بیلنس نہیں ہے

خرم علی راؤ  جمعـء 10 جنوری 2020

میرے ایک دوست نے میرے سامنے ایک اور دوست سے کہا کہ’’یار ذرا سیل فون تو دینا، ایک کال کرنی ہے میرا بیلنس نہیں ہے‘‘ تو ترنت جواب ملا کہ ’’میرے پاس بھی بیلنس نہیں ہے ‘‘ اور پھر جب مجھ سے کہا تو میرے پاس بھی بیلنس نہیں تھا اور یہ نہیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی جھوٹ کہہ رہا تھا بلکہ واقعی ایسا ہی تھا تو پھر ہم تینوں مل کرگئے اور اپنے اپنے فونز میں بیلنس ڈلوایا۔

یہ فقرہ یعنی بیلنس نہیں ہے، جیسے ذہن سے چمٹ سا گیا اور جب وقت ملنے پر اس پر غورکیا توکم ازکم مجھ جاہل کو تو یہی لگا کہ ارے بھئی یہ تو ایک آفاقی اور ہمہ گیر نوعیت کا حامل کمال کا ایک فقرہ ہے، جس کی معنویت بے مثال ہے اور جس کا عملی اطلاق موجودہ دورکے لحاظ سے ہم ہر سطح پرکرسکتے ہیں۔

چاہے ہم بیلنس کے معنی توازن کے لیں یا مال ، پیسے اور بینک بیلنس کے، دونوں اعتبار سے یہ تو ایک قبولیت عامہ رکھنے والا اور ایک عالمگیر سچائی کا اظہارکرنے والا چھوٹا سا جملہ ہے اور واقعی کہیں بھی کسی بھی طرح دیکھا جائے تو یہی پتہ سا لگتا ہے کہ بیلنس نہیں ہے۔

چلیں رویوں سے بات شروع کرتے ہیں تو رویوں میں ، اخلاقیات میں ، معاملات میں جذبات و احساسات میں بیلنس نہیں ہے، توازن نہیں ہے اور یہ عدم توازن ہمیں قدم قدم پر روزمرہ پیش آنے والے دیدہ اور شنیدہ واقعات میں جھلکتا نظر آتا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اکثر و بیشتر آپے سے باہر ہونے میں اورجذباتی عدم توازن کا اظہار اور اسے اختیار کرنے میں ذرا نہیں چوکتی۔

بیلنس نہ ہونے کی تو دیکھیے نا یہ فقرہ کہاں تک مارکرتا ہے۔ لوگوں کے پاس موبائل میں بیلنس نہیں ہے، ان کے آپسی معاملات میں بیلنس نہیں ہے، ان کے بینکوں میں بیلنس نہیں ہے عوام کی جیب میں بیلنس نہیں ہے۔ طلب ورسد میں بیلنس نہیں ہے جس کا نتیجہ روز افزوں مہنگائی ہے اور اس روز افزوں مہنگائی کا نتیجہ آپس میں عدم برداشت کا پیدا ہونا اور لڑائی جھگڑوں میں اضافے کا ہونا ہے کہ کہیں کا غصہ کہیں نا کہیں تو نکلتا ہی ہے۔ یہ تو عوامی سطح پر بیلنس نہ ہونے کی ایک مثال ہے کہ کیسے مہنگائی اور طلب ورسد میں بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ اَن بیلنس ہوتا جا رہا ہے۔

خواص کی سطح پر بھی بیلنس یا توازن نظر نہیں آتا، مختلف محکموں کے آپس کے تعاون، اعتماد و اعتبار میں بیلنس نہیں ہے اور عدم اعتمادکا عدم توازن قریہ بہ قریہ جو بہ جو اورکوبہ کو نہ صرف نمایاں ہے بلکہ بعض دفعہ تو تصادم کی سی حالت اختیارکر جاتا ہے، پھر ہماری پیاری تبدیلی سرکارکی باتوں اور حرکتوں یا یوں کہہ لیں کہ اقوال واعمال میں بیلنس ڈھونڈنے کے لیے اگر الیکٹرانک خورد بین جو بے حد چھوٹے ذرات کوکم ازکم دس لاکھ گنا تک بڑا کرکے دکھا سکتی ہے، کا اگر استعمال کیا جائے تو شاید کہیں بیلنس یا توازن کی کوئی رمق نظر آجائے وگرنہ انسانی آنکھوں کو اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں ایسی کوئی چیز سوئے نظر قسمت سے نہیں آسکی، حتی کہ حکومتی وزراء کا ایک ہی مسئلے پر اکثر و بیشترمتضاد موقف ہونا، اس بات کا غماز ہے کہ بیلنس نہیں ہے اور انھیں سوچنا چاہیے کہ ماہر ڈرائیوروں کا قول ہے کہ یو ٹرن لیتے وقت اگر بیلنس خراب ہوجائے توگاڑی الٹ بھی جاتی ہے یعنی یو ٹرن کے لیے بھی بیلنس ضروری ہے جوکہ نہیں ہے۔

پھرکار زار سیاست کی بی ٹیم یعنی جسے اپوزیشن کہا جاتا ہے، وہاں تو بیلنس نہ ہونے کے ایسے ایسے مظاہر اور نمونے ملتے ہیں جوکہ بڑی سنجیدہ تحقیق کا تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر بیلنس کیوں نہیں ہے؟ اورگیا توکہاں گیا ، شنید ہے کہ متعقلہ شعبے کے تحقیق دان اور ماہرین اس تفتیش وتحقیق میں اب غیر ملکی ماہرین اور سپرکمپیوٹرز کا سہارا لینے پر غورکر رہے ہیں کہ بیلنس کیوں نہیں ہے اورگیا تو آخرکہاں گیا کیونکہ اس سے کم درجے کے کمپیوٹرز اس معمے کو حل کرنے میں قطعا ناکام رہے ہیں، ویسے اس سے مراد بینک بیلنس نہ لی جائے بلکہ یہ توازن والے بیلنس کی بات کی جا رہی ہے کیونکہ ایسے کمپیوٹرز تو شاید آیندہ سالوں ہی میں ایجاد ہوسکیں جو یہ حیرت انگیز تحقیق کماحقہ کر پائیں کہ بینک بیلنس کہاں سے کہاں کہاں گیا اور اب کہاں ہے اور اس والے بیلنس کے معاملات میں تو وہی حال ہے کہ تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے یعنی کیا حکومت اورکیا اپوزیشن،کیا کوئی اور، سب ہی باون گزے ہیں۔

اب اگر بین الاقوامی سطح کی اور عالمی گاؤں کی بات کریں تو وہاں بھی بیلنس نہ ہونے کی عملی مثالیں نہ صرف پہلے سے ہی بہت سی موجود ہیں بلکہ آئے دن نت نئی تخلیق بھی کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے چند ٹھیکیدار ہیں جو اپنی اپنی ڈوریاں کبھی چھپ چھپا کر اورکہیں کھلے عام ہلا رہے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے اپنے مفادات کے لیے زبردست عدم توازن کا شکار بنا دیا ہے اور جدھر دیکھیں بس شعلے سے بھڑکتے نظر آرہے ہیں چند لوگوں اورگروہوں کے فائدے کے لیے ساری دنیا کے لوگوں کی ایک عظیم اکثریت ظلم ، خوف ، بھوک ، انسانی المیوں اور عدم تحفظ کا شکار ہے اور انسانیت کے پاس اب محبت ، امن ، خوشحالی اور دیگر مثبت چیزوں کا بیلنس جیسے ختم سا ہی ہوگیا ہے اور اگرکچھ بچا کچا ہے تو یہ مفاد پرست ٹولے اپنے گروہی مفادات کے تحت اسے بھی ختم کر ڈالنے کی فکر میں جٹے ہر قسم کی چالیں چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

تو بات کچھ یوں سمجھ آئی کہ افراد ،گروہوں ، قوموں ، رویوں ، معاملات ، احساسات ، شعبوں ، اداروں اور ممالک میں توازن یا بیلنس کا شدید فقدان ہے اور جسے دیکھوں وہ توازن کو خیر باد کہہ کر اپنے اپنے سچ کو اٹھائے عدم توازن یا انتہا پسند ہونے کا مظاہرہ کرتا نظر آرہا ہے اور یہ بات کہ بیلنس نہیں ہے کہ ایک فرد ، خاندان ،گلی محلے ، علاقے ، شہر صوبے ، ریاست ، ملک ، براعظم اور ساری دنیا کے اعتبار سے بالکل درست نظر آتی ہے کہ بیلنس نہیں ہے اور بیلنس کا یہ نہ ہونا بڑی خطرناک بات ہے کیونکہ ہماری زمین سمیت ساری کی ساری کائنات ہی ایک زبردست بیلنس اور باریک توازن پر استوار ہے اور چل رہی ہے جس میں خفیف سی کمی یا بگاڑ سب کچھ تباہ کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔