لاشوں کے بیوپاری

نسیم انجم  ہفتہ 9 نومبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

وہ کئی بہن بھائیوں کا گھرانہ تھا، والد صاحب استاد اور ان کی والدہ ماجدہ ضعیفی کے باوجود کھیتوں میں فصلیں اگاتیں اور انھیں کاٹتیں، سبزیاں بوتیں اور پھر تازہ تازہ سبزیاں بیلوں اور پودوں سے توڑتیں، انھیں اکٹھا کرتیں اور گھر لے جاتیں تاکہ چولہا جلے اور سب شکم سیر ہوسکیں، وہ دن بھی بڑا عجیب اور پریشان کن ساتھا، آسمان شفاف اور سورج کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، بادل نہ جانے کہاں جا چھپے تھے، اندھیرا تو دور کی بات، ملگجا سا اندھیرا بھی نہیں تھا اس کی وجہ سیاہ گھنگھور گھٹائیں منظر سے غائب تھیں۔ گھر کا ہر فرد اپنے اپنے کام انجام دے رہاتھا۔ 9 سالہ نبیلہ بھی اپنی دادی کے ساتھ بھنڈیاں چن رہی تھی، گویا وہ ان کا ہاتھ بٹارہی تھی۔ گائوں اور دیہات میں یہی ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کی جب کھیلنے کودنے، پڑھنے لکھنے کی عمریں ہوتی تو ان بے چاروں کو معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ بہت کم بچے مدرسے جاتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں۔ نبیلہ اس کی دادی اور بہن بھائیوں پر اس وقت ڈرون کے ذریعے حملہ کیا گیا جب وہ اپنی دادی کے ساتھ کھیتوں میں کام کررہی تھی، اس حملے میں اس کی دادی جاں بحق ہوگئی جب کہ وہ اور اس کا بھائی شدید زخمی ہوگئے۔ زبیر کی ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے اس کے دو آپریشن ہونے باقی ہیں۔

جس وقت نبیلہ نے امریکا پہنچ کر اپنی غمزدہ داستان سنائی تو کانگریس کے ارکان سکتے کی حالت میں آگئے اور مترجم آبدیدہ ہوگئیں، لیکن یہ سب کچھ تھوڑی ہی دیر کے لیے ہوا اور بعد میں ماحول پرسکون ہوگیا۔ نبیلہ کو آئسکریم پیش کی گئی جو اس نے اسی میز پر بیٹھ کر کھائی۔ ظاہر ہے بچہ ہی تو ہے کوئی بڑا بھی ہوتا تو وہ بھی کھانے پینے کی اشیاء سے ضرور اپنا پیٹ بھرتا، حالات اپنی جگہ سہی، فطری خواہشات اپنی جگہ۔ ان حالات میں امریکا کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ ڈرون حملے انتہائی مطلوب اہداف پر کیے جاتے ہیں اور اس میں سویلین جانی نقصان بہت کم ہوتا ہے۔ اس موقع پر نبیلہ کے والد رفیق الرحمن نے اے ایف پی سے اپنے انٹرویو میں کہاکہ میں نے ایک ڈاکومنٹری پروڈکشن کمپنی کی دعوت پر یہاں آنا اس لیے قبول کیا کہ ڈرون حملوں سے متعلق امریکا کو آگاہی دے سکوں، ان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر کے آس پاس نہ کوئی مشکوک کار تھی اور نہ عمارت اور نہ میری والدہ اور بچوں کے چہرے دہشت گردوں جیسے تھے۔ پھر امریکا نے انھیں موت کی نیند کیوں سلادیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر نہ کہ امریکا کو بلکہ پاکستان کو بھی غور کرنا چاہیے۔

وزیراعظم نواز شریف کے امریکا جانے کے کچھ مقاصد ہیں جن میں سب سے بڑا مقصد ڈرون حملوں کو رکوانا ہے۔ وہ کوشش بھی کررہے ہیں، مذاکرات ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکا کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ اس نے اس دوران بھی حملہ کردیا جب کہ ڈرون کو رکوانے کی جدوجہد ہورہی ہے۔ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے سے تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ امریکی جاسوس طیارے نے میران شاہ بازار کے قریب ایک گھر پر دو میزائل داغے جن سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ یہ بات بھی بڑی ہی افسوسناک ہے کہ ڈالروں کے بدلے انسانی جانوں کا سودا بڑی آسانی کے ساتھ طے کرلیا جاتا ہے۔ دولت کی چمک کے آگے صاحب اقتدار یہ بات ہرگز نہیں سوچتے ہیں کہ کوئی دوسرا یا دوسری بڑی طاقت انھیں اور ان کے خاندان کو آگ میں جھونک دے، تب ان پر کیا گزرے گی؟ مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن وہ نگاہ، وہ دل وہ دماغ ہی نہیں جو عبرت حاصل کرے اور اپنے ہی لوگوں کو دائو پر نہ لگایاجائے۔ لیکن مال وزر کی ہوس نے ان کا جیتا جاگتا ضمیر سلادیا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کانگریس میں ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے رکن ایلن گریسن یہ کہنے پر ہرگز مجبور نہ ہوتے کہ ’’پاکستان اگر چاہے تو کل ہی ڈرون حملے بند ہوسکتے ہیں، پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کے حملے نہیں ہوسکتے۔ پاک فضائیہ کافی طاقتور ہے۔ اور اس کے پاس قوت ہے اپنی فضائی سرحد پر وہ جب چاہیں پابندی لگاسکتے ہیں۔ پاکستان کے عسکری ادارے شدت پسندوں کو قابو میں لاسکتے ہیں، ہزاروں شہریوں کی زندگی آسان ہوسکتی ہے‘‘ لیکن سابقہ حکومتوں نے اپنے ہی شہریوں کو ڈرون حملوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آج سے نہیں سالہا سال سے اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ ان حملوں میں ایک نبیلہ کا ہی گھرانہ کیا ہزاروں ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں، اونچے نیچے راستوں سے جاتی ہوئی باراتیں قبرستان میں بدل گئی ہیں۔ شادیانے نوحوں میں ڈھل گئے۔ سہاگ اجاڑے گئے۔ بچے یتیم ہوئے، کتنے ہی کنبے ڈرون حملوں کی نذر ہوگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جنھیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ’’سیاست‘‘ کس بلا کا نام ہے، امریکی دشمنی سے وہ ناواقف تھے، وہ تو اپنی دنیا میں مگن تھے، رزق حلال کماتے اور جیون کے دن بسر کرتے لیکن ان حملوں نے چین وسکون برباد کردیا ہے۔

ڈرون کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ سینیٹ میں وفاقی حکومت کا دعویٰ کہ ڈرون حملوں میں دو برسوں کے دوران کوئی شہری جاں بحق نہیں ہوا، یہ بیان انتہائی شرمناک اور عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔ انھوںنے مزید کہا کہ وزیر داخلہ نے ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد انتہائی کم بتاکر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ سی آئی اے کے ڈرون آپریٹر نے بھی مزید مراعات لینے سے انکار کردیا اور استعفیٰ دے دیا کہ وہ بے قصور شہریوں کو تڑپتا، سسکتا اور مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ آخرکار آپریٹر کو بھی رحم آہی گیا ان کا بھی ضمیر جاگ گیا۔ لیکن رحم نہ آیا تو ہمارے اپنوں کو چونکہ امریکا کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے جنگی جرائم کے مترادف ہیں، ڈرون پروگرام کے گرد پائی جانے والی راز داری امریکی انتظامیہ کو بنیادی قوانین کی گرفت سے آزاد کرکے قتل وغارت کا لائسنس دیتی ہے۔

جب کہ امریکا بار بار اس بات کو دہرا رہا ہے کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کو بند نہیں کرنا چاہتا ہے، وہ ڈرون حملے کرکے اپنی حاکمیت اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایک طرف امریکا ڈرون حملے بند کرنے کے حق میں نہیں ہے تو دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے لیے ایک ارب 60کروڑ ڈالر کی امدادی رقم جاری کرے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہارف نے کہاکہ اس امداد میں ایک ارب 38 کروڑ ڈالر کی فوجی جب کہ 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سویلین امداد شامل ہے۔ یہ ہے امریکا کی منافقانہ پالیسی اور دہرا معیار، امریکی امداد سے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں اور بدنامی علیحدہ، پاکستان کا وقار امدادی رقوم حاصل کرنے کی ہی وجہ سے کم ہوا ہے۔ لاشوں کے بیوپاریوں کو اب سمجھ آجانا چاہیے۔ کالم کی اختتامی سطور تھیں کہ یہ خبر چینل سے سننے کو ملی کہ ڈرون حملہ امریکا نے پھر کردیا۔ اس بار اس کا نشانہ پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود، ان کے چچا، کمانڈر عبداﷲ اور گارڈ تھے، یہ حملہ مذاکرات کی ناکامی کے طور پر کیا گیا۔ 3 رکنی وفد طالبان سے مذاکرات کے لیے ملاقات کرتا لیکن امریکا کو یہ پسند نہیں تھا کہ پاکستان میں امن ہوسکے۔

امریکا کو منہ توڑ جواب اس کی امداد لینے سے انکار کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ میں عمران خان کے ساتھ مل کر نیٹو سپلائی روکنے کی پوری کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان کے ہی راستے سے گزر کر معصوم پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنا پاکستان کی کمزوری اور شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔