امریکا، روس، چین کشمکش اور برصغیر

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 12 جنوری 2020
برصغیر، بالخصوص پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا عالمی طاقتوں کو شدت سے احساس ہے

برصغیر، بالخصوص پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا عالمی طاقتوں کو شدت سے احساس ہے

(قسط نمبر16)

 برصغیر اور چین کی تاریخ میں ایک قدر تھوڑی مشترک رہی ہے کہ دونوں ملکوں کا رقبہ اور آبادی بڑی اور وسائل زیادہ تھے مگر اس کے باوجود اِن دونوں ملکوں کی جانب سے کسی ملک کے خلاف بہت کم جارحیت ہوئی۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اُس کی تہذیب قدیم ہے۔ یہاں صنعت وحرفت ، علم و تحقیق پر بڑا کام ہوا۔ مستقل مزاجی اور اپنے ملک کا دفاع اِن میں ایمان کی حد تک رہا ہے اور غالباً یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس کے ہاں پہلے فرائض کی بات ہوتی ہے اور پھر حقوق کا ذکر آتا ہے۔ اِ ن کی مستقل مزاجی کا زندہ ثبو ت دیوارِ چین ہے اور جدید تاریخ میں زندہ مثال چیئرمین موزے تنگ کا لانگ مارچ ہے، جہاں تک تعلق دیوارِ چین کا ہے تو اس کی تعمیر کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ چین کو بیرونی حملہ آوروں خصوصاً منگولوں کے حملوں سے محفوظ کیا جائے تو دوسری بنیادی وجہ یہ تھی کہ چین کی ماضی میں صدیوں تک ریشم پر اجارہ داری قائم رہی، کاغذ کی ایجاد کی طرح ریشم کی دریافت چین کا کارنامہ ہے۔

صدیو ں تک چین نے اس راز کو اپنے ملک سے باہر نہیں جانے دیا۔دیوارِ چین کی تعمیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک میں آنے والے جب واپس جاتے تو دیوارِ چین سے نکلنے والے دروازوں پر اِن کی تلاشی لی جاتی تھی ۔ ملک کے دفاع کے لیے باردو کی ایجاد کے ساتھ اُنہوں نے یہ دیوار طویل عرصہ کی مستقل محنت سے بنائی تھی لیکن پھر یہ ہوا کہ یورپ سے دو پادری یہاں آئے اور کئی برس یہاں عیسائیت کی تبلیغ کی اور واپسی پر انہوں نے اپنے عصا کو کھوکھلا کیا اور اس میں ریشم کے کیڑے چھپا کر لے گئے۔ جہاں تک تعلق ہندوستان یا برصغیر کا ہے تو یہ تہذیب تو قدیم ہے مگر خصوصاً اشوک اعظم کے بعد ہندوںکی حکومت میں علم اور مذہب پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی جو معاشرے میں سب سے اُونچی ذات ہے اور آبادی میں اس کا تناسب بہت کم ہے۔ پھر زمانہ قدیم میں ہندو مت میں سمندر کا سفر کرنے یا ہندوستان چھوڑنے سے دھرم نشٹ ہو جاتا تھا۔

اس لیے انگریزوں کی آمد تک ہندوں میں ہندوستان سے باہر جانے، دنیا کے مختلف ملکوں میں سفر کرنے کا تصور نہیں تھا، یوں نہ تو برصغیر سے کوئی فاتح نکلا اور نہ ہی ہندو تاجر باہر کی دنیا سے روابط رکھتے تھے، زمانہ قدیم میں آج کے پاکستانی علاقوں میں ایران سے سائرس اعظم، یونان سے سکندر اعظم آئے اور پھر جلد رخصت ہو گئے، پھر ایک ہزار برس تک ہندوستان کو افغانستان اور سنٹر ل ایشیا سے تعلق رکھنے والوں نے مختلف ادوار میں فتح کیا، یہاں سلطنتیں قائم کیں، اگرچہ یہ یہاں نئی روشی اور نظریات لائے یہ جنگجو بھی تھے، مگر چونکہ سنٹرل ایشیا اور افغانستان میں سمندر نہیں تھے اِس لیے یہ یہاں اتنے بڑے جزیرہ نما ملک کے لیے کوئی موثر بحری فوج نہ بنا سکے۔

چین کے معاشرے میں فاتحین کم آئے اور بڑی آبادی کے ساتھ چینی قوم کی اکثریت لسانی اور نسلی لحاظ سے ایک رہی اور شائد ہی اتنی بڑی آبادی کے ساتھ دنیا کی کوئی قوم اتنے ڈسپلن میں بھی رہی ہو، پھر جہاں تک تعلق دنیا سے روابط کا ہے تو ہندوں کے برعکس چینی تاجر قدیم زمانے سے اپنی شاہراہ ریشم سے دنیا کے ممالک میں جاتے رہے اور دنیا بھر کے تاجر یہاں آتے رہے۔ چین 1949ء میں آزاد ہوا اس کا رقبہ 9596961 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی 1433783686 ہے، بھارت کا رقبہ 3287263 مربع کلومیٹراور آبادی1 ارب 14 کروڑ ہے، پاکستان کا رقبہ 881912 ہے اور آبادی 22 کروڑ بنگلہ دیش کا رقبہ147570 مربع کلومیٹر اور آبادی163046161 ہے، افغانستان کا رقبہ652225 ہے اور آبادی 38041754 ہے۔ 1990 میں سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کی 15 ریاستوں کی علیحدگی کے بعد اب روس کا رقبہ 17098246 مربع کلومیٹر اور آبادی 145872256 ہے۔

آج کے جدید دور میں ماضی قریب کی  تاریخ کے تناظر میں آج کی نئی طرز کی جنگ جس کو بظاہر اقوام متحدہ اور خصوصاً ترقی یافتہ ممالک اور بڑی قوتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا ہے، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاریخ میں نوآبادیاتی نظام کا آغاز اُس وقت ہوا جب  پہلے اسپین میں مسلم سلطنت کمزور ہوئی اور اسپین چار ریاستوں میں تقسیم ہو گیا، 1 کیسٹائل2 آراگون 3 غرناطہ اور چوتھی ریاست ناروائی ذرا مختصر علاقے پر مشتمل تھی۔ غرناطہ مسلم ریاست تھی ،کیسٹائل کی ملکہ ازیبلا جو کٹر کیتھو لک تھی، ملکہ بننے کے بعد 1469 میں اُس نے دنیا کے بڑے عیسائی بادشاہوں کے رشتوں کو ٹھکراکر آراگون کے بادشاہ فرڈیننڈ سے شادی کی اور پھر دونوں نے ملکر اور غرناطہ کے غدار وزیر کی معاونت سے 1492 میں غرناطہ کو شکست فاش دی اور پھر پورے اسپین میں مسلمانوں اور یہودیوں کا ایسا تاریخی قتل عام کیا کہ یہاں سوائے عیسائی آبادی کے کوئی اور باقی نہیں رہا۔

واضح رہے کہ اسی ملکہ ازیبلا نے کر سٹو فر کولمبس کی مالی معاونت کی تھی جس نے اسی سال یعنی 1492 میں امریکا دریافت کیا، پھر آنے والی چار صدیوں میں یہ نوآبادیاتی نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا اور اس کی مضبوطی میں یورپ میں ہونے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی صنعتی معاشی اقتصادی ترقی تھی جس میں سنٹرل بنکنگ سسٹم اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے ایک عالمی نظام زر تشکیل پا رہا تھا۔ بڑی قوتیں ایشیا،افریقہ،امریکا اور آسڑیلیا میں ملکوں کو فتح کرکے اِن کے وسائل پر قبضہ بھی کرتے اور پھر خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کر کے انہی ملکوں کو منڈیوں کے طور پر استعمال کرتے۔ جب کولمبس نے امریکا دریا فت کیا تھا تو اصل میں یورپی ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریا فت کر رہے تھے یوں واسکوڈی گاما  نے راس امید کا چکر کاٹ کر ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کر لیا اور یوں یورپی اقوام ہندوستان آنے لگیں اور رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی نوآبادتی نظام جڑیں پکڑنے لگا۔

1707 میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہو کر ٹکڑ وں میں تقسیم ہونے لگی اور 1757 میں انگریز نے ہندوستان میں بنیادی فتح اُس وقت حاصل کی جب لارڈ کلائیو نے پلاسی کی دوسری جنگ میں نواب سراج الدولہ کو اُسکے غدار وزیر میرجعفر کے ساتھ مل کر شکست دی اور شہید کیا، یہ عجیب سی تاریخی حقیقت ہے کہ جب ہندوستان میں انگریز مضبوط ہو ر ہے تھے تو امریکا برطانیہ کے ہاتھوں سے نکل رہا تھا، مقامی طور پر انگریز ہی برطانیہ کی پالیسیوں کے خلا ف ہو رہے تھے اور نوآبادیاتی نظام کے خلا ف جدوجہد کرنے لگے تھے اور آخر امریکا نے جارج واشنگٹن کی سر براہی میں 4 جولائی1776 کو کانگریس کی جانب سے آزادی کا اعلان کر دیا۔اس جنگ آزادی میں 20 ہزار برطانوی فوجی مارے گئے تھے۔ پھر 1783 تک پیرس معاہدے کے بعد برطانیہ سمیت تمام ملکوں نے آزاد و خودمختار امریکا کو تسلیم کرکے اُس سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے۔

پہلی جنگ عظیم جو 1914 سے 1918 تک رہی اگرچہ جنگ کے آغاز تک برطانیہ کو فوجی قوت کے اعتبار سے سپر پاور تسلیم کیا جاتا تھا مگر حقیقت میں اس وقت تک امریکا فوجی قوت کے لحاظ سے بھی دنیا کی سپر پاور بن چکا تھا اور خارجہ تعلقات کے لحاظ سے امریکا کے سب سے مضبوط تعلقات برطانیہ ہی سے تھے، پہلی عالمی جنگ سے قبل رقبے اور فوجی قوت کے اعتبار سے اہم برطانیہ اور روس کی زار سلطنت اور ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ تھی جسے خلافت ِ عثمانیہ بھی کہتے تھے۔

اس جنگ کے آخری سال 1917 میں روس میں لینن اور اسٹالن اشتراکی انقلاب لے آئے اور روس کو جنگ سے نکال لیا، امریکا اسی سال جنگ میں جرمنی اور خلا فتِ عثمانیہ کے خلاف یورپی اتحاد میں برطانیہ کے ساتھ شامل ہو کر لڑا، جنگ کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی اور بہت سے اسلامی ملک نوآبادیات میں تبدیل ہو گئے، اگرچہ برطانیہ فاتح تھا اور اُس کی سلطنت کا رقبہ دنیا کے کل رقبے کا تقریباً 25 فیصد اور اس پر دنیا کی تقریبا چوتھائی آبادی تاج برطانیہ کی رعایا تھی مگر اب دنیا میں اقتصادی قوت کے ساتھ ساتھ فوجی قوت کے لحاظ سے بھی امریکا ہی سپر تھا، اب روایتی سیاست اور طرز حکومت پوری دنیا میں تیزی سے زوال پذیر تھی اور اس عالمی تبدیلی میں امریکا اہمیت اختیارکر چکا تھا اور سوویت یونین ایک ایسی قوت تھی۔

جس نے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر دیا تھا، پندرھویں صدی عیسوی کے بعد سے پوری دنیا کا نقشہ مکمل ہو گیا تھا اور اب ساتھ ہی پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے اقتصادی، مالیاتی اور معاشی نظام  عالمگیریت اختیار کر رہے تھے جس کو آج کی زبان میںتمام دیگر شعبوں کی شمولیت کی بنیاد پر گلوبلائزیشن کہا جا رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے اعتبار سے اقتصادی، مالیاتی اور معاشی اثرات عالمگیریت کی بنیاد پر پوری دنیا پر 1929 سے1933 تک عظیم کساد بازاری یعنی Great Deprassion کے لحاظ سے شدید رہی امریکا اس کے پورے اثر سے1941 میں نکلا مگر حیرت انگیز طور پر ہٹلر کی قیادت میں جرمنی اوراسٹالن کی قیادت  میں سابق سوویت یونین بہت جلدکسادی بازاری سے نکل آیا، چونکہ پہلی عالمی جنگ میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے عالمی سطح یعنی پوری دنیا میں اس جنگ کی وجہ سے پڑنے والے معاشی، اقتصادی اور مالیاتی اثرات کا اندازہ نہیں لگایا تھا اس لیے اِن کو معلوم نہیں تھا کہ جنگ کی وجہ سے جیسے جنگ میں ملوث ملکوں اور اِن کے عوام پر اقتصادی معاشی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طر ح پوری دنیا کی جنگ کے اثرات بھی پوری دنیا پر مرتب ہوئے اور پھر 1939 میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ کی دیگر وجوہات میں سے ایک بنیادی اور اہم وجہ بھی یہی عظیم عالمی کساد بازاری تھی۔

امریکہ اپنے آزاد معاشی، اقتصادی نظام اور آزاد مارکیٹ کے بنیادی اقتصادی نظریات کی بنیاد پر ہی کامیا بی سے 1941 میں عظیم کساد بازاری سے نکل آیا تھا، یہ امریکہ کی جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزاد معیشت آزاد مارکیٹ کی بنیاد پر عالمی فتح تھی،کیونکہ اس کے مقابلے میں سوویت یونین میں اشتراکیت کے ساتھ بہت ہی خطرناک قسم کی آمریت تھی اور اسٹالن نے کیمونزم کو ایک کروڑ کے قریب روسیوں کو ہلاک کر کے کامیابی سے نافذ العمل کیا تھا اور ایسی ہی بدترین صورت جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کے نازی فاش ازم کی تھی جب کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں اُس وقت بھی جمہوری آزادی کے ساتھ معاشی اقتصادی تجارتی آزادی آئیڈیل تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر روس جرمنی کے ساتھ تھا لیکن بعد میں صورتحال تبدیل ہوئی اور روس جرمنی کے خلاف برطانوی اتحاد میں شامل ہو گیا۔

یوں یہ ایک عجیب صورت تھی کہ برطا نیہ سمیت مغربی یورپی ممالک روس اور دیگر کیمونسٹ ممالک جو نظریات کے اعتبار سے ایک دوسرے کے خلاف تھے اب جرمنی کے خلاف متحد ہو کر لڑ رہے تھے پھر جرمنی کیساتھ جاپان بھی اتحادیوںکے خلاف جنگ میں شامل ہوا۔ اس جنگ میں کروڑوں افراد ہلا ک ہوئے جرمنی اور جاپان کو شکست ہوئی یہ دوسری عالمی جنگ پہلی عالمی جنگ سے زیادہ خطر ناک تھی مگر اس کے منفی اقتصادی اثرات کو امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور روس نے جنگ سے دو برس پہلے ہی تیار کی گئی حکمت عملی سے کافی کم کر دیا تھا، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِن قوتوں نے ساتھ ہی بہت عمدہ طریقے سے سیاسی نوآبادیاتی نظام کو اقتصادی نو آبادیاتی نظام سے تبدیل کیا تھا اور ساتھ ہی اشتراکی معاشیات کے سامنے سر مایہ دارانہ نظام کو طویل اقتصادی جنگ اور مقابلے کے لیے تیار کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ تک مالیاتی اقتصادی طور پر بھی برطانیہ کے پونڈ کی حکمرانی تھی مگر جنگ کے اختتام 1918 کے بعد اس کی جگہ ڈالر نے لے لی تھی۔

اِن دونوں جنگوں کے دوران دنیا کے سرمائے کا بہاؤ بھی امریکہ کی طرف ہی رہا اور آئی ایم ایف کا ادارہ بھی امریکہ نے ہی قائم کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ نے بہت احتیاط سے کام لیا جاپان شکست خوردہ تھا لیکن یہاں جنرل میکارتھر نے جاپانی قوم کے ساتھ کافی حد تک باعزت رویہ روا رکھا، یہاں امریکہ نے بہت تیز رفتاری سے مارشل پلان کے تحت اس کی اقتصادی معاشی ترقی کو تیز تر کیا اور جاپان امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے ترقی یافتہ ملک بن گیا البتہ اس کی عسکری حیثیت محدود اور امریکہ کے تابع ہو گئی اسی طرح خصوصاً مغربی یورپ میں امریکہ کی معاونت اور امداد سے تیز رفتاری سے محدود مدت میں تعمیر نو کا عمل مکمل ہوا، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اگر اِن ملکوں کو اسی تباہ شدہ حالت میں چھوڑدیا جاتا تو یہاں کیمونزم کے آنے کے اندیشے بڑھ جاتے۔ 1945 ہی میں جنگ کے فوراً بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد فوراً سرد عالمی جنگ کا دور شروع ہوگیا، اس کی  بنیادی وجہ یہی تھی کہ جاپان اور یورپ کو تو تیز رفتار تعمیر ِنو کے عمل سے معاشی، اقتصادی، صنعتی ترقی اور خوشحالی کے لیے سہارا مل گیا تھا لیکن باقی ترقی پذیر اور پسماند ملکوں میں صورتحال مختلف تھی، غربت و افلاس تھا مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیائی ریاستوں میں روس کی حاکمیت کو پرانے نو آبادیاتی تناظر اور اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کونسل کے سیٹ اپ کے ساتھ غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا اور افغانستان کی پو زیشن بھی روس اور برطانیہ کے درمیان وہی حائلی ریاست یعنی بفر اسٹیٹ کی تھی، یوں دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد بعض ملکوں پر فوجی اسٹرٹیجی اور اقتصادی اہمیت کے پیش نظر تنازعا ت پیدا ہوئے تو سرد جنگ کے آغاز میں ہی گرمی آگئی اور25 جون 1950 سے27 جولائی1953 تک شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان شدید جنگ ہوئی امریکہ، برطانیہ اور دیگر سرمایہ دارانہ معیشت کے حامی ممالک جنوبی کوریا کے ساتھ تھے اور سوویت یونین اور چین شمالی کوریا کی جانب تھے، یہ جنگ 27 جنوری1953 کوختم ہوئی، یہاں اب بھی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے لحاظ سے امریکہ کے لیے مسائل رہتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا ایٹمی قوت بن چکا ہے اورکوریا اکثر و بیشتر امریکی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتوں کے باوجود جدید کروز میزائلوں کے تجربا ت کرتا رہتا ہے اور در پردہ روس اور چین یہاںاثرارت رکھتے ہیں، اس کے بعد سرد جنگ کا دوسرا بڑا میدان ویتنا م تھا یہاں بھی شمالی اور جنوبی ویتنام کی بنیاد پر امریکہ جنوبی ویتنام کے ساتھ اور شمالی ویتنام کو سوویت یونین اور چین کی حمایت حاصل تھی یہ جنگ  1955 سے 1973 تک جاری رہی اور پھر خانہ جنگی کی صورت 1975 تک رہی، یہ جنگ امریکہ کے لیے اخلاقی، مالیاتی اور بڑے فوجی نقصان کا سبب بنی۔اس جنگ سے باہر نکلنے میں پاکستان نے بھی امریکہ کی اُس وقت مدد کی اور جولائی 1971 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ ِ چین کروایا اور پھر امریکہ کے صدر نکسن نے چینی حکام سے مل کر معاملات طے کئے اور کچھ عرصے بعد چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ساتھ رکنیت بھی مل گئی مگر اس کے تقریباً پانچ ماہ بعد بعد ہی پاکستان کو 16 دسمبر1971 کو جنگ میں شکست ہوئی اُس وقت تک سرد جنگ کی بنیاد پر امریکہ کی چودہ پندرہ لاکھ تک فوج دنیا کے مختلف علاقوں میں تعینات رہتی تھی مگر ویتنام کی جنگ کے بعد امریکی اسٹرٹیجی بدل گئی اور امریکہ کی کوشش رہی کہ دنیا کے 150 ملکوں میں یا ان کے قریب واقع جزائر میں جن میں سے پیشتر امریکہ اور برطانیہ ہی کے زیر اثر ہیں، فوجیں رہیں اور بہت مجبوری کی حالت میں گراؤنڈ پر فوجیں اتاری جائیں، یہی وجہ ہے کہ اب بھی اگرچہ امریکہ کی فوجیں دنیا کے جنگ زدہ ملکوں میں یا اُن ملکوں کے بالکل نزدیک موجود ہیں مگر بہت کم مواقع پر یہ فوجی محاذ پرآمنے سامنے آتے ہیں اس لیے اب ماضی کے مقابلے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کم ہوتی ہے اس کے بعد اگرچہ کئی ترقی پزیر ملکوں میں سرد جنگ کے پس منظر میں لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے ۔

روس کا کمیونسٹ بلاک اور امریکہ یا نیٹو ایسی جنگوں میں اپنے اپنے فریق کی بھرپور مدد تو کرتے رہے مگر کوریا اور ویتنام کی جنگوں کی طرح خصوصاً امریکہ نے اپنے آپ کو پھنسایا نہیں، 1981 کے بعد امریکہ نے دوسرے ملکوں میں اپنی فوجوں کی تعداد اور بھی کم کردی۔ کویت عراق جنگ سے ایک بار پھر امریکی فوجیوں کی دوسرے ملکوں میں تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ 2003 میں بعض اطلاعات کے مطابق یہ تعداد چود ہ لاکھ تک پہنچ گئی لیکن جلد ہی اس میں کمی ہوئی۔ 2017 تک پوری دنیا میں یہ تعداد 217000 تھی جو اب مزید کم ہو رہی ہے، امریکہ اس وقت بھی فوجی اور اقتصادی اعتبار سے دنیا کی نمبر ون سپر پاور ہے، یہ منصب یا مقام امریکہ نے پہلی جنگ عظیم سے حاصل کیا ہے، سرد جنگ میں اُس نے اپنے اِس مقام کو مستحکم کیا۔

سرد جنگ کے زمانے میں خصوصاً 1970 سے چین نے خود کو بڑی حد تک سرد جنگ سے نکال لیا اور امریکہ سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُس نے سوویت یونین اورا مریکی کشاکش سے ہٹ کر چین کی قدیم اور مستحکم پالیسی کو اپنایا اور اِن دونوں بڑی طاقتوں کی جنگی مصروفیت کے دوران تیز رفتار ترقی کی ، 1980-81 دنیا میںسرد جنگ کے لحاظ سے اہم ترین موڑ تھا جب سابق سوویت یونین افغانستان میں اُسی طرح پھنس گیا تھا جیسے امریکہ ویتنام میں پھنسا تھا، امریکہ علاقے میں پاکستان کو فرنٹ لائن کے ملک کی حیثیت سے استعمال کر رہا تھا اور اُس نے اس موقع پر بھارت اور چین کو قابو میں رکھنا تھا، بھارت جہاں شدید معاشی اقتصادی بحران سے گذر رہا تھا وہاں اُسے کشمیر، ناگا لینڈ ، خالصتان اور تامل جیسے اندرونی شدید مسائل بھی درپیش تھے، یہی وہ دور ہے جب دنیا میں آبادی بیماریوں اور ماحولیاتی مسائل کے خوفناک ہونے کی اطلاعات اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دینے لگے تھے۔

اسی زمانے میں چین نے ایک جوڑا ایک بچہ کی سخت پالیسی اختیار کر کے دنیا کو حیران کر دیا اس دور میں چین نے اپنی اقتصادی، صنعتی اور دفاعی ترقی کی مستحکم بنیادیں رکھیں اور1990 میں جب دیوار برلن گرائی جا رہی تھی تو چین کی معیشت ٹیک آف کر چکی تھی اس کے بعد 2000 سے2010 تک کی پہلی دہائی تک دنیا کی دوسری سپر پاور سابق سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد شروع کے پہلے پانچ برسوں میں بڑے سیاسی اقتصادی بحران سے گذرا، یہاں تک کہ روسی کرنسی روبل جو 1989 تک امریکی ڈالر سے کچھ زیادہ قیمت رکھتا تھا اس کی قیمت 450 روبل فی ڈالر ہو گئی تھی، بھارت معاشی اعتبار سے امریکہ اور اس کے زیر اثر ملکوں کی جانب سے تجارت کے شعبے میں تعاون و امداد سے قدرے بہتر ہو رہا تھا لیکن چین اب عالمی سطح پر اقتصادی طور پر امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آرہا تھا اور ساتھ ہی فوجی طاقت کی طور پر بھی آگے بڑھنے لگا تھا، اسی دور میں یورپی یونین اپنی تشکیل کے بعد نئی عالمی اقتصادی صورتحال کے لیے یورپی اتحاد کے ساتھ سامنے آچکی تھی، واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب تک روس نے ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے تھے۔

اُس وقت بھی روس اسپیس یعنی خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ کے برابر یا اُس سے کچھ آگے تھا لیکن ایٹمی شعبے میں امریکہ آگے تھا،11 ستمبر2001 کے بعد روس دوبارہ مستحکم ہونے لگا اور امریکہ پوری دنیا پر اقتصادی اور فوجی طاقت کی بنیاد پر اپنی اجارہ داری قائم کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ نائن الیون کا واقعہ بلکہ سانحہ اگرچہ بہت دلخراش تھا لیکن اس واقعے نے امریکہ کو پوری دنیا اور خصوصاً نیٹو کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر اپنا نیو ورلڈآڈر نافذ العمل کرتے ہوئے، اقتصادی فوجی قوت کی بنیاد پر اپنی اجارہ داری کو دنیا سے تسلیم کر وا لے، لیکن قدرت کی جانب سے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پوری دنیا کبھی بھی کسی ایک طاقت کے ماتحت نہیں آئی، یوں دنیا کے بیشتر ممالک پر امریکی اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ پوری طر ح امریکہ کے تابعدار ہیں لیکن ساتھ ہی روس اور چین سمیت کچھ ممالک اپنی شناخت کے ساتھ اُس کے مقابلے میں فوجی اور اقتصادی قوت کی بنیاد پر ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں آکھڑے ہیں۔

آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے جاری عالمی ماحول میں اِن کا مقابلہ جاری ہے، اس ماحول کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے ٹاپ ٹونٹی ملکوں کا فوجی اور اقتصادی قوت کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے، ایٹمی ہتھیار انسانی تاریخ کے سب سے خطرناک ترین ہتھیار ہیں، اس وقت ایٹمی ہتھیار امریکہ کے پاس 1600 سے6185 تک ہیں، روس کے پاس 1600سے6500 ایٹمی ہتھیار، برطانیہ کے پاس 120، فرانس کے پاس 300 تک، چین کے پاس 290 ایٹمی ہتھیار، بھارت کے پاس 140 اور پاکستان کے پاس 160 ایٹمی ہتھیار ہیں جب کہ شمالی کوریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کے پاس 30 ایٹمی ہتھیار ہیں اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلومات نہیں ۔ واضح رہے، ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اسپیس ،،خلائی،، ٹیکنالوجی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، ساٹھ کی دہائی میں روس اور اس کے فوراً بعد امریکہ  چاند پر پہنچا، 1962 میں امریکہ نے کیپ کنیڈی کے مقام سے اپنا پہلا سیٹلائٹ خلا میں چھوڑا تھا جس کی وجہ سے امریکہ کے ٹیلی ویژن کی نشریات بحیرہ الکاہل کے پار یورپ میں دیکھی جانے لگیں اور اسی سیٹلائٹ کی مدد سے  میزائل ٹیکنالوجی کو بھی منسلک کر کے ترقی دی گئی۔

1962 تک امریکہ اور روس ایٹمی ہتھیار، میزائل اور خلا ئی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مقابلے پر تھے، آج اگر میزائل ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کوئی ملک امریکہ کا ہم پلہ ہے تو وہ روس ہی ہے جبکہ میزائل ٹیکنالوجی میں امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس، چین کے ساتھ ساتھ اسرائیل، پاکستان، شمالی کو ریا اور بھارت بھی اہم ملک ہیں اور اس وقت ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی اور اس کے ساتھ اسپیس ’’خلائی‘‘ ٹیکنالوجی پر زیادہ فوقیت ہی کی بنیاد پر پہلے نمبر پر امریکہ اور دوسرے نمبر پر روس ہے، جب کہ Power Index فوجی طاقت کی درجہ بندی میں ٹاپ ٹونٹی کے لحاظ سے 2019 میں pi00615 پر امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے جس کے پاس بشمول 5760 ہیلی کاپٹروں کے 13398 لڑاکا طیارے اور 6287 ٹینک ہیں، امریکی نیوی بھی دنیا کی سب سے بڑی ہے جس کے پاس آبدوزوں جنگی بحری جہازوں کی تعداد 415 ہے اور طیارہ بردار بحری جہاز 24 ہیں۔

امریکہ کی فوج کی کل تعداد 2141900 ہے اور امریکہ کا 2019 میں سالانہ فوجی بجٹ 716   ارب ڈالر ہے، PI00639 درجہ بندی پر روس فوجی قوت کے اعتبار سے دنیا میں نمبر 2 پر ہے، روس ایٹمی ہتھیاروں میزائل اور خلائی ٹیکنالوجی کے لحاظ امریکہ کا مقابلہ کرتا ہے، روسی فوج کی تعداد 3586128 ہے 4078 طیارے ہیں، 869 جدید لڑاکا  طیا رے،21932 ٹینک ، نیوی کے 352 جہاز آبدوزیں ہیں، ایک طیارہ بردار جہاز ہے جب کہ سات طیارہ بردار بحری جہاز استعمال میں نہیں ہیں مگر روس کا دفاعی بجٹ 44 ارب ڈالر ہے، فوجی قوت کے لحاظ سے نمبر3 پر چین ہے درجہ بندی PI0.0673 ہے، چینی فوج کی تعداد 2693000 ہے، کل طیارے 3187 ہیں جن میں جدید ترین لڑاکا طیاروں کی تعداد 1222 ہے، 13050 ٹینک ہیں، بحری جہازوں آبدوزوں کی تعداد 714 ہے اور ایک طیارہ بردار جہاز ہے۔

میزائل ٹیکنالوجی کے ساتھ قابلِ قدر حد تک ایٹمی ہتھیار بھی چین کے پاس ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے بعد سب سے بڑا دفاعی بجٹ چین کا ہے جس کا مجموعی حجم 2019 میں 224 ارب ڈالر تھا، حیرت انگیز طور پر بھارت فوجی قوت کے لحاظ سے نمبر4 پر ہے PI.0.1065 کی بنیاد پر اس کی فوج کی تعداد 3462500 ہے، ٹینکوں کی تعداد 4184 ہے، کل طیارے2082 ہیں جن میں سے 520 جدید لڑاکا طیارے ہیں، نیوی کے جہازوں اور آبدوزوں کی تعداد 295 ہے، بھارتی نیوی کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز بھی ہے۔

بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 55.2 ارب ڈالر ہے، اس کے بعد فرانس جس کا دفاعی بجٹ40.5 ارب ڈالر ہے، جاپان دفاعی بجٹ 47 ارب ڈالر، جنوبی کوریا دفاعی بجٹ 38.3 ارب ڈالر ہے، برطانیہ کا دفاعی بجٹ 47.5 ارب ڈالر، ترکی کے سالانہ دفاعی اخراجات 8.1 ارب ڈالر، دسویں نمبر پر جرمنی سالانہ دفاعی بجٹ 49.1 ارب ڈالر، اٹلی کا دفاعی بجٹ 29.2 ارب ڈالر، مصر کا سالانہ دفاعی بجٹ 4.4 ارب ڈالر، برازیل سالانہ دفاعی بجٹ 29.3 ارب ڈالر ہے، ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جس کاسالانہ دفاعی بجٹ 6.3 ارب ڈالر ہے، 15 ویں نمبر پر پا کستان ہے جس کا سالانہ دفا عی بجٹ تقریبا سات ارب ڈا لر ہے، لیکن فوج کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان،امریکہ ، چین ، بھارت اور روس کے بعد پانچویں نمبر پر ہے، پاکستان کی فوج کی کل تعداد 1204000 ہے۔

1342 طیارے ہیں، جدید لڑاکا طیاروں کی تعداد 348 ہے، ٹینکوں کی تعداد 2200 ہے، نیوی کے بحری جہازوں کی تعداد 197 ہے، اور ملٹری واچ میگزین کے مطابق پاکستان کی فوجی قوت کا درجہ دنیا میں دسواں بنتا ہے، پھر ایک سوال یہاں فرانس، برطانیہ جیسے ملکوں کے حوالے سے اٹھتا ہے جو اسلحہ سازی میں بہت آگے ہیںاور بھارت ، پا کستان ایران سعودی عرب اور درجنوں ملک اِن سے سالانہ ارب ہا ڈالرکا جدید اسلحہ خریدتے ہیں ،اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام ممالک جو نیٹو کے رکن ہیں کسی بھی بحرانی صورتحال میں امریکہ کے ساتھ نیٹو کے یہ تمام ممالک دفاع یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے پھر یہ بھی اہم ہے کہ اِن ملکوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اگر فوج تعداد کم میں ہے تو اس سے اِن کے دفاعی نظام پر فرق نہیں پڑتا، یہاں پر دیکھا جائے تو یہ ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں اور بہت خوشحال ہیں، جب کہ ابھی تک عالمی معیار کے مطابق چین اور بھارت ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہیں ہیں۔

یہاں جو بات اہم ہے وہ چین اور بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ ہے، امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ 716 ارب ڈالر تو بہت ہی بڑے حجم کا بجٹ ہے اس کے بعد چین سالانہ دفاعی بجٹ کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے اور اس کا حجم 224 ارب ڈالر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اگرچہ بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ بہت کم ہے لیکن بھارت کے حساب سے 55.2 ارب کا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے اور پاکستان کے مقابلے میں ساڑھے چھ گنا زیادہ ہے، یہاں ایک بات واضح ہے کہ پاکستان اپنی دفاع کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے اس حجم سے زیادہ نہیں بڑھتا اور یہ حقیقت کہ ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان بس اتنی ہی رقم سالانہ اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے جو بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔

اب چین کی صورت یہ ہے کہ ر وس جو سالانہ 44 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتا ہے جو بھارت کے مقابلے 15.2 ارب ڈالر کم ہیں اور اکثر فوجی تجز یہ نگار امریکہ کے بعد چین کو دنیا کی دوسری فوجی قوت تسلیم کر تے ہیں، چین کا مسئلہ یہ ہے کہ اُ س کا مقابلہ امریکہ سے ہے جس کے ساتھ نیٹو ممالک بھی ہیں پھر چین ہی وہ ملک ہے جو دنیا میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کو توڑنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا البتہ اس میں اب عالمی سطح پر امریکہ کے بعد سب سے بڑا حصہ دار بن چکا ہے، یوں آزاد مارکیٹ اور آزاد معیشت کے اس عالمی نظام میں اگر چین کی ترقی کی یہی رفتار رہتی ہے تو چین بغیر کسی جنگ عظیم کے امریکہ سے اُس کے سپر پاور ہو نے کا منصب چھین لے گا؟ اس اندیشے یا چیلنج سے امریکہ غافل نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب امریکہ کو عالمی سطح پر ایک ایسی اقتصادی قوت کے حامل ملک چین کا سامنا ہے جو دنیا میں آبادی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے اور اقتصادی لحاظ سے دوسرے نمبر پر، جب کہ فوجی قوت کی بنیاد پر اگرچہ ابھی اسے عالمی سطح پر تیسرا درجہ دیا رہا ہے لیکن عسکری امور کے تجزیہ نگاروں کی اکثریت چین کو دفاعی بنیادوں پر امریکہ کے بعد دوسرا درجہ دے رہی ہے۔ Investopedia انوسٹوپیڈیا کے مطابق اِس وقت جو اقتصادی لحاظ دنیا کے 193 ممالک میں ٹاپ ٹونٹی ممالک ہیں۔

اِن میں سے17 ملک وہ ہیں جو 1980 سے اس فہر ست میں شامل ہیں جو دنیا کے جی ڈی پی میں اپنے حصّے کے تناسب سے پہلے بیس درجوں پر فائز ہیں اوراس کی ترتیب یوںہے نمبر 1 ۔ امریکہ کا دنیا کے کل جی ڈی پی میں حصہ 23.6% نمبر2 ۔ چین کا تناسب 15.5% ٹاپ ٹونٹی ممالک میں نمبر6 تا10 کا دنیا کے کل جی ڈی پی میں حصّہ 12.8% ٹاپ ٹوینٹی کے11 تا 20 ملکوں کا تناسب اور حصّہ13.3% جاپان5.7% جرمنی4.6% برطانیہ3.3% اور173 ملکوں کا مجموعی حصّہ 21.2% ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 1960 کے  مقابلے میں گلوبل اکانومی میں امریکہ کی حصّہ داری میں کافی کمی ہوئی ہے۔ فاربز کے تجزیہ نگار مائیک پیٹن کے مطابق 1960 سے امریکہ کی گلوبل اکانومی میں حصہ کم ہونا شروع ہوا جو مجموعی طور پر 50% کم ہوا ہے۔

2014 تک امریکہ گلوبل اکانومی میں 40% تک کا حصہ رکھتا تھا، مائیک پیٹن گلوبل اکانومی میں ملکوں کی حصہ داری یا تناسب کی یوں تعریف کرتے ہیں کہ اگر گلو بل اکانومی کا کل جی ڈی پی 100 ملین ڈالر ہو تو امریکہ یا کسی ملک کا جی ڈی پی10 ملین ڈالر ہے تو یہ گلوبل اکانومی کا 10% ہو گا مثلاً 1960 میں امریکہ کاجی ڈی پی 543 بلین ڈالر تھا اور اُس وقت گلوبل جی ڈی پی 1.367 ٹریلین ڈالر تھا یوں اُس وقت امریکہ کا گلو بل اکانومی یا عالمی معیشت میں حصہ یا تناسب40 فیصد تھا اس کے  بعد باوجود نوجوانوں کا اسٹیبلشمنٹ کے خلا ف احتجاج رہا  1969 تک یہ تناسب گوبل اکانومی میں 38% رہا، 1968 سے1980 کے دوران افراطِ زر میں اضافہ تیل کی درآمد اور اسٹور کرنے کے گلوبل جی ڈی پی میں امریکہ کا تناسب اور حصہ کم ہوا اور یہ 26% رہ گیا۔ صدر رونالڈ ریگن کے دور میں امریکی معیشت میں بہتری آئی اور1985 میں گلوبل معیشت میں امریکہ کا تناسب اور حصہ 34% ہو گیا اس کے بعد اس تناسب میں بہتری نہیں آئی۔ صدر بل کلنٹن کے دور میں کچھ ٹھہراؤ رہا لیکن اِن کی صدارت کی دوسرے دور میں گلوبل اکانومی میں امریکہ کا تناسب 32% ہو گیا، اس کے بعد یہ شر ح تناسب متواتر گرتی رہی اور2016 کے بعد گلوبل اکانومی میں امریکہ کا جی ڈی پی تناسب گھٹ کر 22% رہ گیا ہے، یوں 1960 کے مقابلے میں اس تناسب میںتقریباً  50% کمی ہوئی۔

اس اعتبار سے دنیا کی ٹاپ ٹونٹی معیشتوں کا اندازہ ساتھ دی گئی جدول سے لگا یا جا سکتا ہے۔

اگرچہ دنیا کی بڑی قوتیں سیاسی نو آبادیاتی نظام کے خاتمے1945 کے بعد کسی اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتیں لیکن یہاں اِن اعداد و شمار سے آج کی دنیا میں یہ فوجی،ا قتصادی درجہ بندی اور اس کے پس منظر میں ہونے والی عالمی سیاست اور جنگیں یا جنگی ماحول یہ واضح کرتا ہے کہ اقتصادی نو آبادیاتی نظام نہ صرف موجود بلکہ یہ چونکہ بہت ابہام زدہ ، عیار، مکار اور ظالمانہ ہے اس لیے اس سے تاریخِ انسانی میں زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اور بد قسمتی سے عالمی سطح پر اس کے خلاف کوئی منظم اورمتحد مزاحمت بھی مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتی اور یوں یہ اندیشہ ہے کہ یہ آ خرکار پوری دنیا کی مکمل تباہی کا سبب بنے گا۔

امریکہ کیونکہ سپر پاور ہے اس لیے اب تک وہی مرکز ہے جس کے گرد محور میں پوری دنیا سیاسی اقتصادی طور پر اس مرکز ی نقطے پر نظریں جمائے گھوم رہی ہے اب اس صورتحال میں پا کستان جیسے ملکوں کا اپنی اقتصادی آزادی کو قائم رکھنا اور اپنی معاشی ترقی کو مستحکم رکھتے ہو ئے ملک کو خوشحال بنانا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس معاشی اقتصادی آزادی کے لیے قومی شعور کو پوری طرح بیدار نہ کیا جائے۔ پاکستان خطے میں جہاں واقع ہے وہاں دنیا کی دوسری ، تیسری اورچوتھی فوجی قوت، روس، چین اور بھارت موجود ہیں، اسی طرح دنیا کی ٹاپ ٹونٹی اقتصادی قوتوں میں سے دوسری اقتصادی قوت چین، ساتویں اقتصادی قوت بھارت اور گیارویں اقتصادی قوت روس موجود ہے ،اگرچہ اس ٹیبل میں ٹاپ ٹونٹی اقتصادی معاشی قوتوں کی درجہ بندی پر ہی اس فہرست کو محدود رکھا گیا تھا مگر پا کستا ن اور بنگلہ دیش جو برصغیر کا حصہ رہے ہیں۔

اُن کی صورتحال بھی سامنے رکھنا ضروری تھا۔ بنگلہ دیش اقتصادی طور پر اس وقت قدرے بہتر پوزیشن میں ہے جب کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے جاری جنگ میں فرنٹ لائن کا ملک ہے جس سے اس کی معیشت خاصی متاثر ہوئی ہے جس میں جنگی صورتحال کے علاوہ کرپشن بھی ایک بڑی وجہ ہے جب کہ فوجی قوت کے لحاظ سے پاکستان ایٹمی قوت اور اعلیٰ معیار کی میزائل ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اور متوازن خارجہ پالیسی سے اس قابل ہے کہ وہ اس اقتصادی نو آبادیا تی نظام سے چین، روس کی طرح مکمل آزادی حاصل کر لے، ان حالات میں جب امریکہ، چین اور روس عالمی سطح  پر فوجی اور اقتصادی رسہ کشی میں مصروف ہیں اور بھارت امریکہ کے ساتھ فریق بنتا دکھائی دے رہا ہے تو ہم متوازن اور غیر جانب دار رہ کر دنیا کی بہتری کے لیے اور صرف پا کستان کے مفاد میں ان قوتوں سے تعلقات کے لحاظ سے پالیسیاں ترتیب دیں ۔

( جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔