میں سب سے بڑا پلے ہے۔ میرے پاس تم ہو بھی معاشرے کا Burning ایشو ہے۔ میں ہمیشہ سے جو دیکھتا آرہا تھا اسے ڈیفائن کیا۔

ایکسپریس :کیا معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح میں ہمارے میڈیا خصوصاً ڈراموں کا بڑا ہاتھ ہے؟

خلیل الرحمان قمر: معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کے حوالے سے جب میڈیا کے کردار کا سوال کیا گیا تو خلیل الرحمان کا ردعمل کچھ یوں تھا۔ آپ جب مرد سے آزدی مانگنے نکلیں گی تو طلاق کی شرح بڑھے گی۔ اگر میں اتنا کماتا ہوں تو مجھے بیوی رکھنے کی کیا ضرورت، مجھے تو وہ عورتیں سستی پڑتی ہیں جن کا اپنا جسم اپنی مرضی ہے۔ یہ عورت کی حیا اور وفا ہوتی ہے جو مرد کو شادی کے بندھن کو چلانے کا محرک بنتی ہے۔ میں چالیس برس سے سوچ رہا تھا کہ مرد شادی کیوں کرتا ہے۔

اس کا جواب میں نے اپنے ڈرامے ’’ذرا یاد کر‘‘ میں دیا۔ غلطیاں کہاں ہوئیں، کبھی بازار حسن بستے تھے جہاں میرا جسم میری مرضی والی عورتیں رہا کرتی تھیں۔ انہیں نہ کا جاتا تھا کھانا گرم کرو اور نہ بہت سے گھٹیا Slogans دیکھے وہ آکر شہر میں بس گئی۔ ایسی لاٹ کو بیرونی سپورٹ کے ذریعے ہمارے کلچر کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ رن مرید کا جملہ بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ وہ مرد دراصل رن مرید نہیں ہوتا وہ وفا کرنے والی عورت کی ساری غلطیاں برداشت کرنے والا ہوتا ہے۔ جوتے بھی کھالیتا ہے۔ وہ اسے اس لیے نہیں چھوتا ہے کہ وفادار۔ مرد کے اندر اللہ نے اپنی فطرت ڈال رکھی ہے۔ مرد صرف ایک اپنی طرح کا دیوتا ہے جو اپنی ایک پجارن ڈھونڈتا ہے۔ شوہر اپنی بیوی کے لیے سب کچھ کرتا ہے بچے تو ضمنی میں آتے ہیں۔ پہلا تعلق بیوی سے ہوتا ہے جہاں وہ شرک کرے گی وہاں ایسا ہی ہوگا۔ امریکہ میں آج تک کوئی عورت صدر نہیں آئی۔ ان کی باتیں مان رہے ہو تو بہت بیوفوف ہو دوغلے لوگ ہیںوہ۔

ایکسپریس :لاہور میں کراچی کی نسبت فلم مضبوط کیوں نہیں اور دونوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟

خلیل الرحمان قمر:لاہور میں اب فلم انڈسٹری نہیں رہی۔ وجہ پر میں کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔

ایکسپریس:کسی بھی فلم کی کامیابی میں ڈائلاگز کا کیا کردار ہوتا ہے۔ اور کیا آپ کے خیال میں ایک رائڑ اچھا ڈائریکٹر ہوسکتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر: ایک اچھا فلم رائٹر ایک اچھا فلم ڈائریکٹر ہوسکتا ہے اس کی مثال ہماری انڈسٹری میں ریاض شاہد شان کے والد خلیل قیصر ہیں۔ فلم انڈسٹری میں اچھا وقت گزرا۔ آٹھ دس لوگوں کی وجہ سے سب کو برا نہیں کہا جاسکتا۔

ایکسپریس : کیا ایک فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا ہے؟

خلیل الرحمان قمر:فلم کوئی فورمولا نہیں ہوتا۔ وہ ایک کری ایٹو فیکلٹی ہے اسی طرح سے ڈیل کرنا چاہیے۔ ہاں میں فلم میں آئٹم سونگ کے سخت خلاف ہوں۔ ’’کاف کنگنا‘‘ میں بھی جو گانا تھا وہ ترانہ نما تھا۔ وہ آئٹم سونگ نہ تھا۔ جہاں ضرورت پڑے وہاں گانا ضرور دیں مگر فلم کو ننگا نہیں ہونا چاہیے۔ فلم ایسی ہو کہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جاسکے۔ ہماری فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ اپنے معیار پر سمجھوتہ بنی۔

ایکسپریس :فلم پنجاب نہیںجاوں گی میں پزیرائی کے بعد کاف کنگنا سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے پہ کیا کہیں گے؟

خلیل الرحمان قمر:کاف کنگنا سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ اس کو باقاعدہ پلان کی وجہ سے Destroy کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ فی الوقت کچھ نہیں کہوں گا۔

ایکسپریس : قارئین کو کوئی پیغام دینا چاھیں گے؟

خلیل الرحمان قمر: پیغام میں یہی ہوں گا کہ کوئی بھی کام یہ بھول کر کیجئے کس کو کیا مل گیا ہے۔ وہ اللہ ہے جو دینے والا ہے۔ حسد سے بڑی کوئی بیماری نہیں اس سے خدا پر یقین کم ہوجاتا ہے اور مایوسی مقصدر بن جاتی ہے۔

میں رومی کے کردار میں موجود ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پاس تم ہو میں کامیابی اور پذیرائی کے حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں اللہ نے مجھ سے اچھا ڈرامہ لکھوایا اور پھر اچھا ڈائریکٹر ہوا اور اچھے سے کردار نبھائے گئے۔ میرے پاس تم ہو میں تنقید پر سوال کیا تو انہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ مجھ سے بڑا کوئی Feminist ہوگا مگر میں عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھتا۔ دونوں برابر ہو ہی نہیں سکتے۔

عورت جس برابری کی تمنا کررہی ہے وہ اسے نہیں مل سکتی۔ اس بات پر بڑی لے دے ہوئی کہ پانچ عورتیں مل کر کوئی مرد اغوا کریں نا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک برا ایکٹ عورتیں نہیں کریں گی۔ اچھا مرد کبھی اچھا معاشرہ نہیں چلا سکتا، معاشرہ اچھی عورت چلاتی ہے۔ میں بہت لبرل آدمی ہوں مگر Bounding  میں Cheat کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں مرد کو اس سے آزاد قرار نہیں دیتا مگر میں گارنٹی کرتا ہوں مرد جب تک عشق میں نہ ہو غلطی کرنے سے باز نہیں آتا۔عورت میں انکار کرنے کی قابلیت ہے، مرد میں نہیں ہے۔ جب تک عشق میں تھا دوسری دفعہ کسی لڑکی کو دیکھا بھی نہیں کرتا تھا مجھے نہیں یاد کہ میں نے کسی کو انکار کیا ہو۔ جب میں عورت کو اتنے بڑے مرتبے پہ کھڑا کردیتا ہوں اور اگر پھر وہ میری برابری کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے معیار سے نیچے گرنا چاہتی ہے۔ ماں کسی کی بھی ہو ہم غیر مشروط طور پر اس کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارا قد ان کے جوتوں سے اوپر نہیں۔ تو برابری کس چیز کی۔

ایک عورت نے لکھا خلیل الرحمان قمر کبھی نو ماہ اپنے پیٹ میں بچہ اٹھاؤ تو تمہیں پتا چلے۔ بھئی میں کیوں اٹھاؤں جب مجھے اس کے لیے بنایا نہیں گیا۔ کل کو تم کہو کہ دس سال عورت کی آواز میں باتیں کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل اس لیے نہیں مرد کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور پر مضبوط بنایا۔ اب اگر سو ایسے واقعات ہوں تو ان سو کی بنا پر ہم ہزاروں کی کمیونٹی کو جزلائز نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا کوئی برا مرد ہو تو میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوکر اسے برا کہوں گا۔ جس لڑکی کو Shutupcall دینی آتی ہے،مرد اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتا اور اگر پھر بھی کوئی آئے تو وہ کریمنل ہوگا۔ اسے رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔

وہ میری کہی باتوں کو اپنی آزادی کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہیں جب ہی Reaction آتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دلیل سے بات نہیں کی جاتی۔ میرے پاس تم ہو سے بھارت میں سب کی جان نکلی ہوئی ہے۔ کسی کے بنائے ڈرامے یا کام پر تنقید کرنا میرا کام نہیں۔ ان سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اس میں عورت کو ڈیفائن کیا تو کہنے لگے لوگ یہاں غلطی کرتے ہیںکہ میں نے عورت کو ڈیفائن نہیں کیا بلکہ وہ ایک عورت تھی جس نے یہ عمل کیا اور اس کا مقصد صرف یہ سیکھانا تھا کہ ایک مرد جب غلطی کرتا ہے تو وہ ایک خاندان کا نقصان ہوتا ہے اور ایک عورت جب غلطی کرتی ہے تو ایک نسل کا نقصان ہوتا ہے۔

پسند

جو بھی ایکٹر یا ایکٹریس اچھا کام کرے اسے پسند کرتا ہوں آج کل ’’میرے پاس تم ہو‘‘ میں ہمایوں اور عدنان اچھے لگتے ہیں۔پسندیدہ تفریحی مقام لکھنے کی ٹیبل ہے اور اپنے گھر میں بھی سب سے زیادہ اسی جگہ کو ترجیح دی۔ ٹیبلیں تو بدل جاتی ہیں مگر وہ مقام لکھنے کی میز ہے۔ بعد اوقات سارا دن دروازے تک نہیں جاتا۔ نثر نگاری میں سعادت حسن منٹو پسند ہیں۔ ان کے افسانے لو، کھول دو ٹھنڈا گوشت اور شلوار بہت پسند ہے۔ جون ایلیاء میں وہ بات ہے جو کسی میں نہیں۔ خلیل الرحمن قمر ساری شاعری کرے اور ان کے قدموں میں رکھ دے۔ موسیقی سے شغف ہے۔ محمد رفیع، مہدی حسن، لتا منگیشکر، ملکہ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم میرے فیورٹ سنگرز ہی۔

ندیم بیگ، سید نور بہترین ڈائریکٹرز ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’یا خدا‘‘ پسند ہے۔

بہت کرکٹ کھیلی۔ عمران خان بہترین کھلاڑی کے طور پر پسند ہیں۔ فلم اور ڈرامہ دونوں سے عشق ہے۔ بنیادی طور پر تو شاعر ہوں پھر ڈرامہ رائٹر ہوں۔ ناول کبھی نہیں لکھا۔

انتقاماً 15برس اردو نہیں لکھی۔۔۔۔۔۔۔

بچپن میں بہت لکھا اور بہت چھپا اور اس سے بہت پیسہ بھی ملا مگر میرے گھر والے لکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ ان دنوں ادیب کا تاثر معاشرے میں بہت برا تھا۔لکھے پر مار بھی پڑی اور پھر میں نے15برس تک اردو میں کچھ نہیں لکھا۔ آج لگتا ہے کہ میرے گھر والے حق بجانب کیونکر وہ چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر خاندان کی کشتی کو کنارے لگادوں کوئی اچھا بڑا افسر بن جاؤں۔ اور وہ ٹھیک تھے کیونکہ میں ایک پڑھنے والا شاندار بچہ تھا۔ مگر میں نے اس پر انتقام لیا اردو لکھنا چھوڑ دیا اور ریڑھی والے سے بھی انگریزی میں بات کرتا۔ کٹر پنجابی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود جب بھی اردو بولی کبھی اپنے معیار سے کم تر نہ تھی۔

لوگ میرے پہ ہنستے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب بچہ ہونے کے ناطے محلے کی مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتی تھیں۔ تب ایک روز کھلے گٹر کے پاس بیٹھ کر سوچا دنیا کی پرواہ نہیں کرنی بس اپنے اللہ کی پرواہ کرنی ہے۔ والد ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ میں ایک عام سے کنٹریکٹر تھے۔ انگریزی پر محنت کرنا پڑی۔ مگر وہ اردو سے زیادہ مشکل زبان نہیں کیونکہ میں ایک غریب بچہ تھا تو جب انگریزی بولتا لوگ مجھ پر ہنستے۔ ایک صبح میں نے بیٹھ کر خود سے کہا آج جو تم پر ہنستے ہیں کل شرمندہ ہوں گے کیونکہ فطری طور پر پُراعتماد تھا اور پھر بہت زیادہ پڑھنے والا تھا تو بہت پڑھا۔ انگریزی میں کورس کی کتابیں بہت پڑھیں۔ اللہ کی طرف سے الہام تھا کہ مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ ایسی زبان ہے جسے بول کر ہی سیکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔