بربادی کی طرف

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 9 نومبر 2013

بہت قدیم دنوں میں چرچ کہا کرتا تھا ’’سبھی راستے روم کی طرف‘‘، آج کل پاکستان کے حالات نے نیا نعرہ لگا رکھا ہے ’’سبھی راستے بربادی کی طرف‘‘۔ یونیسیف کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کا شکار 5 سال سے کم عمر 44 فیصد بچے کبھی ایک مکمل انسان نہیں بن پائیں گے، یعنی ان کی Stunted growth ہوتی ہے، یہ بچے بڑے ہو کر اپنی اگلی نسل جیسی قامت اختیار نہیں کرپائیں گے، یعنی صرف 15 سال بعد پاکستان کی آدھی آبادی کے قد اپنی نسل کے باقی افراد کی نسبت چھوٹے ہوں گے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور تقریباً 21 فیصد غذائی ضروریات کے حصول میں قحط کا سامنا کررہے ہیں، اسی بینک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 15 سال سے زائد عمر کے 50 فیصد افراد بے روزگار ہیں، تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی افراط زر غربت کو جنم دے رہی ہے۔

ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے مطابق غذائی اجناس کی قیمتوں میں ہونے والا 10 فیصد اضافہ 2.2 فیصد یعنی 24 لاکھ مزید پاکستانیوں کو سطح غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے اور گزشتہ چند ماہ میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں 69 لاکھ لوگ غربت کی اندھی گہرائیوں میں غرق ہوگئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر روز مزید 30 ہزارسے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں۔ 78 فیصد آبادی انتہائی غربت میں رہ رہی ہے،  82فیصد لوگ غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہیں، 60 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ ملک میں لاکھوں لوگ روز زہریلا پانی پینے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اے، بی، سی کے مریض بن رہے ہیں۔ گاڑیوں کے زہریلے دھویں کی وجہ سے ہزاروں لوگ روز ٹی بی اور دمے کے مریض بن رہے ہیں۔ گندگی کی وجہ سے ہزاروں لوگ روزانہ ٹائیفائیڈ، ملیریا، ڈینگی کے مرض کا شکار ہورہے ہیں۔

ملکی مصائب، تکلیفیں، دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے ملک کی 70 فیصد سے زائد آبادی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ غربت کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اور عورتیں غلط سمت کی طرف جانے پر مجبور ہیں۔ نفسیاتی امراض، بیروزگاری، غربت، جہالت کی وجہ سے 20 فیصد لوگ ہیروئن، چرس، بھنگ جیسے عذاب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رجعت پسند نصاب، تکالیف، غربت کی وجہ سے ملک کی آدھی سے زائد آبادی مذہبی انتہاپسند بنتی جارہی ہے۔ پولیو کے قطرے نہ پلانے کی وجہ سے 10 سال بعد آدھے سے زیادہ بچے لولے لنگڑے، اپاہج بن جائیں گے۔ آبادی میں خو فناک حد تک اضافے کی وجہ سے 2050 تک ملک بدترین قحط کا شکار ہوجائے گا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے گھر گھر جھگڑے شروع ہوجائیں گے اور توانائی کا بحران حل نہ کیا گیا تو ملک کی 70 فیصد آبادی اندھیروں میں ڈوب جائے گی۔ 2050 تک یہ ہی بدحالی جاری رہی تو پاکستان بینکاک بن جائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) جو اس وقت بڑی اسٹیک ہولڈر ہے اور جسے پاکستان کے عوام نے اپنے مسائل کے حل کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ  ملک اور قوم کو جو اتنی وحشت ناک صورتحال سے دوچار ہے اور مزید دوچار ہونے کی طرف جارہا ہے، نکالنے کے لیے دن رات جنگی بنیادوں پر کام کرتی۔ حالانکہ دیگر قومی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ (ق) نے ہر ملکی مسئلے پر اسے اپنے بھرپور تعاون کی پہلے ہی روز یقین دہانی کروا دی تھی اور انھوں نے اپنے تعاون کا عملی مظاہر ہ بھی کیا۔ لیکن پاکستان کے عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والے سب سے پہلے انھیں کیوں بھول جاتے ہیں۔ ادھر دوسری طرف عمران خان جنھوں نے پاکستان کے عوام کو درپیش عذابوں، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، دہشت گردی، بدامنی، جہالت کے خلاف تو چپ سادھ رکھی ہے، لیکن  کبھی مذاکرات، مذاکرات کا کھیل شروع کردیتے ہیں اور انھوں نے آج کل حکیم اﷲ محسود کی لاش کی آڑ میں نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کرکے نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ دراصل وہ اس اعلان کے ذریعے پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔

چلیں ذرا فرض کرلیتے ہیں کہ عمران خان نیٹو کی سپلائی رکوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کیا پاکستان کو درپیش تمام مسائل یک دم ختم ہوجائیں گے، اور ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوجائے گا یا نئے مسائل کا انبار کا انبار لگ جائے گا۔ اگر آپ امریکا کو ناپسند کرتے ہیں تو کرتے رہیں کوئی آپ کو اسے پسند کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا، لیکن خدارا آپ اپنے ذاتی ایجنڈے کی خاطر قاتل اور شہید کو ایک ہی قطار میں کیوں رکھ رہے ہیں۔ آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستانی مسلح افواج اور پولیس کے 7 ہزار کلمہ گو افسران و اہلکار اور 40 ہزار سے زائد معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل کون ہیں۔ سیکڑوں مساجد، امام بارگاہوں، گرجاگھروں، بزرگا ن دین کے مزارات، لڑکیوں کے اسکول، مسلح افواج کی تنصیبات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے کون ہیں۔ پاکستان کے آئین کو نہ ماننے والے کون ہیں، ریاست کے اندر ریاست بنانے والے کون ہیں۔ خدارا ملک اور قوم پر ترس کھائیے، قوم کو مزید بے وقوف بنانے کی کوشش مت کریں۔ پاکستانی قوم بہت سمجھ دار ہے، وہ سب سمجھ رہے ہیں کہ مذاکرات، نیٹو سپلائی کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل اقتدار بچانے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ لیکن وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ قوم بہت مشکل میں ہے، اگر قوم کو مشکل سے نکالنے کے لیے آپ میں صلاحیت نہیں ہے تو پھر دوسروں کو موقع دے دیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔